کشمیرپربھارتی جبری قبضے کے نتیجے میں ریاست جموں و کشمیرکے درمیان جبری طورپرکھینچی گئی جنگ بندی لائن جسے کشمیری عوام خونی لکیرکے نام سے پکارتے ہیں ۔تائوبھٹ نکروسے لیکر بھمبر آزادکشمیرتک اوردوسری طرف مقبوضہ کشمیرکے کپوارہ اوربارہمولہ سے لیکرپونچھ اورراجوری پھیلی ہوئی ہے۔ 1949میں جنگ بندی لائن یایہ خونی لکیر اس پس منظر میں وجود میں آئی کہ یہ علاقے میں سٹیٹس کو ،کو اس وقت تک برقرار رکھے گی جب تک پاکستان اوربھارت کشمیر کے تنازعے کے حتمی حل کے نتیجے تک نہیں پہنچ جاتے۔ لیکن 1971 کی دونوں ممالک کے مابین جنگ ہونے کے بعدشملہ سمجھوتہ طے ہواجس کے تحت پاکستان اوربھارت کی طرف سے اسے’’ لائن آف کنٹرول‘‘ کا نام دیاگیا۔ لائن آف کنٹرول کی لمبائی 740 کلومیٹر بنتی ہے۔ یہ جبری لائن گذشتہ 73برسوں ریاست جموںوکشمیرکے عوام کوایک دوسرے سے جبری طورپرجداکئے ہوئے ہے ۔ کشمیرپربھارت کے غاصبانہ قبضے کے باعث ریاست جموں وکشمیرکومنقسم کرنے والی یہ لائن تین مقامات پرتین الگ الگ ناموں سے پکاری جاتی ہے۔اس کاسب سے بڑاحصہ لا ئن آف کنٹرول یاایل اوسی کہلاتا ہے۔ یہ ایک طرف آزادکشمیرکے علاقے تائو بھٹ نکرو سے لیکربھمبرتک اوردوسری طرف پوری مقبوضہ وادی کشمیرسے لیکرپیرپنچال کے علاقے پونچھ راجوری تک محیط ہے۔جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کا حوالہ ہونے کے باعث اس لائن کا دوسراحصہ ورکنگ بائونڈری کہلاتاہے ۔ ورکنگ بائونڈری ، مقبوضہ کشمیرکے صوبہ جموں کے سانبہ ،رنبیرسنگھ پورہ اوراکھنور سیکٹرز تک پھیلی ہوئی ہے۔پاکستان کی طرف سے ورکنگ بائونڈری کے ساتھ پنجاب کے شکر گڑھ ،ناروال اورسیالکوٹ علاقے لگتے ہیں۔ریاست جموںوکشمیرکے عوام کوآپس میں جدائی کرانے والے اس جبری لائن کاتیسراحصہ’’ گرائونڈ پوزیشن لائن‘‘ کہلاتاہے جس کامخفف( جی پی ایل)ہے۔اس جبری لائن کایہ حصہ سیاچن اورگلگت بلتستان کے درمیان واقع ہے۔ ان تین حصوں میں سے ورکنگ باونڈری نقشے پر بھی لکیر کی صورت میں موجود ہے اور زمین پرسمینٹ کے بنے ہوئے کھمبوں اورستونوں کی مدد سے اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ایل اوسی نقشے پر موجود ہے مگر زمین پر اس کی نشاندہی واضح نہیںتھی لیکن جب سے بھارت نے باڑ بندی کردی اس وقت سے ایل اوسی کی جبری لکیر بھی واضح ہوچکی ہے۔ کنٹرول لائن یا جنگ بندی لائن تنازعہ کشمیرکے حل نہ ہونے کے باعث ہمیشہ فائرنگ سے دہل اٹھتی ہے۔اگرچہ دونوں ممالک کے ملٹری ڈی ایم جی اوزفائربندی کے لئے ہارٹ لائن پررابطے کرتے رہے اورتھوڑی مدت کے لئے فائر بندی بھی ہوتی ہے لیکن یہ فائربندی کبھی پائیدارثابت نہیں ہوئی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کشمیرکامسئلہ جوں کا توں پڑاہوا ہے ۔ 2003میںبھارت اورپاکستان کے درمیان سی بی ایمز طے پائے جس کے ساتھ ہی مشروف نے ایل اوسی پر یکطرفہ طورپرسیزفائرکیاجسکے بعدچندبرسوں تک یہاں خاموشی چھائی رہی لیکن2012میں پھرسے بھارت پرمرگی کے دورے پڑے اوروہ سیزفائر کوتوڑنے کامرتکب ہوا۔ بھارت کی طرف سے سیز فائر کے توڑے جانے بعد لائن آف کنٹرول پرفائرنگ بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے۔لیکن اب 26فروری 2021کوپاکستان اوربھارت کے ملٹری سطح کے ڈی جی ایم اوزنے ایک دوسرے سے ہارٹ لائن پررابطہ کیاجس میں دونوں کے درمیان طے پایاکہ لائن آف کنٹرول پرفائربندی کوسختی سے لاگوکر کے اس پرعملدرآمدکیاجائے گا۔ واضح رہے کہ بھارت کے مقبوضہ کشمیرپرجبری قبضے سے جنگ بندی لائن کاپوراعلاقہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ اوربڑے پیمانے پر فوجی نفری کا حامل اورانتہائی غیر مستحکم علاقہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا عنصر ہے جو لائن آف کنٹرول پرپاکستان اور بھارت سیز فائرکوغیر مستحکم بناتا ہے؟ اور کیوںگزشتہ چند برسوں کے دوران یہ خلاف ورزیاں اس قدر شدت اختیار کر گئی ہیں؟جبکہ اقوام متحدہ کے مشاہدہ کاریامبصرین(یو این اوبزرورز) عالمی قانون کی رو سے بطور تیسرے فریق کے سیز فائرلائن کی نگرانی کرتے تھے۔ جبکہ بھارتی و پاکستانی فوجی ایل او سی کے تصور کو برقرار رکھنے کے لئے ریاست جموںوکشمیرکے دونوں جانب آمنے سامنے مورچہ زن ہیں۔ بعض مقامات پر بھارتی اور پاکستانی سپاہی ایک دوسرے کے انتہائی قریب پوزیشن سنبھالے ہوئے ہیں۔ورکنگ بائونڈری پردونوں ممالک نے باڑ بندی کردی ہے جبکہ لائن آف پربھارت نے اپنے بے ہاف پر باڑ لگادی ہے۔تاہم علاقے کے خدوخال کی وجہ سے یہ باڑکئی مقامات پر پوری طرح مضبوط نہیں ہے۔ پاکستان ہمیشہ بھارت کی طرف سے سیز فائر کی خلاف ورزیوں پر اسکی فوج کومسکت جواب دیتاہے اورساتھ ساتھ وہ یواین مبصرین کوبھی مسلسل بھارتی جنگی جنون سے باضابطہ طورپرمطلع بھی کرتا رہتاہے۔ آج تک سینکڑوں بار دونوں ممالک پاکستان اوربھارت کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز یعنی ڈی جی ایم اوزنے ہارٹ لائن پر رابطے کئے ہیں اوردونوں افواج کے فیلڈ کمانڈرز کی فلیگ میٹنگز کے بعد یہ اعلان سنائے جاتے رہے ہیں کہ لائن آف کنٹرول پرسیز فائر پرعمل در آمد ہوجائے گااوردونوں میں سے کوئی بھی جنگ بندی لائن پرسیزفائر کی وائی لیشن نہیں کرے گالیکن ہم نے ہمیشہ دیکھا کہ تھوڑے دنوں تک ایسے اعلانات کااثر دکھائی دیتاہے مگرپھرسے بھارت کی طرف سے سیز فائر کی وائلیشن کی جاتی رہی ہے۔ کشمیریوں کے سینے پرکھینچی گئی خونی لکیرپرفائر بندی کے حوالے سے 25فروری 2021 کو دونوں ا طرف کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز یعنی ڈی جی ایم اوزکے ذریعے ہم ایک بارپھرسن رہے ہیں کہ سیزفائر پردونوں اطراف سے سختی کے ساتھ عمل درآمدہوگالیکن کشمیرکے تنازعے کے جوں کی توں پوزیشن پررہنے کے باعث حسب سابق یہ اعلان بھی زیادہ دیر تک اپنااثرقائم نہیں رکھ سکتاکیوں کہ ایک توبھارت پرجنگی جنون کاخناس سوارہے دوئم یہ کہ کشمیرمیں بھارتی بربریت بڑھ جانے اوراسم کے نتیجے میں پیداہونے والے خون خرابے سے عالمی توجہ ہٹانے کے لئے بھارت پھرسے ایل او سی پرسیز فائر کی کھلم کھلاخلاف ورزی کا مرتکب ہوجائے گا۔