تمہیدکے طورپراپنے قارئین کے ساتھ یہ شیئرکرناچاہتاہوں کہ بھارت کشن گنگاڈیم بنانانہیں چاہتابلکہ گزشتہ دس سالوں سے ڈیم بن رہاتھااور19مئی ہفتے کواس نے بجلی کی سپلائی شروع کردی اورمودی نے اس کاافتتاح کردیا۔ آیئے اب چلتے ہیں اس ڈیم کی رودادکی طرف2008ء میں کشن گنگا پن بجلی پروجیکٹ پرپاکستان نے یہ کہتے ہوئے اعتراض کیا تھاکہ اس پروجیکٹ کی تعمیر سے پاکستان براہ راست متاثرہوجائے گااور یہ پروجیکٹ آزاد کشمیر میں مظفرآبادکے مضافات میں ’’نیلم جہلم ہائیڈرو پاورپروجیکٹ ‘‘جس کے چارفیزوںمیں سے دوفیزچالو ہوچکے ہیں اورمزیددوزیرتکمیل ہیں کو متاثر کرے گا۔ پاکستان نے ایک نااہل بیوروکریٹ جماعت علی شاہ کی قیادت میں بھارت کے ساتھ کشن گنگا پروجیکٹ کی تعمیر پراعتراض کرتے ہوئے اس مسئلے کاحل نکالنے کے لئے مذاکرات کے کئی راونڈ کئے مگر بے سود۔ باہمی طور پرمزاکرات کے ذریعے جب مسئلہ نہ سلجھاتویہ تنازعہ ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں چلاگیا۔چنانچہ پاکستان نے کشن گنگاپروجیکٹ سے متعلق عالمی عدالت میں 2009ء میں شکایت درج کی کہ وہ اس تنازع کامنصفانہ حل نکالے۔ذہن نشین رہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کیے گئے دریا ئے سندھ کے پانی معاہدے کے تحت اب صرف عالمی بینک ہی ایسا ادارہ ہے جہاں غیر جانب دار ماہرین کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے تنازعے کو سلجھایا جا سکتا ہے۔پاکستان کی طرف سے شکایت موصول ہونے کے بعد ہیگ کی عدالت کے ایک وفد نے جون 2011ئمیںمقبوضہ کشمیرجاکر اس پروجیکٹ کا مشاہدہ بھی کیا ۔ کشن گنگا پاور پروجیکٹ پر آپسی تصفیے کی تمام کوششیں ناکام ہونے کے بعد جب بھارت اور پاکستان نے اس پروجیکٹ سے متعلق عالمی عدالت میں قانونی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کیاتھا تو 2011ء میں کشن گنگا پاور پروجیکٹ کا جائزہ لینے کے لئے ورلڈ بنک اور پاکستانی آبی وسائل کے اعلی افسران پر مشتمل 31رکنی ڈیلی گیشن وادی کشمیر وارد ہوا جس کے دوران ٹیم نے پروجیکٹ سے متعلق ڈیزائن کا بھی جائزہ لیا ۔مذکورہ ٹیم نے پروجیکٹ پر جائزے کے دوران 24 کلو میٹر لمبی سرنگ پر کام بند کرنے کی سفارش کی ۔لیکن عالمی عدالت کے ان احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کی پاورسازکمپنیوں(NHPC) اور(HCC) نے مقبوضہ کشمیرکے ضلع بانڈی پورہ کے علاقہ گریز کے بڈون گائوں میں ملک ناگ پل کے نزدیک ایک ڈیم تعمیر کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر کھدائی کا کام شروع کر دیا ۔ اس پروجیکٹ کیلئے ’’ملک کدل عرف مالاپل ‘‘پر بند بنایاگیاہے جسکی لمبائی37میٹر اونچی ہے۔ڈیم کی کشادگی اورمالا پل کے متصل ٹنل کھودی گئی تاکہ وہاں سے پانی کو موڑا جاسکے یہ ٹنل کرالہ پورہ سے ملتی ہے۔ 23کلو میٹر ٹنل پہاڑوں کو چیر کر پانی نالہ بونار کے بعد نالہ مدھومتی میں جاتاہے جسکے بعد یہ ندی ولر جھیل سے مل جاتی ہے۔ 25ستمبر 2011ء کودی ہیگ ثالثی عدالت نے بھارت کو متنازعہ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر روکنے کے لئے عبوری حکم جاری کردیا تھا۔جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت دریائے نیلم یا کشن گنگا کے مقام پر تعمیراتی کام تب تک نہیں کرے گا جب تک عدالت اپنا فیصلہ نہ سنادے۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد کی نگرانی کے لئے پاکستان اور بھارت مشترکہ معائنہ ٹیمیں تشکیل دیں گے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کشن گنگا ڈیم پر کام نہیں کیا جاسکے گا۔ مگر تعمیر کا حلف نامہ بھارت نے مسترد کردیا تھا۔ اس سے پہلے پاکستانی وفد حکم امتناعی کے لئے 25اگست 2011ء کو ہیگ میں عالمی عدالت میں پیش ہوا تھا۔معاملہ یوں ہی چلتارہایہاں تک کہ 18فروری 2013ء کوہیگ کی بین الاقوامی عدالت نے زیرِ تعمیر کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کے سلسلے میں بھارت کے حق میں فیصلہ سنایا، اور بھارت کو کشن گنگا پروجیکٹ کی تعمیر کی اجازت دے دی تاہم پاکستان کے اعتراضات کے پیشِ نظرہیگ کی عدالت نے بھارت سے کہاکہ اس کے ڈیزائن میں تبدیلی کرنی ہو گی اور پانی کے بہا ئوکی بھی کم سے کم سطح برقرار رکھناہو گی۔ اس طرح ہیگ کی عدالت نے بھارت کے اس زیر تعمیر پن بجلی گھر کے تنازعے کا ایک نہ سمجھ آنے والااور ملا جلا فیصلہ سنایا۔نہ سمجھ آنے والااور ملا جلا فیصلہ اس لئے کہ ایک طرف عدالت نے پاکستان کی یہ دلیل نہیں تسلیم کی کہ اس ڈیم سے سندھ طاس آبی معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ،بھارت کوڈیم بنانے کی اجازت دی تودوسری طرف پاکستان کے اس اعتراض کو صحیح ٹھہرایا کہ پن بجلی گھر کے پانی کے ذخیرے کا جو ڈیزائن تیار کیا گیا ہے اس سے پاکستان کی طرف پانی کے بہائو پر اثر پڑے گا۔ ہیگ کی طرف سے دیئے جانے والے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارت کاکہناتھاکہ ہیگ میں قائم ثالثی کی عالمی عدالت کے فیصلے نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ بھارت اپنے کشن گنگا پن بجلی پروجیکٹ پر حق بہ جانب ہے اور وہ اپنی ضرورت کے مطابق پانی کے رخ کو موڑ سکتا ہے۔اس کایہ بھی کہنا تھا کہ اس سے ایک بار پھر یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت انڈس واٹر ٹریٹی کے ضابطوں کی پابندی کر رہا ہے۔مگربھارت کی اس خام خیالی سے پاکستان کااعتراض رفع نہ ہوسکا۔ ایک طرف بھارت کی طرف سے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سرسبز و خوشحال جنوبی ایشیا کے نعرے کی نفی ہے اوردوسری طرف یہ سندھ طاس معاہدے سمیت عالمی دریائوں کے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے آزا دکشمیرمیں بہنے والے ’’دریائے نیلم‘‘ کا پانی خطرناک حد تک کم یا پھربالکل یہ دریا خشک ہو جائے گا جس سے پاکستان میں زراعت کے ساتھ ماحولیات کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ کشن گنگا ڈیم کے ذریعے بھارت کا اصل ہدف آزاد کشمیر کے نیلم ہائیڈرو پراجیکٹ کو تباہ کرنا ہے۔بہرکیف!پاکستان کے اعتراضات کے باوجود بھارت کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر مکمل کر چکا ہے اورمودی کے ہاتھوں اسکا افتتاح بھی ہوچکا ہے۔ واضح رہے کہ پچاس سال قبل ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہوئے سندھ طاس آبی معاہدے کے مطابق جہلم، سندھ اور چناب دریائوں پر پاکستان کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں جبکہ باقی تین دریا بھارت کے اختیار میں ہیں۔قابل ذکر ہے کہ چناب پر بن چکے900میگاواٹ صلاحیت والے بگھلیار پاور پروجیکٹ اور نیلم پر بننے والے کشن گنگا پروجیکٹ۔ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے تحت تو دریائے جہلم کا رخ ہی موڑا جارہا ہے حالانکہ سندھ طاس اور بین الاقوامی معاہدوں کے تحت دریا کا اس طرح رخ موڑنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز موجود نہیں۔ویسے تو بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرناہر مہذب ملک کے لئے لازمی ہوتا ہے اور ان کی پاسداری نہ کرنا ایک غیر اخلاقی و غیر مہذب اقدام ہے۔ ان معاہدوں کی ضمانت ورلڈ بینک نے دی تھی جس نے پاکستان کو سرمایہ بطور قرض اس لئے فراہم کیا تھا کہ معاہدے کے اثرات کو کم کیا جاسکے کیونکہ معاہدے کے تحت بھارت کو دیئے جانے والے دریائوں کی وجہ سے پاکستان پانی کی کمی کا شکار ہوسکتا تھا اس لئے اسے قرض دیا گیا تاکہ وہ اپنا نہری نظام بہتر کرسکے اور یہ ایک ضمانت تھی۔ باقی کے دریائوں پر پاکستان کا حق بھارت نے تسلیم کیا تھا اور یہ وعدہ کیا تھا کہ ان کے بہائو کو کم کرنے کی کوشش نہیں کریگا لیکن بھارت بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کی مخالفت کررہا ہے جن معاہدوں کے گواہ ورلڈ بینک اور دیگر بڑے ممالک ہیں حالانکہ سندھ طاس معاہدے کی متعلقہ شق میں لکھا ہے کہ پاکستان کو بغیر کسی پابندی کے مغربی دریائوں کا پانی ملتا رہے گا اور بھارت کی ذمہ داری ہے بغیر کسی رکاوٹ کے یہ پانی پاکستان تک پہنچنے دے۔ یادرہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بنائے جانے والے متنازع ڈیم بگلیہاڑ، وولر اور کشن گنگا الیکٹرک پاور پراجیکٹ پر پاکستان کی مخالفت کے باوجود بھارتی حکومت نے مزید تین ڈیموں کی منظوری دی۔ ان منصوبوں میں ضلع بارہ مولا میں دریائے جہلم پر ’’یوری ٹو‘‘ اور ضلع ڈوڈہ کی تحصیل کشتواڑ میں چناب پر ’’پاکال دل‘‘ اور ’’برسر‘‘ کے منصوبے شامل ہیں۔ان سب پروجیکٹوں سے پاکستان پانی کی کمی اور قحط سالی سے دو چار ہوسکتاہے۔ ابھی دریائے جہلم پر مقبوضہ کشمیر میں وولر بیراج، بگلیہاڑ ڈیم اورنیلم دریاپر کشن گنگا ڈیم کی صورت میں بھارتی آبی جارحیت کا پاکستان مکمل سامنا نہیں کر پایا کہ بھارت نے آبی دہشت گردی میں مزید اضافہ کرکے پاکستانی دریائوں راوی، ستلج اور بیاس کے بعد چناب کو بھی خشک کرنے کے منصوبہ پر کام شروع کر دیا ہے۔ چناب کاپانی روکنے کے لئے بھارت نے ’’سوال کوٹ ڈیم‘‘ کی تعمیر کا منصوبہ بنا لیا ہے جس میں بگلیہاڑ ڈیم کے مقابلے میں تیرہ گنا زیادہ پانی ذخیرہ ہو سکے گا۔ بھارت نے سوال کوٹ ڈیم کی تعمیر دو ارب ڈالر کی لاگت سے شروع کردی ہے۔ اسی طرح کرگل کے مقام پر 28 میل طویل سرنگ کھود رہا ہے تاکہ دریائے سندھ کا پانی پاکستان تک نہ پہنچ سکے۔ مقبوضہ کشمیر میں بننے والا سوال کوٹ ڈیم تربیلا اور منگلا سے بھی اونچا ہوگا۔ 646فٹ بلند سوال کوٹ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش متنازعہ بگلیہار ڈیم سے 13گنا زیادہ ہے۔ جبکہ تربیلا ڈیم کی بلندی 485 اور منگلا ڈیم کی 453فٹ ہے۔ 2 ارب ڈالر کی مالیت سے تعمیر ہونے والے ڈیم سے 12سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ سوال کوٹ ڈیم دریائے چناب پر ضلع ڈوڈہ اور اودھم پور میں تعمیر کیا جا رہا ہے جو پاکستان کی سرحد سے صرف 70میل کے فاصلے پر ہے۔ اس ڈیم کا ڈیزائن ناروے کی ایک فرم نے تیار کیا ہے۔ ڈیم تک خصوصی سڑک تعمیر کی جا رہی ہے۔ سوال کوٹ ڈیم بننے کے بعد دریائے چناب بالکل خشک ہو کر رہ جائے گا۔بھارت کی سینہ زوری کایہ عالم ہے کہ اس نے سندھ طاس معاہدہ کے تحت پاکستان کو اس منصوبہ سے آگاہ نہیں کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سوال کوٹ ڈیم کی تعمیر رکوانے کی کوشش نہ کی گئی تو پاکستان کی معیشت خصوصاً زراعت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی۔ صاف دکھائی دے رہاہے کہ بھارت نے پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کرنے کے لئے طویل مدتی آبی جارحیت شروع کررکھی ہے پانی نہ ہوا تو پاکستان کا کسان اور عوام دونوں پیاسے مر جائیں گے۔