بھارت کے فوجی چیف جنرل بپن راوت نے جبیں ہمت کشمیریوں کوجھکانے کے لئے ڈرون حملوں کی دھمکی دی ہے ۔ اس دھمکی کوملت اسلامیہ کشمیراپنے خلاف کھلی اور ننگی جارحیت کا اعلان سمجھتے ہوئے کہتے ہیںکہ بھارتی فوجی چیف نے جان بوجھ کرایک خاص منصوبے کوعملائے جانے کے لئے کشمیرمیں ڈرون حملوں کی دھمکی دی اوروہ ناپاک منصوبہ یہ ہے کہ ڈرون حملوں کی مدد سے پوری آبادی کو نیست نابود کرکے ارض کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنا ہے۔ ڈرون حملوں کی دھمکی سے یہ امرمترشح ہوجاتاہے کہ کشمیری مسلمانوں کاقتل عام کرنے سے ابھی تک بھارت کا جی نہیں بھرا،اور ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کرکے بھارتی فوج کو شقاوت قلبی کو تسکین نہیں ملی، ہزاروں جوانوں کو گرفتاری کے بعد لاپتہ کرکے اس کے پتھر دل پرکچھ نہیں گزرا، بے شمار خواتین کی بے حرمتی اور عصمت ریزی کرکے سیتا کے پجاریوں کے سر شرم سے نہیں جھکے، اربوں اور کھربوں مالیت کی املاک کو تباہ وبرباد کرکے ان کی انا کو تسکین نہیں ملی، معصوم بچوں کی پیلٹ گنوں سے بینائی چھین کر ان کی آنکھیں کبھی نم نہیں ہوئیں۔18ماہ کی معصوم ہِبا کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والی بہادر فوج کی طرف سے پیلٹ گن سے زخمی کرکے بینائی سے محروم کیا جاتا ہے۔ بھارت کی مسلم کش پالیسیوں ، مار دھاڑ، قتل وغارت گری سے عبارت پالیسیوں،بے پناہ فوجی قوت کے بل پر کشمیریوں کی منظم نسل کشی کے منصوبوں، چیرہ دستیوں نے بھارت کے چہرے سے نام نہاد جمہوریت کالبادا اتارڈالاہے ۔یہ بات دنیاپرہویدا ہو چکی ہے کہ دراصل بھارت ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر کو جنگی اورفوجی ہتھیاروںکی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہا ہے اورمسلسل کیاجارہاہے اور ہتھیاروں کی اس تجربہ گاہ میںاجتماعی نقصان میں نشانہ بننے والے صرف اورصرف کشمیری مسلمان ہیں کیونکہ کشمیر کی بستی خالصتاََمسلمانوں پرمشتمل ہے جنہیںبھارت صفحہ ہستی سے مٹادیناچاہتاہے ، تاکہ ارض کشمیر کے قدرتی ذخائر اور وسائل کو بغیرکسی مزاحمت کے چھین کربھارت کے ایک سوکروڑ سے زائدعوام کوسہولت پہنچا سکے ۔ بھارتی فوجی چیف کے اس دیوانہ پن پر انسانی حقوق پرکام کرنے والے عالمی اداروں کو سنجیدگی سے غورکرکے بھارت کو اس طرح کے کسی بھی ایکشن سے روکنا چاہیے اورکشمیرمیں پہلے سے ہی موجود اسکی 10لاکھ فوج جدید اسلحہ سے لیس ہوکر جس بڑے پیمانے پرکشمیری مسلمانوں کاقتل عام کررہی ہے وہ کتناشرمناک ہے ۔بھارتی آرمی چیف کی طرف سے کشمیربھارت کی طرف سے مہلک ہتھیار، پرنورآنکھوںکواندھابنانے والے پیلیٹ گن ،پاوا شیل اورمہلک ہتھیاروں کے اقسام وانواع کشمیر کی جنگی تجربہ گاہ میںآزمائے جارہے ۔ لیکن اس بات کویادرکھیں کہ پولیٹیکل سائنس کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ جتنا لوگوں کو مشتعل کر دیں تو ناکامی مقدربنتی ہے ۔ کیوںکہ معاملہ دگرگوں ہو جاتا ہے اور انتقامی جذبہ تباہ کن ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مظلوموں کا غیظ و غضب کا طوفان بڑھتا جا تا ہے۔ جب ظلم کی حدیں تمام ہو جائیں تو نتیجہ معلوم ہے۔ ظاہر ہے کہ ظالم کیخلاف نفرت کی آگ بھڑکے گی اور بے قابو ہوتی جائے گی۔ یہ آگ ایسی ہوتی ہے کہ جس کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔ ایسی بے قابوآگ کو بجھایا نہیں جا سکتا۔ظالم ومظلوم کی جنگوں میں آخری فتح مظلوموں کی ہوتی ہے۔یہ تاریخ ہے کہ ظلم ڈھانے والے ظفریاب کبھی نہیں رہتے، انہیں بے شک دیرسے لیکن بہرحال پسپا ہونا پڑتا ہے۔ بھارت البتہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے ۔