کسے معلوم تھا کہ بھارت میںایسے درندہ صفت حکمران آئیں گے جومقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کو ہی اندھا کرنے کا حکم دے دیں گے اور اس کے بعد بھی بھارت کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کہنے کا الاپ نہیں چھوڑیں گے۔مقبوضہ کشمیر میں ایک برس سے جاری کرفیو میں 80لاکھ کشمیری صحت ،تعلیم، انٹرٹینمنٹ اور ایک دوسرے سے رابطہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ان کی طرز زندگی ہی بدل کر رہ گئی ہے۔ بیرون دنیا سے ان کا رابطہ ختم ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ ان سے جینے کا رنگ ڈھنگ ہی چھین لیا گیاہے۔اپنے طریقے سے جینے کی راہ دکھائی جا رہی ہے۔ پانچ وقت نمازیوں سے بھری رہنے والی مساجد ویران ہو گئیں۔ہر جانب ہو کا علم ہے۔بہانہ کورونا وائرس وباء کا بنایا گیاحالانکہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کورونا کے برائے نام کیسز تھے۔ مارکیٹوں پر بھی تالے لگوا دیئے گئے۔ بھارت نے گزشتہ ماہ کسی ایک آدھ علاقے میں کرفیو کی پابندیاں نرم کریں مگر فوج کے زیر اثر علاقوں میں ایسا ہوا۔کرفیو کے دورانیے میں رد و بدل کے بعد دنیا کی نظروں میں جمہوریت کا راگ الاپنے کا موقع مل گیا۔ عالمی میڈیاغافل نہیں ، وہ جانتا ہے کہ بھارت نے عالمی قوانین کو پامال کرتے ہوئے ہندوستان کی واحد مسلم ریاست کو قید کر دیاہے۔بھارتی مقبوضہ کشمیر کی 1.25کروڑ آبادی میں سے کورونا کے مریض چند ایک تھے۔ اموات بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ایسانہیں تھا جو آج کل بھارت کا حال ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں روزانہ نئے مریض بن رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھارت دنیا کی واحد جمہوریت ہے جہاں سب سے زیادہ مرتبہ انٹر نیٹ جیسی بنیادی ضرورت کی فراہمی میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔2019ء میں ایک دو بار نہیں ، 55بار انٹرنیٹ سروسز بندشوں کا شکار ہوئیں۔265دن کی مسلسل بندش کے طویل ترین بندش کا ’’اعزاز‘‘ بھی سب سے بڑی جمہوریت کو حاصل ہے۔دلی سرکار نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ انٹرنیٹ بنیادی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی یہ تو لگژری آئٹم ہے جو بھارتی مقبوضہ کشمیر یوں کے مقدرمیں نہیں ہے لہذا سپریم کورٹ نے بھی انٹرنیٹ کی بحالی کا حکم یہ کہہ کر جاری کرنے سے انکار کر دیا کہ’’یہ بنیادی حقوق میں شامل نہیں‘‘۔ کشمیر میں ہر گھر کی بتیاں گل رہتی ہیں۔یہی وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ بتیوں کی جائے موبائل کی ٹارچ میں کام کرتے ہیں۔کھانا مدھم روشنی میں پکتا ہے۔ یہ نہ مشکل ہے نہ نیا۔اب تو ہر عورت کوعادت پڑ گئی تھی۔کسی زمانے میں ڈاکوئوں کے خوف سے شہری بتیاں بجھا دیا کرتے تھے لیکن اب بھارتی فوج کے ڈر سے ایسا کیا جاتا ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیری سراسمیگی کے عالم میں سرگوشیاں کرتے ہیں۔بھارتی فوجی کسی وقت کسی کو بھی لے جا سکتی ہے جسے چاہے جب چاہے موت کی وادی میں اتار سکتی ہے۔بھارتی عدالت ،انتظامیہ ،وکیل ،پولیس،جیلیں،قانون اور حکمران، کشمیریوں کے خلاف سب ایک ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی تائید اب بھارتی سیاست دان بھی کرنے لگے ہیں۔ بھارتی راجیہ سبھا کے رکن پی چدم برم نے مودی سرکار کو اس سلسلے میں آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ 5 اگست کے اقدام سے دلی جو کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا، کچھ بھی حاصل نہ کر سکا۔5 اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیریوں کی آواز دبانے اور آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا گیا اور کشمیر کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر ایک بڑی جیل ہے۔ بنیادی حقوق معطل ہیں۔ آزادی کے جذبے کو کچلنے کے لیے سیکورٹی آپریشن معمول ہیں لیکن پھر بھی مودی سرکار مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ پانچ اگست کے بعد سے مقبوضہ وادی میں پبلک سیفٹی ایکٹ، ان لا فل ایکٹیوٹی ایکٹ نافذ ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر سرچ آپریشنز جاری ہیں جب کہ آزاد میڈیا کے لیے کشمیر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ مودی سرکار کے اقدام سے کشمیر ویلی میں 40 ہزار کروڑ کا نقصان ہو چکا ہے۔4 لاکھ 97 ہزار افراد بے روزگار ہوئے۔ گزشتہ سال تک سیاحوں کی آمد 3 لاکھ سے اوپر تھی جو کم ہو کر 43 ہزار رہ گئی ہے۔کشمیری بیمار افراد کو دوا اور ڈاکٹر میسر نہیں جس سے ہسپتالوں میں زیر علاج بعض مریضوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔مواصلاتی نظام کی بندش سے کشمیری شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں جبکہ گھروں میں ادویات اور کھانے کا ذخیرہ ختم ہونے کے باعث موت آہستہ آہستہ کشمیریوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ گھر گھر تلاشی کے دوران ہزاروں بیگناہ کشمیریوں کو گرفتار کر کے نامعلوم مقامات پر منتقل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور ان کے لواحقین کو اس بات تک کا علم نہیں ہے کہ آیا ان کے پیارے اس دنیا میں موجود ہیں یا نہیں۔ ذراسوچیں اگر ایسا سلوک کسی مسلمان ملک میں غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ ہو رہا ہوتا تو پوری دنیا میں شور و غل مچا ہوتا اور اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے حرکت میں آ چکے ہوتے اور فوجی اقدام تک کے بارے میں سوچا جا رہا ہوتا۔ لیکن بھارت کی اس جارحیت پر بین الاقوامی ردعمل ملا جلا رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں اس انسانی سانحہ پر تفصیلی مضامین تو شائع ہوئے اور جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات بھی ہوئی مگر کشمیریوں کے حق خود ارادی کے بارے میں کم ہی آواز اٹھائی گئی۔ ہندوستانی حکومت نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی آزادی سلب کرنے پر 5اگست کے بعد سے 15روزہ جشن منانے کا اعلان کیاتھا۔مودی حکومت نے اپنی انتہا پسند دہشت گرد جماعت بی جے پی کے غنڈہ عناصر کو ہدایت کی کہ ملک گیر سطح پر ریلیاں نکالی جائیںگی۔ مقبوضہ کشمیر میں زونل، تحصیل اور ضلعی دفاتر میں ہندوستانی پرچم لگائے جائیں۔ ملک بھر کے عوام کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ کریں۔ ’’ ہم دنیا کو بتائیں گے کہ مقبوضہ کشمیر میں کتنے پولیس والوں نے جانیں دیں اور کتنے دہشتگرد پکڑے گئے‘‘