کیا بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے اپنا ایک صوبہ یا حصہ بنا سکتا ہے۔ یہی آرٹیکل 370 جو خود بھارتی حکمرانوں نے بنایا اور اسے آئین کا حصہ بنایا کیا اب مودی سرکار کے گلے میں پھندے کی طرح نہیں پھنس گیا۔ کیا ان اقدامات سے کشمیریوں کا حق خود ارادیت ختم ہو سکتا ہے۔ کیا اقوام متحدہ کی قراردادیں غیر مؤثر ہو گئیں۔ بھارت کو ان سارے سوالوں کے جواب معلوم ہیں مگر صرف اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنا چاہتا ہے جو ممکن نہیں۔ قیام پاکستان سے قبل ہی 19جولائی 1947ء کو کشمیریوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا تھا۔ اس وقت سے اب تک ہرسال 19جولائی کو یوم الحاق کشمیرمنایا جاتا ہے۔19 جولائی1947 ء کو سری نگر میں کشمیریوں کی نمائندہ تنظیم مسلم کانفرنس کا تاریخی اجلاس چودھری حامد اللہ خان کی صدارت میں سردار محمد ابراہیم خان کے گھر میں ہوا۔ پاکستان سے الحاق کی قرارداد خواجہ غلام الدین وانی اور عبدالرحمان وانی نے پیش کی، اجلاس کے تمام شرکاء نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کرلی۔ پاکستان سے الحاق کی اسی قرارداد کی بنیاد پر برطانوی حکمرانوں نے برصغیر کی تقسیم فارمولے کے تحت یہ آزادی دی تھی کہ کشمیری جس ملک کے ساتھ چاہیں الحاق کرلیں لیکن اکتوبر 1947 ء میں بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرلیا اور کشمیر میں مسلمانوں کی تعداد کم کرنے کے لئے ان پر بے شمار مظالم ڈھائے۔ کشمیری آج بھی الحاق کی خواہش سے دستبردار نہیں ہوئے۔ کشمیری عوام نے پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے آج تک بھارت مخالف مظاہروں میں پاکستانی پرچم لہرائے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ پورے برصغیر میںتقریباً پانچ سو ریاستیں ایسی تھیں جو کافی حد تک خود مختیار تھیں اور انہیں یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت کسی بھی ملک میں شامل ہوجائیں۔ ریاست جموں و کشمیر کا بھی ان پانچ سو ریاستوں میں شمار ہوتا تھا جہاں کسی حد تک انگریزوں کے تابع نیم بادشاہت قائم تھی اورکسی حد تک ریاست اندرونی معاملات میں فیصلے کرنے کے لئے خود مختار تھی۔ جون میں 1947 ء کے آزادی ایکٹ کے تحت ان ریاستوں پر انگریزوں کی عملی حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا توآئینی طورپر تو یہ ریاستیں انگریزوں کی عملداری سے آزاد ہوگئیں، مگر 25 جولائی 1947ء کوگورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن نے ان ریاستوں کے سربراہان کو نصیحت کی کہ پاکستان اور ہندوستان میں سے کسی ایک ڈومینن (ریاست) کے ساتھ الحاق اختیار کریں۔ہندو رہنماؤں کے ورغلانے پر جب کشمیر کے ہندو راجہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ منسلک ہونے کی درخواست کی تو نہرو نے فوراً اسکو مان لیا جو اس اصول کی صریحاً خلاف ورزی تھی جو کانگریس کے مطالبے کی بنیاد تھا کہ ریاست میں عوام کی اکثریت یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کہ اسے پاکستان یا ہندوستان میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا ہے۔ آزادی کے وقت جموں و کشمیر کی کل آبادی40 لاکھ تھی، جس میں 77فیصد اکثریت مسلمانوں کی تھی، جبکہ وادی کشمیرمیں مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کا 92 فیصد تھی۔ پورے کشمیر میں پاکستان کی آزادی پر بھرپور جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا گیا۔ مسلمانوں نے اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر پاکستان کے جھنڈوں کو لہرادیا، مگر نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے ریڈ کلف نے جو کہ پنجاب باؤنڈری کمیشن کا چیئر مین تھا، صریحاً بد دیانتی سے گورداس پور ضلع کی دو مسلم اکثریت کی تحصیلیں ہندوستان کو دے دیں ۔ یہیں سے ہندوستان میں شامل سکھوں کی ریاستیں پٹیالہ اور کپور تھلہ کے سکھ حکمرانوں نے اپنی فوجیں کشمیر کے مسلمانوں کو پاکستان سے الحاق روکنے اور ان کو کچلنے کے لئے بھیج دیں۔ اس ساری صورتحال پر نظر رکھتے ہوئے 30اکتوبر کوحکومت پاکستان نے واضح اعلان کیا کہ کشمیر کا ہندوستان سے الحاق سراسر دھوکا اور غیر منصفانہ ہے اور کشمیر کو ہندوستان کا حصہ تسلیم کرنا پاکستان کے لئے قطعاً ناممکن ہے، کیونکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اوراگر انہیں اپنی مرضی سے رائے شماری کا موقع دیاجائے تو وہ اپنی تہذیب، جغرافیائی، معاشی اور ثقافتی عوامل کی بنا پر ہر حال میں پاکستان کے ساتھ فطری طورپرالحاق کریں گے۔ اسی وجہ سے آج کشمیریوں نے آخری آدمی تک جد و جہد آزادی کو جاری رکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک اپنے منطقی انجام سے ہمکنار ہو کر رہے گی۔ حکومت پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے کشمیریوں کی سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے۔ پاکستان نے برملا کہا ہے کہ کشمیریوں کی تحریک ان کی آزادی کی تحریک ہے، اسے دہشت گردی سے جوڑنا بددیانتی ہے۔ بھارتی افواج نہ تو کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو آج تک دبا سکیں ،نہ ختم کر سکیں۔ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ طاقت کے استعمال کے بجائے مذاکرات کی میز پر آئے اور اقوام متحدہ کی قرارداروں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دے۔ پاکستان اور کشمیر ایک تہذیبی اکائی کا نام ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی ،سیاسی اور سفارتی امداد جاری رکھے گا اور نہتے کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ لہذا حکومت پاکستان کی ہدایت پر ہر سال 19 جولائی کو ملک بھرمیں یوم الحاق کشمیر منایا جاتا ہے جبکہ 20 جولائی کوکشمیری عوام اپنے اوپربھارتی ظلم و ستم کے خلاف یوم سیاہ منا تے ہیں۔ بھارت نے اگر جنوبی ایشیا کے عوام کے جذبات کونظرانداز کرنے کا سلسلہ بند نہ کیا تو یہ خطے کے امن کے لئے نیک شگون نہیں ہو گا۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کی جدوجہد کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا اورانہیں کسی صورت تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اقوام متحدہ کو کشمیر کے بارے میں اپنے نامکمل ایجنڈا کو پورا کرنا چاہئے اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کو یقینی بنانا چاہئے۔ بھارت کشمیریوں پر وحشیانہ مظالم ڈھارہا ہے ۔پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔کشمیری اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور بھارتی جارحیت کشمیریوں کے عزم کو اور زیادہ مضبوط بنائے گی۔مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوجی کشمیریوں کی جدوجہد کو دبا نہیں سکتے۔