یہ جو کفایت شکاری ہے نا‘ کفایت شعاری‘ اس سے اللہ کی پناہ۔ جی ہاں‘ میں یہی کہہ رہا ہوں آج کل اس کا بڑا چرچا ہے۔ ہم حکومت کے اخراجات کم کرنا چاہتے ہیں‘ سادگی اپنانا چاہتے ہیں۔ بڑی اچھی بات ہے‘ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ ملک کی معیشت بیٹھ جائے‘ منڈی میں مندی کا زور ہو جائے‘کاروباری طبقہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہو اور یہ کہا جانے لگے کہ یہی حال رہا تو آئندہ تین چار ماہ میں آدھا ملک بے روزگار ہو جائے گا تو آدمی کو سوچنا پڑتا ہے یہ کون سی کفایت شعاری ہے جس نے ہمیں تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ عام طور پر اس کے لئے انگریزی میں austerityکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومتیں آتی ہیں اور شور مچاتی ہیں کہ ہمارے ہاں بڑی لوٹ مچی ہوئی تھی۔ عیاشیاں ہو رہی تھیں۔ شاہ خرچیوں کا بازار گرم تھا‘ اس لئے ملک کنگال ہو گیا تھا۔ اب ہم ان تمام عیاشیوں ‘ شاہ خرچیوں اور لوٹ مار کا خاتمہ کر کے ملک کوسیدھے رستے پر چلائیں گے۔ ملکی دولت کا ایک پیسہ بھی ضائع نہیں ہونے دیں گے بلکہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے‘ چوروں‘ ڈاکوئوں لٹیروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے‘ تو یہ بات بڑی اچھی لگتی ہے۔ امتحان تب ہوتا ہے جب ہم اس پر عمل کرتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو ہر بات کا ایک سلیقہ ہوتا ہے۔ کفایت شعاری بھی سلیقہ مانگتی ہے۔ اس کا مطلب نہ بخل ہے نہ کاروبار حیات کو ٹھپ کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنا ہے۔ ہمارے ہاں یہی ہوا ہے اس لئے میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ اس پالیسی کا اعلان کرنے والوں کی نیت کتنی بھی اچھی کیوں نا ہو‘ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مئی کے مہینے میں ہم پاکستان کی آئندہ سال کے لئے شرح نمو 6.2فیصد تک لے جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ آج نومبر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ 4فیصد ہو گی۔ خدا کی پناہ۔ اے مرے رب مرے گناہ معاف کر‘ تیرے ہی کرم کا آسرا ہے۔ وگرنہ ہمارے ہاتھ پلے تو کچھ بھی نہیں۔4فیصد کا سن کر تو میں چکرا گیا تھا‘ کیونکہ کوئی ایک ڈیڑھ ماہ پہلے مستند عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے خبر دی تھی کہ پاکستان کی شرح نمو 4.7فیصد ہو سکتی ہے۔ مجھے اس پر بھی بڑی تشویش ہوئی تھی۔ ایک آدھ ماہرین نے یقین دلایا تھا کہ اگر عقل سے کام لیا گیا تو یہ 5فیصد سے اوپر ہو سکتی ہے۔ یہ بھی تشویش ناک تھی مگر اب یہ خبر تو بہت ہی پریشان کن ہے کہ یہ 4فیصد رہ جائے گی۔ اگلے سال 4.3کی پیشینگوئی تھی۔ مگریہ تو اسی سال اس سے بھی کم ہو رہی ہے۔ یہی نہیں ہمارے ایک ماہر معاشیات حفیظ پاشا نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ساڑھے تین فیصد یا اس سے بھی کم ہو سکتی ہے۔ ہم گویا وہیں جا پہنچیں گے جہاں سے چار چھ سال پہلے سفر کا آغاز کیا تھا اور اس بات کا خواب دیکھا تھا۔2020ء تک ہم سات آٹھ فیصد کی حد کو چھو جائیں گے۔ تب ہم غربت اور مہنگائی کو پیچھے چھوڑ آنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ بھارت کی شرح نمو ایک عرصے تک تین فیصد کے لگ بھگ رہی تھی۔ اس پر ہندو شرح نمو کی پھبتی کسی جاتی تھی۔ یہ پھبتی ہم نہیں کستے تھے‘ عالمی سطح پر ماہرین اس طرح کہا کرتے تھے۔ ہم نے کفایت شعاری کے نام پر سب فنڈز روک دیے ہیں اپنے ترقیاتی پروگرام کو کم کر دیا ہے۔ یہ کوئی ایک کھرب ڈالر کا پروگرام تھا جسے ہم 635بلین ڈالر پر لے آتے ہیں۔ مگر حال یہ ہے کہ اس پر بھی عمل نہیں کر رہے۔ ہر کام ٹھپ پڑا ہے۔ مارکیٹ میں ڈر کے مارے آرڈر نہیں دیئے جا رہے۔ جو آرڈر دیئے جا چکے ہیں‘ اس کی ادائیگیاں نہیں ہو رہیں۔ ہر کوئی ڈر گیا ہے‘ کرپشن کا راگ ہم نے اتنا الاپا ہے کہ فیصلہ ساز کوئی فیصلہ کرنے سے ڈر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں عزت اسی میں ہے کہ کچھ نہ کیا جائے۔ کاروبار بند ہونے سے باہر سے بھی سرمایہ کاری نہیں آ رہی۔ کوئی کنزیومر بنکنگ بھی نہیں ہو رہی۔ مارکیٹ میں پیسہ نہیں ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو باہر نکل کر کاروباری لوگوں کی طرف نکل جائے اور خود اندازہ لگا لے۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس پر بے روزگاری‘ ڈائون سائزنگ کی تلوار نہ لٹک رہی ہو۔ وہ جو کہتے ہیں کہ جہنم نیک نیتوں سے بھری پڑی ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ کفایت شعاری کا نعرہ لگانے والوں کی نیتیں درست ہوں گی‘ مگر شاید وہ بھی ان نتائج کا اندازہ نہ کر سکے۔ کفایت شعاری تو یہ ہوگی کہ فضول خرچی سے بچا جائے‘ ناکہ ہر قسم کا کام ٹھپ کر دیا جائے۔ ایک بار کسی نے غلام اسحق خاں کی ایک بات بتائی تو اس پر بڑا غصہ آیا۔ بوڑھے اور گھاگ اہل کار نے کسی سے کہا کہ یہ رشوت بھی معیشت کی گاڑی کو بہتر کرنے میں مدد دیتی ہے۔ بڑا غصہ آیا۔ اصل بات یہ ہے کہ مارکیٹ میں پیسہ ہو‘ چہل پہل ہو تو کاروبار حیات چلتا رہتا ہے۔ کفایت شعاری اور سادگی کا مطلب یہ ہے کہ غلط کاموں پر غلط طریقے سے پیسہ خرچ نہ ہو‘ ناکہ ہر قسم کی سرمایہ کاری پر پابندی لگا دی جائے۔ جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ اب مزید کی گنجائش نہیں‘ اگر سچ مچ اچھے لیڈر کی پہچان یہ ہے کہ وہ یوٹرن لینا جانتا ہو تو بسم اللہ کیجیے۔ کرپشن‘ کفایت شعاری ‘ سادگی کو اس کے اصل تناظر میں دیکھیے۔ غلط جگہوں پر سرمائے کے زیاں کو روکیے، لوٹ مار کرنے والوں کے ہاتھ پکڑئیے۔ شاہ خرچیوں اور عیاشیوں کا خاتمہ کیجئے۔ مگر درست اور ضروری کام تو ٹھپ نہ کر دیجئے۔ اصل کفایت شعاری پیسہ بچانا نہیں‘ بلکہ بچا کر اسے صحیح جگہ پر استعمال کرنا ہے۔ کم از کم معیشت کی دنیا میں ایسا ہے۔ ہمارے ایک مرشد نے بیان کر رکھا ہے کہ اسلام میں بورژواکی کوئی گنجائش نہیں۔ مطلب یہ کہ عیاس‘ تعیش پسند‘ فضول خرچ ہمارے ہاں جی ہی نہیں سکتے۔ میں اس پس منظر میں فقیری اور درویشی کی ستائش کیا کرتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں اس بات کی گنجائش ہی نہیں کہ ہم دنیا داری کے لئے پیسہ لوٹتے اور لٹاتے رہیں۔ یہ بالکل ایک الگ کلچر کا نام ہے جو ریاست مدینہ کا کلچر تھا۔ خلافت راشدہ کو دیکھ لیجئے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا چلن ملاحظہ کیجئے۔ ہمارے حکمرانوں کو سانس کی ڈوری باقی رکھنے کے لئے سرکاری بیت المال سے جو ملتا تھا‘ ذرا اس کا اندازہ کیجئے۔ ذرا ان کے لائف سٹائل پر غور کیجئے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہمارے لائف سٹائل وہی رہیں اور ساری سختیاں اور تلخیاں ہم عوام کو سونپ کر یہ کہتے پھریں کہ بس قوم کی خاطر ذرا قربانی دے دیجئے۔ جلد اچھے دن آئیں گے۔ حضور والا‘ ترقی کا پہیہ‘ سرمائے کے زور پر چلتا ہے۔ کفایت شعاری یہ ہے کہ یہ سرمایہ غلط استعمال نہ ہو‘ یہ نہیں کہ ہم اس پہیے کو روک کر بیٹھ جائیں۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا‘ مگر یہی حال رہا تو بہت کچھ بگڑ جائے گا۔ کرپشن آپ ضرور پکڑئیے۔ مگر اس طرح نہیں کہ کوئی کام بھی نہ ہو۔ جس کے پاس پیسے ہیں وہ تو چھپا کر بیٹھ رہے گا اور اس کی زندگی پر کچھ اثر نہیں پڑے گا۔ مگر غریب آدمی کا چولہا ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ یہ کوئی ترقی ‘ سرمائے کے بغیر ممکن نہیں۔ ہاں سرمایہ کا غلط استعمال قابل اعتراض ہے اور اس غلط استعمال کو روکنا کفایت شعاری ہے۔ اسراف ‘ بخل‘ کفایت شعاری‘ سادگی کو اس کے اصل پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ وگرنہ ہم حماقت کریں گے۔ یہ اخلاقی معاملہ تو ہے ہی‘ مگر اقتصادی مسئلہ بھی ہے‘ کیا خیال ہے‘ ہم ذرا اس کے اصل پس منظر میں دیکھ لیں‘ وگرنہ ایسا نہ ہو کہ دنیا کفایت شعاری کی اس خوبصورت قدر کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے جیسے اس لمحے میں دیکھ رہا ہوں!