بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری سکیورٹی لاک ڈاؤن کو آٹھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کا سب سے بھیانک لاک ڈاؤن کیا گیا جس میں کشمیریوں اور سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ جاری رہی۔ 18 ہزار سے زائد کشمیری جوان اور سیاسی قیادت جیلوں میں ہے۔ آج کل کورونا وائرس نے جہاں دنیا جہان میں اپنے تباہ کاریاں دکھائی ہیں وہیں مقبوضہ وادی بھی اس کی لپیٹ میںہے۔ کورونا وائرس سے دنیا کے مختلف ممالک میں ہزاروں لوگ جان کی بازی ہار رہے ہیںاور خود بھارت کے اندر اس وبا نے ایک خوفناک صورت اختیار کرلی ہے۔ ایسے میں ہزاروں کشمیری اپنے خاندانوں سے دور بھارت کی جیلوں میں قید ہیں اور وہ کشمیر میں اپنے پیاروں کے بارے میں سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کورونا کی وبا کی تیزی سے پھیلنے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے مختلف جیلوں میں بند ہزاروںکشمیریوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے شہریوں کی نقل و حمل پر نئی پابندیوں اور انٹرنیٹ بلیک آئوٹ کا نوٹس لیں کیونکہ نئی بھارتی پابندیوں کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو ہسپتالوں اور شفا خانوں تک پہنچنے اور انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے کورونا وائرس کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے میں سخت دشواری کا سامنا ہے جس سے خدشہ ہے کہ کورونا کی وبا مقبوضہ علاقے میں مزید تیزی سے پھیل سکتی ہے۔اطلاعات کے مطابق بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں لہٰذا کورونا وبا پھیلنے کے بعد یہ نہایت ضروری ہے کہ تمام قیدیوں خاص طور پر پیچیدہ امراض میں مبتلا قیدیوں کو فی الفور رہا کیاجائے۔وادی میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں عام آدمی کی زندگی شدید مشکلات کا شکار ہے وہیں کاروباری سرگرمیاں بھی جمود کا شکار ہیں۔اقتصادی ماہرین کے مطابق اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے دو مہینوں میں اقتصادی طور پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔آٹھ ماہ بعد بھی وادی میں حالات معمول پر نہیں آئے۔ انٹرنیٹ اور موبائل رابطے منقطع ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ بھی آسانی سے دستیاب نہیں اور زیادہ تر کاروبار بند ہیں۔ان میں سے کچھ تو حکومت کے خلاف احتجاج کے طور پر بند ہیں جبکہ کچھ بھارت کی سکیورٹی فورسز کی سختی اور خوف سے بند ہیں سری نگر میں دکاندار گاہک کا انتظار کرتے ہیں اور جیسے ہی گاہک آتا ہے دکان کھولتے ہیں اور اس کے جانے کے فوراً بعد بند کر دیتے ہیں اور پھر اگلے گاہک کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔سیاحت ہو یا قالین بافی سب متاثر ہوئے ہیں۔ علاقے کو ہنر مند مزدوروں کی کمی کا بھی سامنا ہے کیونکہ جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے یہاں سے چار لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ گلیاں ویران ہیں اور وہ سیاحتی کاروبار بند ہیں جن سے تقریباً سات لاکھ لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔مشتاق چائی ایک معروف تاجر اور کشمیر میں کئی ہوٹلوں کے مالک ہیں۔ وہ دو اگست کی دوپہر کو یاد کرتے ہیں جب انھیں انتظامیہ کی طرف سے ایک ’سکیورٹی ایڈوائزری‘ ملی۔اس نوٹ میں دہشت گردی کے خطرے کا ذکر کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہندو یاتری اپنے دورے کو ختم کر کے جتنی جلدی ہو سکتا ہے واپس چلے جائیں۔مشتاق نے بھی کئی دیگر لوگوں کی کی طرح اس ایڈوائزری کو سنجیدگی سے لیا۔دو سال پہلے امرناتھ یاترا سے آتے ہوئے ہندو یاتریوں پر حملہ کر کے شدت پسندوں نے سات افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ کشمیر کے اننت ناگ ضلع میں واقع امرناتھ کا غار ہندوؤں کے لیے ایک مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔چائی کہتے ہیں کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ سیاحوں اور یاتریوں کو کہا گیا ہو کہ وہ چلے جائیں۔تین دن بعد پانچ اگست کو وفاقی حکومت نے وادی کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی اور یہاں ہر قسم کا مواصلاتی رابطہ منقطع کر دیا۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تخمینے کے مطابق شٹ ڈاؤن کی وجہ سے ابھی تک علاقے میں کاروبار کی مد میں 1.4 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور ہزاروں نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔وادی میں تین ہزار ہوٹل ہیں اور سبھی خالی پڑے ہیں۔ انھوں نے قرضے چکانے ہیں اور روزانہ کے اخراجات پورے کرنے ہیں۔اس لاک ڈاؤن سے صرف ہوٹل کی صنعت کو ہی نقصان نہیں پہنچا۔ ’انٹرنیٹ نہ ہونے کا مطلب ہے کہ پانچ ہزار ٹریول ایجنٹ بیکار ہو چکے ہیں۔ ہمیں نوکریاں چاہییں۔‘سری نگر کے مشہور ڈل جھیل میں تقریباً ایک ہزارے شکارے بھی خالی پڑے ہیں۔ کشمیر کے مشہور سیبوں کے باغ بھی لاک ڈاؤن کا شکار ہیں۔صرف قالینوں کی صنعت میں پچاس ہزار سے زیادہ نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔ دنیا میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 10 لاکھ سے زائد اور ہلاکتیں50 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہیں۔ صرف امریکہ میں مریضوں کی تعداد ایک 2لاکھ سے زیادہ ہے۔ غیر یقینی صورتحال کے پیشِ نظر سعودی عرب نے مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ حج و عمرہ کی بکنگ کروانے سے پہلے مزید انتظار کریں۔ اس کے علاوہ سپین اور برطانیہ میں اب تک ایک دن میں سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیںکیا اس صورتحال میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پوری دنیا میں یہ لاک ڈاؤن اور ہلاکتیں کشمیریوں کی بددعاؤں کا نتیجہ ہیں جو گزشتہ آٹھ ماہ سے اس صورتحال میں زندگی گزار رہے ہیں اور ساتھ ہی بھارتی فوج کے ظلم و ستم بھی سہہ رہے ہیں۔ دنیا کو سوچنا چاہیے کہ کشمیریوں کو نظر انداز کر کے خود دنیا اسی طرح کے قدرتی لاک ڈاؤن کا شکار ہوگئی ہے۔