گوتم نولکھا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ظلم وزیادتیوں کے خلاف برسو ں سے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ جس کے باعث کشمیری عوام گوتم نولکھا اور ارون دھتی رائے جیسے انصاف پسند بھارتیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر سے متعلق ان کے نظریات سے بھارت کی بیشتر سیاسی جماعتوں سمیت بہت سے لوگ متفق نہیںہیں لیکن اسکی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ کشمیریوں کی آوازبن گئے۔گوتم نولکھاسمیت گرفتار ہونے والے بیشتر کارکن نظریاتی طور پر بائیں بازو یا اعتدال پسندی میں یقین رکھتے ہیں۔ حکمراں ہندو قوم پرست بی جے پی اور آر ایس ایس جیسی دائیں بازو کی تنظیموں کی نظر میں یہ ہمیشہ ’’قوم دشمن ‘‘اور ’’ہندو دشمن‘‘کے زمرے میں آتے ہیں۔ مہاراشٹرکی حکومت اور پولیس کا کہنا ہے گرفتارشدگان کے ما ئونوازوں سے گہرے تعلقات ہیں اور ان کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ان کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں لیکن ان کارکنوں کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت انتخابات سے قبل زبردست دبائو میں ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مہاراشٹرحکومت ان گرفتاریوں کے ذریعے اپنے مخالفین کی آوازکو دبانا اور ملک کی فضا میں خوف کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے۔ہندو قوم پرست حکومت اعتدال پسند اور بائیں بازو کے نظریات کو کچلنا چاہتی ہے تاکہ وہ بقول ان کے اپنے ہندوتوا کے نظریے کو مسلط کر سکے۔مودی حکومت نے سیاسی کے بجائے صرف اور صرف فوجی طاقت کے استعمال کی پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ چونکہ گوتم نولکھا اورارون دھتی رائے کشمیر کے حوالے سے انتہائی سرگرم ہیں لہٰذاانہیں اور انکے علاوہ جوبھی بھارت میں کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے خلاف بات کرتا ہے ،کو ہندو انتہا پسند جماعتوں کی طرف سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔یہ وقت ہے کہ بھارت کے پڑھے لکھے لوگ، دانشور اور سو ل سوسائٹی کے ارکان کشمیر کے لیے نہ سہی لیکن ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے والے اپنے لوگوں کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ مہاراشٹر کی پونے پولیس نے گذشتہ دنوںبھارت کے کئی شہروں سے حقوقِ انسانی کے پانچ سرکردہ کارکنوں کو گرفتار کیا جن میں معروف صحافی اور حقوق انسانی کے علم بردار گوتم نولکھاشامل ہے ،ان کے علاوہ چھتیس گڑھ میں قبائلیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف وکیل سدھا بھاردواج اور آندھرا کے ایک مقبول شاعر اور دانشور بھی شامل ہیں۔ان کارکنوں کی گرفتاری پر شدید ردعمل سامنے آیا اور اسے مخالف آوازوں کو دبانے کی کوشش قرار دیا گیا۔سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے 28اگست 2018کو ملک کے پانچ ریاستوں سے مبینہ طور پر نکسل روابط رکھنے کے الزام میں سینئر وکلائ،صحافی،قلم کار اور دلت سماجی کارکنان کے گھروں پر پولیس کے چھاپے مارکر وکیل سدھا بھاردواج،قلم کار اور سماجی کارکن ورا ورا را،صحافی گوتم نولکھا اور وکلا ارون پریرا، ویرنان گونجالس کو گرفتار کرنے اور ان پر UAPAسمیت مختلف دفعات کے تحت معاملہ درج کردیاہے ،جس سے معلوم ہوتاہے کہ بی جے پی کی نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی صورتحال پیدا کردی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں اپنی یقینی شکست سے بی جے پی بوکھلائی ہوئی ہے۔اس صورتحال پربھارت کے کئی صحافیوںنے سماجی کارکنان کی گرفتاری کو ناجائز اور سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ تمام گرفتار شخصیات کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان پر لگائے گئے جھوٹے الزامات کو واپس لیا جائے۔دراصل بھارت میں اظہار رائے کی آزادی پر روک لگانے ، اظہار رائے کی آزادی چھیننے سے اور دانشوروں کو نشانہ بنا کر پریشان کرنے سے حکومت کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ نریندر مودی حکومت دائیں بازوکی جماعتوں کو رجھانے اور ووٹوں کی تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ دلتوں پر انتہائی ظلم کیا جارہا ہے۔ اس دائیں بازو اور اعلی ذات کی حمایت والی حکومت کی نظر میں دلتوں کی حمایت کرنے والے تمام لوگ مائو نواز ہیں۔ بی جے پی سچائی کو دبانے کیلئے ریاستی مشینری کا استعمال کررہی ہے۔اگست کے آخری ہفتے میں ایک بار پھر حکومت نے ملک کے پانچ نامور دانشوروں اور صحافیوں کوگرفتار کرنے کا حکم جاری کیا۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور اس کا سبب مہاراشٹر کے شہر پونے میں دلت آبادی پر ہونے والا پولیس تشدد تھا جس کے نتیجے میں دلت اور غیر دلت فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ تاہم صحافیوں کے ردعمل پرعدالت نے حکم دیا ہے کہ پولیس کی تحویل سے نکال کر یہ پانچوں افراد اپنے اپنے گھروں میں نظر بند کیے جائیں۔ ان پانچ دانشوروں کی گرفتاری پر فیصلہ 6ستمبر کو بھارتی سپریم کورٹ کرے گی۔ اس عدالتی حکم کا سبب یہ ہے کہ مشہور اور معتبر تاریخ دان پروفیسر رومیلا تھاپر اور ان کے چار ساتھیوں نے ہنگامی طور پر سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی جس میں کہا گیا ہے کہ سرکار سے اختلاف رائے کسی بھی جمہوریت میں سیفٹی والو کی حیثیت رکھتی ہے اور اگر اس سیفٹی والو کوکام نہ کرنے دیا جائے تو پریشرککر کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔پروفیسر رومیلا تھاپرکی یہ بر وقت مداخلت اور اس بارے میں بھارتی سپریم کورٹ سے درخواست نے ہندوستان کے دانشور اور قانون دان طبقے کو ہلاکر رکھ دیا ہے ۔ یہ درخواست جو پروفیسر تھاپر اور دوسرے دانشوروں کی طرف سے پیش کی گئی،اس میں یہ کہا گیا ہے کہ جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنا ہر شہری کا حق اور فرض ہے۔ حکومتی جماعت کی طرف سے پولیس تشدد کا بے رحمانہ استعمال آزاد خیالی اور جمہوری اصولوں کے قتل کے مترادف ہے۔پروفیسر تھاپر اور ان کے چار ساتھیوں کی طرف سے دائرکی جانے والی اس اپیل کی ابھی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ دارالحکومت دہلی میں دانشوروں، قانون دانوں، طلبہ، صحافیوں اور حقوق انسانی کے لیے سرگرم افراد نے ایک بڑا احتجاجی جلوس نکالا اور حکومت کو یہ باور کرایا کہ معاملہ ان پانچ افراد کی گرفتاری یا ان پر لگائے جانے والے غداری اور شرپسندی کے الزامات کا نہیں۔ یہ دراصل ہندوستانی جمہوریت پر حملہ ہے اور اس کے خلاف لڑنا ہم سب کا اجتماعی فرض ہے۔ یہ لوگ ہندوستانی پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔گوتم نولکھا بھارت کی ایک بہت مضبوط آواز ہیںجوکشمیریوں کے لیے ہر قدم پر احتجاج کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کی حکمران اشرافیہ میں انھیں ایک ناپسندیدہ عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مظلوم کروڑوں ہندوستانی مسلمانوں اوردلتوں کی آواز ہیں۔ ان کا صرف برصغیر میں ہی نہیں، دنیا کے تمام آزاد خیال اور انسان دوست حلقوں میں احترام کیا جاتا ہے۔اس وقت بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے اسے انتہا پسندوں ہندوئوںاور دائیں بازو کے گروہوں کا نرغہ رہا ہے، ایسے نازک مرحلے میں نامی گرامی ہندوستانی دانشوروں، ادیبوں، قانون دانوں، طالب علموں اور حقوق انسانی کے سیاسی کار گزاروں نے حکومتی استبداد اور تشدد کا خیال کیے بغیر جمہوریت کی لڑائی جم کر لڑی ہے۔ یہ جو بھارتی دانشور گرفتار کیے گئے۔ ان میں قانون کی پروفیسر سدھا بھاردواج بھی ہیں۔ سدھا امریکا میں قانون پڑھاتی تھیں لیکن ہندوستان میں نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے قبائل کے کچلے ہوئے لوگوں اور بہ طور خاص ان کی عورتوں پر ہونے والے مظالم نے سدھا کو اس قدر بے قرار کیا کہ انھوں نے اپنا شاندارکیرئیر چھوڑا، ہندوستان آئیں، امریکی شہریت ترک کی اور اب جی جان سے ان قبائلی مردوں اور عورتوں کے حقوق کی خاطر لڑرہی ہیں۔ سدھا بھی غدار اور ملک دشمن ہیں چنانچہ وہ بھی گرفتار کی گئیں اور اب عدالتی حکم پر 6ستمبر تک کے لیے گھر میں نظر بند کی گئی ہیں۔ان پانچوں میں گوتم نولکھا بھی ہیں جن کی داڑھی اور ٹوپی بظاہر انھیں مسلمان کے روپ میں پیش کرتی ہے۔ وہ ایک شعلہ بیاں مقرر اور اتنے ہی اعلی لکھاری ہیں۔ ان سے کئی ملاقاتیں ہندوستان میں اور اس سے باہر ہوئیں۔ خاص طور سے دی ہیگ میں ہونے والی کانفرنس میں ان کی تقریریں سنیں، ان سے باتیں رہیں۔کشمیریوں کے حق کے لیے وہ جس طرح لکھتے اور بولتے ہیں، یقینا سننے اور پڑھنے کی چیز ہے ۔سدھا، گوتم اور ایسے دوسرے مقتدر ہندوستانی اپنے ملک، اپنے سماج کے لیے نادر روزگار ہیںاوربھارت میں فرقہ پرستی اور نفرت انگیزی کا جو زہر پھیلا۔ اس کا مقابلہ گوتم نولکھا جیسے لوگ ہی کرتے ہیں۔