15اگست بھارت کے یوم آزادی کوکشمیری مسلمان یوم سیاہ کے طورپرمناتے ہیں۔15اگست علیٰ الصبح حسب سابق بھارت کے تئیں نفرت کے اظہارکے طورپر مقبوضہ کشمیرکی مساجد سے یہ اعلان ہورہاتھا کہ کشمیری عوام احتجاجاََ ایک بارپھر 15اگست کویومِ سیاہ کے طورپر منارہے ہیںاسی اعلان کے ساتھ ہی اسلامیان کشمیر نے اپنے گھروں، دکانوں، سرکاری اورنیم سرکاری دفتروں، گلی کوچوں ،چوک چوراہوں،بجلی کے کھمبوںپرسیاہ جھنڈے آویزاں کئے جبکہ بچوں ،نوجوانوں اوربزرگوں نے اپنے بازوں پرسیاہ پٹیاں باندھ رکھیں ،احتجاجی ہڑتال کے باعث سری نگرسمیت وادی کے تمام شہروں میں ہوکاعالم تھا اور سڑکیں سنساں،دکان مقفل اور بازارمکمل طورپربند پڑے تھے کوئی کشمیری اپنے گھرسے باہرنہیں آرہاتھاجبکہ پوری وادی میں رات بھر روشنیاں بجھاکر’’ بلیک آئوٹ ‘‘کیاگیاجسے دیکھ کربھارتی پالیسی سازوںکے ہوش اڑ گئے جوچانکیہ مکر چلاکردنیاکویہ تاثردینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ’’ہم توپھول برسانے والے ہیںہم کب بغل میں چھری رکھنے کے روادارتھے ‘‘۔ہوسکتاہے امریکہ اسے سچ مان لے لیکن خطے کے عوام اور کشمیرکاہرمتنفس چانکیہ پالیسی سازوں سے خوب واقف ہیں ۔کیونکہ انکی مرتب کردہ سفاکانہ اورقاتلانہ پالیسیوں کے باعث ایک لاکھ سے زائدکشمیری مسلمانوں کی قبروں کی مٹی ابھی گیلی ہے ۔اس لئے چانکیہ پالیسی سازوں کامکراوردجل اسلامیان کشمیرکو متاثرکرسکتاہے اورنہ ان کے جذبہ حریت کوختم کرسکتاہے،یہ وہ آزادی پسندقوم ہے کہ جنہوں نے مکروفریب کے جملہ ہتھکنڈوں کوتوڑکر1947ء سے آج تک بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طورپر مناکر دنیاتک اپنایہ واضح پیغام ایک بارپھر پہنچادیا کہ ’’دنیاوالو سن لو! جھوٹے جھانسے میں مت آجائو!کشمیری مسلمان اپنے آپ کوسلطنت بھارت کاحصہ نہیں مانتے اوروہ اپنے مستقبل کافیصلہ چاہتے ہیں اوران کامستقبل پاکستان ہے‘‘ اس سے ایک دن قبل 14اگست کو مقبوضہ کشمیر میں تلواروں کے سائے میںپاکستانی یومِ آزادی کی تقریبات کا اہتمام نہایت جوش و جذبے سے کیا گیا۔ ہرطرف پاکستانی پرچموں کی بہارتھی ،جس سے ان کی پاکستان سے والہانہ محبت کا بھرپور اظہار ملتا ہے۔کشمیری نوجوانوں نے وادی میں جگہ جگہ سبز ہلالی پرچم لہرائے۔ پاکستانی پرچم کو بلند کر کے سلامی پیش کی گئی۔ طلبہ نے پاکستان کے جشنِ آزادی پر ریلیاں نکالیںاورپاکستان کے پرچم کوسلامی دی۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کا پاکستان کا یومِ آزادی بھرپور طریقے سے منانا اس امر کا واضح اظہار ہے کہ وہ کسی بھی طور پر بھارت کی غلامی میں نہیں رہ سکتے اور جلد یا بدیر وہ بھارتی استبداد سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا جشنِ آزادی منایا جانا وہ نوشتہ دیوار ہے جسے بھارتی قیادت جتنا جلدی پڑھ لے اس کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس حقیقت سے انکار خود کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے کہ بھارت اگر کشمیری عوام کو دس لاکھ فوجیوں کے جبر کے ذریعے اپنے ساتھ ملائے رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تو اب یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ ہرکشمیری خاندان میں شہادتیں واقع ہوئیں ہیں اوروہ کس طرح اپنی قربانیوں کا سودا کریں۔ کشمیریوں کا مقبوضہ کشمیر میں پرچم پاکستان لہرانایہ کہنے کی حدتک نہایت آسان ہے لیکن جب دس لاکھ بھارتی درندہ بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیرکے عوام پاکستان کاسبزہلالی پرچم لہراتے ہیں یہ انتہائی جرات مندانہ اقدام ہے سچی بات یہ ہے کہ اہل کشمیرسچے اورپکے پاکستانی ہیں۔مقبوضہ کشمیرکے عوام جہاں 14اگست کویوم آزادی پاکستان نہایت دلجمعی اورلگن سے مناتے ہیں وہیںوہ15اگست کویوم آزادی بھارت کویوم سیاہ کے طورپرمناکرایک دن کاکشمیربندمناتے ہوئے گلی کوچوں سڑکوںاوربجلی کے کھمبوں پرسیاہ جھنڈے لہراکربھارت کے ساتھ نفرت کاعملی اظہارکرتے ہیں۔ 15اگست 1947کوجب ہندوستان ایک آزادملک کے طور پرابھراتوسب سے پہلے اس نے جس جرم کاارتکاب کیاوہ یہ تھاکہ اس نے کشمیری عوام اور خطہ کشمیر کو اپنا غلام بنانے کا سوچا اور پھر 27 اکتوبر1947ء کو اس فیصلے پر عمل در آمد کر دیا گیا۔ آزاد ہندوستان نے آزادی کے پہلے دن ہی حیدر آباد اور کشمیر کے عوام کی آزادی سلب کر نے کی منصوبہ بندی کر کے اپنی آزادی کا جشن منایا پنڈت نہرو لارڈ مونٹ بیٹن اور ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کی آزادی کو بھارت کے ہاں گروی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ گو کہ اس وقت شیخ عبد اللہ کشمیری مسلمانوں کی مقبول قیادت میں شامل تھے وہ غلامی کا متعفن پشتارہ اپنی پیٹھ سے اتار پھینکتے’’اس کے یکسر برعکس اس نے کشمیریوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر پنڈت نہرو کے ساتھ یارانہ گانٹھا اور وہ کانگریس کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر رہ گئے۔ شیخ عبد اللہ نے کشمیریوں کے ارمانوں کا خون کیا اور انہیں راہ مستقیم کے بجائے دلدل میں دھکیل دیا اور مہاراجہ کے بھارت سے الحاق کو تسلیم کر لیا لیکن کشمیری عوام نے دل سے ایک لمحے کے لیے بھی بھارت کی غلامی قبول نہیں کی۔ انہوں نے روز اول سے ہی بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد شروع کی۔ شیخ عبد اللہ نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھال کر کشمیر میں آزادی، حق خود ارادیت اور پاکستان کی بات کرنے والے سیاسی کارکنوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے۔ ابھی شیخ عبد اللہ کی سیاہ کاریوں کا پشتارہ اسکی پیٹھ پر لدا ہوا تھا کہ 1953ء میں وہ مکافاتِ عمل کا شکار ہوا۔ پنڈت نہرو نے اسے شیشے میں اتار کر اسلامیانِ برصغیر کی جدوجہد سے الگ کیا اور اسے برصغیر کے مسلمانوں کے فطری اور قومی دھاروں سے الگ کر کے کشمیری گاندھی بنا کر رکھ دیا اور جس شیخ عبد اللہ کو بھارت نے کشمیر پر اپنے نا جائز قبضے کو (Legitimacy ) دینے کے لیے استعمال کیا تھا اور جو کشمیر میں کانگریس کا سب سے اہم مہرہ ثابت ہوا اسی شیخ عبد اللہ کو بھارت نے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا۔ شیخ عبد اللہ کو وزارتِ عظمیٰ سے بر طرف کر کے جیل میں ٹھونس دیا اور بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی شناخت عطا کرنے والی شق جسے 53 کی پوزیشن کے نام سے جانا جاتا ہے ختم کر کے اسے بھارتی ریاست کی حیثیت دے دی۔ کشمیریوں کے لیے یہ غلامی کی ایک نئی شکل نیا روپ اور نیا پیراہن تھا۔ کشمیر ان کے لیے جیل بن چکی تھی۔ اس جیل کے داروغے کو پہلے صدر اور وزیراعظم کہا جاتا تھا۔ شیخ کی بر طرفی کے بعد اس دوروغے کو گورنر اور وزیر اعلیٰ کا نام دے دیا گیا۔ البتہ بھارت کے بارے میں حسن ظن رکھنے والا کوئی کشمیری تھا بھی تو اس فیصلے کے بعد وہ بھی مایوس ہو گیا اور کشمیریوں کو اندازہ ہو گیا کہ بھارت کشمیر پر قبضے کی طویل المیعاد منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ کشمیری مسلمانوں نے خود کو ذہنی اور عملی طور پر ایک طویل جدوجہد کیلئے تیار کر لیا۔ انہوں نے دہلی سے راہ و رسم بڑھانے ، بھارت کے ماحول میں رچ بس جانے کی بجائے اپنی انفرادیت اور اپنے تشخص کی بحالی کے لیے خود کو اپنے خول میں بند کر دیا۔ کشمیری مسلمانوں نے دہلی کو ایک الگ دنیا قرار دیا دہلی کے ماحول ، مزاج اور روّیوں کا عملاً کشمیری مسلمانوں کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ کشمیری مسلمانوں نے خود کواپنی شناخت اور ذات کے حصار میں بند کر کے دہلی کے ساتھ کوئی جذباتی، نظریاتی یا سیاسی رشتہ استوار نہ کیا۔ اس کی وجہ یہ احساس تھا کہ اگر انہوں نے دہلی کے ساتھ گھلنے ملنے کی کوشش کی تو بھارت کشمیر کی اسلامی شناخت کو مسخ کر کے کشمیر کی(Indignation)کی کوشش کرے گایہی وجہ ہے کہ کشمیری مسلمانوں ، معتبر سیاسی اور دینی شخصیات نے ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ جس سے کشمیر کا اسلامی تشخص کسی نہ کسی طور برقرار رہا۔ کشمیری معاشرے نے اپنی روایات کو برقرار رکھ کر اسے بھارتی یلغار کی نذر ہونے سے بچائے رکھا۔ بھارت نے کشمیریوں کے ان جذبات کوحلیہ سازیوں،چالبازیوں، منصوبہ تراشیوں، ترغیب و تشویق تحریص اور ’’افسپا‘‘ ظالمانہ قوانین کے ذریعے دبانے اور ختم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن روشن دماغ اور منور ضمیر کشمیری مسلمانوں نے یہ کوشش کامیاب ہونے نہیں دی اور کشمیر کی متنازعہ حیثیت کا احساس کشمیری مسلمانوںکے دماغوں کی ایک خلش بن کر نسل در نسل منتقل ہوتارہا۔ یہ جدوجہد مختلف ناموں ، مختلف تنظیموں اور مختلف شخصیات کی صورت مختلف ادوار میں جاری رہی اس طویل جدوجہد میں کشمیریوں نے کبھی ایک دن کے لیے بھی بھارت کے یوم آزادی کو اپنا یوم آزادی نہیں سمجھا۔ 80 کی دہائی میں کشمیری مسلمانوں نے اعلانیہ طور پر اور بڑے پیمانے پر بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانا شروع کیا۔ کشمیر میں بھارتی ترنگا جلایا جانے لگا۔ گھروں ، دکانوں ، بجلی کے کھمبوں پر سیاہ جھنڈے لہرا کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جانے لگا اور اب یہ کشمیر میں ایک معتبر روایت ہے کہ بھارت کا یوم آزادی کشمیری مسلمانوں کو غمزدہ اور وادی کے موسموں کو سوگوار کر دیتا ہے۔ہر سال 15 اگست پر اسلامیان کشمیر کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انہیں بھارت کے جشن آزادی میں اپنی غلامی اور بد قسمتی کی سوگوار داستانیں یاد آتی ہیں کہ جب طویل جدوجہد کے بعد برصغیر آزادی سے ہمکنار ہوا تھا۔ مگر اہل کشمیر پر آفتابِ جہاں تاب طلوع ہونے کی بجائے غلامی کی تیرگی مسلط کر دی گئی۔ کشمیری مسلمانوں کو کس جرم کی پاداش میں غلامی کا شکار بنا دیا گیا تھا۔ اسی جرم بے گناہی کا احساس کشمیری مسلمانوںکو بھارت کی غلامی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرنے دے رہا اور وہ نسل در نسل آزادی اور حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرتے چلے آرہے ہیں۔ جلیانوالہ باغ کی یاد منانے والے بھارت نے کشمیر کے ہر قصبے اور شہر میں جلیانوالہ باغ سجا دئیے ہیں اور اب کشمیر کے مرغزاروں میں پھولوں کے بجائے قبریں اگتی ہیں اور بہار موسموں میں شبنم کے قطرے نہیں ٹپکتے اس دھرتی پر آنسوئوں کی رم جھم ہوتی ہے۔