یار لوگ کہتے ہیں 13 رکنی اتحاد اور چودھویں چوہدری شجاعت حسین، سب ہار گئے۔ مگر 2013ء سے 2022ء تک یہ جیتے کب تھے جو اب ہار گئے؟ 2013ء کے انتخابات میں بھی انہیں عبرتناک شکست ہوئی تھی‘ عمران خاں کی تحریک انصاف کے مقابلے میں بری طرح ہار گئے تھے مگر ریفری کی بددیانتی کی وجہ سے اعلان فتح ہارے ہوئوں کے حصے میں آیا‘ اس میدان میں تھرڈ امپائر کا کوئی وجود نہیں چنانچہ سب اپیلیں رائیگاں گئیں اور عمران خاں کو پارلیمنٹ بنچوں پر بھی چھوٹے حصے دار کے طور پر مانا گیا۔اسٹیبلشمنٹ کی پراکسی پانچ برس کے لئے حکمران بنا دی گئی‘ ان دنوں اور طرح کی دھاندلی کی گئی تھی اور 9اپریل 2022ء کو دوسری طرح کی دھاندلی کر کے عمران خاں کو اقتدار سے نکال باہر کیا۔ لیاقت علی خاں کو شہید کرنے کے بعد اگلے بہتر 72سال سے اسٹیبلشمنٹ پاکستان میں برسر اقتدار چلی آ رہی ہے ۔کبھی یہ بلا واسطہ حکومت و اقتدار کی بلا شرکت غیرے مالک ہوتی ہے ،گاہے بالواسطہ اپنی پراکسی کے ذریعے اپنا اقتدار اور اختیار استعمال کرتی ہے۔اس کی قوت و اختیار کا یہ عالم ہے کہ اکثر اوقات اسٹیبلشمنٹ کو کچھ بھی کرنا نہیں پڑتا بس یہ تاثر ہی کافی رہتا ہے کہ اب کے بار اسٹیبلشمنٹ کی حمایت فلاں پارٹی یا شخصیت کی طرف ہے اس تاثر کے ساتھ ہی پندرہ سے بیس فیصد ووٹ اس پارٹی کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ ہوس اقتدار نے پاکستان کو دولخت کر دیا۔اس کے باوجود پاکستانی عوام نے اپنی امیدوں کو انہی کے ساتھ وابستہ رکھا۔2022ء کا سال پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور 9اپریل مینارہ نور کی طرح ہمیشہ روشنی دیتا اور سیدھی راہ کی طرف رہنما کرتا رہے گا۔ پہلی بار پاکستانی عوام نے اسٹیبلشمنٹ کا کہا ماننے سے انکار کر دیا۔اپنی طاقتور ‘ منہ زور اسٹیبلشمنٹ کے مقابل آگے بڑھ کے عمران خاں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر اس کو اپنا رہبر و رہنما مان لیا اس دن سے آج تک عمران خاں نے قدم پیچھے ہٹائے نہ عوام نے اس کا ساتھ چھوڑا۔ وہ اقتدار ‘ اختیار‘ طاقت‘ تشدد ‘ لالچ دھمکی سمیت کسی فریب میں نہیں آئے۔ دھاندلی ہوئی‘ خفیہ کارروائیاں ،اعلانیہ دھونس‘ دھمکی‘ چادر دیواری کا تقدس پامال کیا، مقدمات بنے، عدلیہ تک کو مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ الیکشن کمیشن ‘پولیس‘ انتظامیہ‘ مہنگائی کی چکی میں پیس دیا‘ آٹا دال تک سے محروم ہوئے مگر انہوں نے ہار ماننے سے انکار کر دیا۔ کسی قیمت پر عمران خاں کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ عمران خاں کی بہادری صبر اور استقلال ایسے جوہر ہیں جو آزمائش کی گھڑی میں قوم کے لئے قیمتی اثاثہ ثابت ہوئے۔ اس نے اپنی جان‘ عزت و ناموس تک کو دائو پر لگا دیا لیکن پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ بڑا ہی نادان ہو گا جو یہ مان لے کہ عمران خاں کو اقتدار سے محروم کرنے والے نواز شریف یا زرداری تھے‘ ان کی دولت اور سیاسی مہارت نے یہ کارنامہ سرانجام دیا‘ وہ بے چارے تو محض مہرے ہیں‘ بے قیمت مہرے‘ چھوٹی چھوٹی چالوں کے لئے بے دریغ قربان کئے جانے والے مہرے‘ پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی رہنمائی میں عمران خاں کے مقابل صف آرا ہوئیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں ہر حربہ آزما دیکھا مگر عبرت ناک شکست ان کا مقدر بنی۔ جمہوری ملکوں میں سیاسی اتحاد بنا کرتے ہیں۔ ہمیشہ نئے انتخابات کا مطالبہ لے کر کسی حکمران کا مقابلہ کرنے کے لئے جس کے طرز حکمرانی پر انہیں کوئی اعتراض یا شکایت ہوتی ہے‘ پاکستان میں اقتدار سے محروم ہونے والے کے خلاف اتحاد تشکیل دیا جا رہا ہے، اس سیاسی اتحاد کا یک نکاتی ایجنڈا‘ انتخابات سے فرار کی راہیں تلاش کرنا ہے۔ عمران خان جسے سیاست نہیں آتی۔ اس کے مقابلے میں ماہرین سیاست انتخابات سے فرار کو انتہائے سیاست خیال کرتے ہیں۔سابق جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں اسٹیبلشمنٹ نے جو کھیل رچایا تھا،اس میں انہیں عبرتناک بلکہ شرم ناک شکست کا سامنا ہے۔ پی ڈی ایم‘ اسٹیبلشمنٹ اتحاد کی میدان سیاست میں شکست اچانک یا حادثاتی نہیں ہے‘ مسلسل شکست دیرپا اثر رکھتی ہے۔ سیاسی میدان میں ایک طرف عمران خاں کی قیادت میں پاکستانی عوام میدان میں تھے‘ دوسری طرف عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے پرانے نمک خواروں کا پورا پورا ساتھ دیتی رہی۔ساری کی ساری طاقتوں کو پاکستانی عوام نے مسلسل شکست سے دوچار کئے رکھا۔ عمران خاں کی ثابت قدمی اور پاکستانی عوام کی مزاحمت میں استقلال نے بالآخر انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ان سب کو جوہمیشہ فتح یاب رہے تھے۔ شکست کے نام اور ذائقے سے نا آشنا ‘ پاکستان میں جمہوریت دشمن قوتیں آخر کار شکست ماننے پر مجبور کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے ہر طرح سے آزما کے دیکھ لیا کہ عوام اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔14جولائی پنجاب میں ہونے والے انتخابات آخری موقع تھا جب دھاندلی کرنے والے‘ دھاندلی کے ذیعے فاتح کو ریفری کی مدد سے ہرا سکتے تھے لیکن فتح اتنی واضح اور شاندار تھی کہ ساری کوششیں دھری کی دھری رہ گئیں اور تحریک انصاف نے 80فیصد نشستیں بھاری اکثریت سے جیت لیں‘ رہی کسر قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات نے پوری کر دی‘ اکتوبر میں منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے آٹھ حلقوں میں سے سات پر عمران خاں امیدوار تھے‘ ان سات میں سے چھ نشستیں عمران نے بہت بھاری اکثریت سے جیت لیں‘کراچی کی نشست کے نتائج نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا‘ عمران خاں کے ووٹ ساری جماعتوں کے کل امیدواروں کے ووٹوں کے مقابلے دوگنا سے بھی زیادہ تھے‘ ان نتائج کا سامنا کرنے کے لئے ایم کیو ایم کے سارے دھڑے اکٹھے کئے جا رہے ہیں‘ لیکن صفر کو صفر سے جمع کریں یا ضرب دیں نتیجہ صفر ہی رہے گا۔13جماعتیں جمع شجاعت حسین+اسٹیبلشمنٹ کچھ نہیں کر سکا تو بے چاری ایم کیو ایم کیا کرے گی۔ سب کی امیدیں انتخابات کے التوا سے جڑی ہوئی ہیں‘ کوئی حادثہ ہو جائے یا معجزہ رونما ہو جس سے انتخاب ملتوی ہوتے رہیں: منحصر مرنے پہ ہو جن کی امید ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے پنجاب اسمبلی کا ڈرامہ اسلام آبادسے لندن تک‘ سارے ناامیدوں کا آخری سہارا‘ شہ دماغوں کی حکمت عملی، چال بازوں کی چال بازیاں‘ تجزیہ کاروں کے تجزیے’ تجربہ کاروں کے تجربے‘ دولت مندوں کی تجوریاں رات کی رات میں راکھ اڑی خاک ہوئیں‘ سیاسی کارکنوں نے غیر معمولی کردار کا مظاہرہ کیا‘ سوا ارب روپے انہوں نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیے جی ہاں ایک ارب پچیس کروڑ روپے اسمبلی سے غیر حاضر ہو جانے کے عوض‘اتنا بھاری معاوضہ کسی بیماری کا بہانہ‘ حادثے کا افسانہ‘ دھند کے باعث شاہراہوں کی بندش کچھ بھی کام آ سکتا تھا لیکن وہ ثابت قدم رہے‘ اپنی بات کے سچے‘ دھن کے پکے‘ ان کی ثابت قدمی کے سبب پاکستان اپنے بہترین دور میں داخل ہونے جا رہا ہے‘ قومی خود مختاری ‘ آزادی اور خوشحالی کے سفر پر۔ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے بہتر حکمت عملی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا‘ انہوں نے تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کی غیر حقیقی اور کڑوی باتیں سنیں‘ عمران خاں کے سامنے اختلاف رائے بھی کیا لیکن اپنے عہد پر قائم رہے کہ آخری فیصلہ عمران خاں کا ہو گا‘ وہ جو بھی حکم دیں گے اس پر عمل کیا جائے گا‘ انہوں نے جو کہا کر دکھایا‘ مسلم لیگ(ق) کے پارلمیانی پارٹی کے ممبران پرویز الٰہی کی حمایت میں یکسو رہے‘ ان سے وزارتوں اور دوسرے عہدوں کا مطالبہ بھی نہیں کیا‘ اب تحریک انصاف کے لئے لازم ہے کہ مسلم لیگ(ق) کے پرویز الٰہی سے تعلق رکھنے والوں کے لئے فراخ دلی کا مظاہرہ کرے‘ عمران خاں کو قومی اسمبلی توڑنے پر اصرار کرنے کی ضرورت نہیں‘ اگر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پہلے ہو جائیں تو یہ تحریک انصاف کے لئے زیادہ مفید ثابت ہوگا۔ سینیٹر طارق چودھری