تاریخ سے عبرت حاصل کرنااس کاشیوہ نہیں۔ بھارتی آرمی چیف کی کشمیریوں پرڈرون حملوں کی دھمکی ایسے موقع پرسامنے آئی کہ جب نار وے کے سابق وزیر اعظم سری نگر کے دورے پرآئے ہوئے تھے۔ اپنے اس دورے کے بعد انہوں نے نئی دہلی میں ایک بھارتی میڈیا کو انٹرویو میں بتایا کہ اگر بھارت اور پاکستان کی طرف سے ان کو کشمیر پر ثالثی کیلئے کہاجائے گا تو وہ تیار ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ جو جنوبی ایشیا میں دو ملکوں کے درمیان 70 برسوں سے لٹکاہواہے حل ہوسکے۔ اپنے اس انٹرویو میں ناروے کے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ ہر صورت میں حل ہونا چاہئے۔ ان کاکہناتھا کہ عالمی برادری بھی مسئلہ کشمیر حل کروانے میں دلچسپی رکھتی ہے اور یہ مسئلہ صرف اور صرف بات چیت سے ہی حل ہوسکتا ہے۔ جب انٹرویو کے دوران ان سے پوچھا گیاکہ وہ کس طرح یا کس کے کہنے پر کشمیر آئے تو انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ کشمیر دورے کی کلیئرنس نظر نہ آنے والے ہاتھوں نے دی۔ جس کا یہ مطلب ہوا کہ کشمیر مسئلہ حل کروانے کیلئے ٹریک ٹو سطح پر سرگرمیاں جاری ہیں اور اسی سلسلے کی کڑی کے طور پرناروے کے سابق وزیر اعظم کے دورہ کشمیر کو دیکھاجاسکتا ہے۔ 2008ء اور سال 2010ء کے تحریکی فیز کے دوران بھارتی قابض فوج کی طرف سے کشمیری مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کی جاتی رہی تو اس سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا جس پر انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے اداروں نے اس کیخلاف زبردست غم و غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ انسانی حقوق کی صریحاًخلاف ورزی قرار دی جاسکتی ہے کہ جو لوگ اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے کرتے ہیں ان کو دوسرے طریقوں سے منتشر کرنے کے بجائے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کی جاتی ہے جس سے سینکڑوں کشمیری شہیدہوئے جبکہ سینکڑوں عمر بھر کیلئے معذور ہوگئے ہیں۔ بھارت کی قابض فوج کی طرف سے کشمیری مظاہرین کیخلاف طاقت کے اس بے تحاشہ استعمال کیخلاف عالمی سطح پر احتجاج کیا جانے لگا تو نئی دہلی نے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے دوسرے نوع کے ہتھیاروں کی تلاش شروع کردی تاکہ ان کوگولیوں کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکے اس دوران کئی مہینے کے غور وفکر کے بعد کشمیری مسلمانوں کیخلاف پیلٹ گن استعمال کرنے کی منظوری دی گئی۔ گزشتہ دوبرسوں کے دوران پیلٹ سے جو نوجوان زخمی ہوگئے ہیں ان میں سے بیشتر عمر بھر کیلئے معذور بن گئے ہیں جبکہ اس سے زیادہ آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگئے ہیں۔ کتنی کشمیری طالبات اس وقت بھی تعلیم حاصل کرناچاہتی ہیں لیکن بصارت سے محروم ہونے کی بنا پر ان کیلئے یہ ممکن نہیں۔ کتنے کشمیری لڑکے جن پر ان کے والدین آس لگائے بیٹھے تھے اس وقت گھروں کے کونوں میںخاموش بیٹھے زندگی کی گھڑیاں گن گن کر گزار رہے ہیں۔ کیونکہ ان کی آنکھوں کی بینائی چھین لی گئی ہے لیکن اس بھی بھارت کی سفاک فوج کاجی نہیں بھرا،اور اب وہ کشمیریوں کوڈرونزسے صفحہ ہستی سے مٹاناچاہتاہے۔ بہرکیف! بھارتی فوجی چیف کی جانب سے دی گئی دھمکی سے مقبوضہ کشمیرکے طول وعرض میں اضطرابی کیفیت کی لہر دوڑ گئی ہے اوریہ معاملہ اسلامیان کشمیر کے لئے سوہان روح بناہواہے کہ کشمیرکوہتھیاروں کی تجربہ گاہ بناتے ہوئے بھارت کشمیری مسلمانوں کے خلاف چومکھی جنگ لڑ رہاہے۔یہ سب کشمیری مسلمانوں کی جبیں ہمت کوجھکانے کے لئے کیا جا رہا ہے لیکن اسلامیان کشمیرکی جبیں خداکے سواکسی کے سامنے ہرگزنہیںجھک سکتی۔