اس نے پوچھا جناب کیسے ہو اس خوشی کا حساب کیسے ہو عشق کرتا ہوں اور سوچتا ہوں اس عمل کا ثواب کیسے ہو یقینا آج لکھنا تو مجھے اقبال پہ چاہیے تھا کہ شاعر ہونے کے ناتے مجھ پر عین فرض ہے مگر مجھ سے بہتر لکھنے والے اقبال پر انشا پردازی کریں گے۔ تاہم اقبال کی فکر کی کس کو فکر ہو کہ میاں صاحب نے تو یوم اقبال کی چھٹی ہی ختم کر دی تھی کہ اسی فکر سے اسلام دشمن نجات چاہتے ہیں اس پر ستم ظریفی یہ کہ خان صاحب نے تب بہت باتیں کی تھیں کہ اقبال کی چھٹی کروائی جا رہی ہے مگر خود آئے تو تب بھی چھٹی بحال نہ ہوئی سب کا ایجنڈا ایک جیسا ہے حکم عدولی کون کر سکتا ہے اپنی اساس سے بیگانگی سافٹ امیج کی بنیاد قرار پاتی ہے۔ اقبال کی بلند پروازی تو صرف قائد ہی جان سکتے تھے۔ یہ تو کاغذی پھول ہیں اور پھول بھی گوبھی کے جن کے اندر نہ شعور ہے اور نہ حمیت اور نقل کرنے چلے ہیں قائد کے کردار کی۔ عظمت اسی لئے ان سے رخصت ہو چکی۔ ایسی بصیرت کسے نصیب ہو گی کہ ایران کے انقلاب کو اساس فراہم کر دے۔ حکیم الامت کو سمجھنے کے لئے ذہن نارسا چاہیے، اپنی شناخت اور اپنا تشخص بحال کرنے کے لئے تو یہ تجربہ گاہ بنائی گئی جسے بعد میں آنے والوں نے اپنی جاگیر اور اپنا کاروبار بنا لیا۔ جاگیرداروں اور کاروباری لوگوں سے قوم نے مایوس ہو کر ایک ایماندار سپورٹس مین کو موقع دیا تو اس نے سب کچھ کھیل بنا کر رکھ دیا۔ اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ منافقت کا چلن عام ہوا، سارے لوٹے سب چھوٹے موٹے آ کر بیعت ہو گئے کہ یہی حکم آقا تھا۔ حرص و ہوس نے منصب و جاہ نے سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر دیا۔ پھر سب کچھ Animal farmبن گیا۔ وہ سب خباثتیں جو انسان کرتے تھے آہستہ آہستہ جانوروں میںرائج ہو گئیں وہی امتیاز وہی دوست نوازی اور وہی سازشیں۔وہی عوام بے چارے۔ ایک دفعہ پھر سیاست میں گرمی آ گئی ہے۔ عالمی سطح پر بھی ہلچل ہے۔ ٹرمپ تو اسی دن ہار گئے تھے جس دن انہوں نے کہا تھا کہ وہ عدالت سے رجوع کریں گے امریکی خوش ہیں کہ وہ پاگل پن کی فضا سے نکل آئیں گے کہ ٹرمپ کی ٹرمپیاں ان کی قوم کا تعارف کچھ اچھا نہیں دکھاتی تھیں۔ تبھی تو وہیں سے کسی نے زبردست تبصرہ کیا ہے کہ جوبائیڈ ن اور ٹرمپ میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ جوبائیڈن ٹرمپ نہیں ہیں۔ خدا نہ کرے کہ جوبائیڈن کبھی بھی ٹرمپ بن جائیں یا نکل آئیں۔ ٹرمپ کی عصبیت نے امریکہ کی معاشرت کو بہت نقصان پہنچایا۔ دوسری بات یہ کہ دوسرے یعنی باہر سے آئے ہوئے لوگ مضطرب رہے: چھوڑا نہ صید تو نے کسی کو زمانے میں تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں ٹرمپ کی تبدیلی کے بعد ظاہر ہے یہاں بھی لوگ دعائیں مانگتے ہونگے۔میں مگر اس پر بات نہیں کروں گا تاہم ہر دور میں لوگ تبدیل تو ہو جاتے ہیں۔ خاں صاحب کو بھی تو تبدیلی کے لئے لے کر آئے تھے مگر خان صاحب خود ہی تبدیل ہو گئے۔ نظام نے انہیں بدل کر رکھ دیا اب سیاسی صورتحال دلچسپ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اتحاد کر کے سامنے آن کھڑی ہوئی ہیں۔ میں یہ بات پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ اس اتحاد سے پیپلز پارٹی کھسک جائے گی کہ اس کے پاس کھونے کو سندھ ہے اور وہ وفاق میں باری لینا چاہتی ہے تو وہ ڈیل شاید کر چکی ہے اب بلاول نے دودھ میں مینگنیاں ڈالنا شروع کر دی ہیں۔ ان کا بیانیہ بدل رہا ہے کہ وہ نواز شریف یعنی ن لیگ کے بیانیے سے مختلف ہے کہ ان کے بقول نواز شریف نے جن کے نام لیے ہیں وہ اس کا ثبوت پیش کریں اور دوسری بات نام لینا پیپلز پارٹی کی روایت نہیں۔ وہی کہ نام لینا جائز بھی نہیں۔ اسی طرف مولانا نے نکے کے ابا کہہ کر اشارہ بھی کیا تھا: جب پیار کیا تو ڈرنا کیا پھر چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ بلاول کے لئے خطرناک بھی ہے میرے قارئین مجھ سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں مگر اپنی بات کہنے کا مجھے حق ہے کہ عوام میں اور خاص طور پر پنجاب کے عوام میں عصبیت پھیل رہی ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بزدار صاحب یہاں کام نہیں کروا سکے۔ بلاول اور ان کے ساتھی جانتے ہیں اگر شفاف الیکشن ہو گئے تو پیپلز پارٹی شاید سندھ میںبھی نہ رہے یہ بات آپ کو کراچی والے زیادہ اچھے طریقے سے سمجھا سکیں گے ۔عوام بے چارے پھر بھی ڈرتے ہیں کہیں سچ مچ بلاول کو لاہور نہ مل جائے اور پھر لاہور بھی کراچی اور لاڑکانہ کی طرح گدلا ہو جائے۔ جو بھی ہو لاہور شہباز شریف کا احسان مند ہے چلیے موسم تبدیل ہو رہا ہے زمستاں آغاز ہو چکی ہوا میں خنکی آ چکی۔ زمستاں کے بعد فضل گل بھی آئے گی مگرساتھ ہی غالب کا شعر یاد آ رہا ہے: خزاں کیا فصل گل کہتے ہیں کس کو کوئی موسم ہو وہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے واقعتاً جب بال وپر ہی جھڑ جائیں تو پرواز کیسی۔ کہنے کا مقصد یہ کہ کسی بھی ملک کے عوام اپنی معیشت کے زور پر ہی اڑ سکتے ہیں ان کو بلوں چکرہی میں مار دیا گیا ہے۔ بجلی گیس اور پانی کے لئے نارسائی لوگ دال روٹی کیلئے بھی چیخنے لگے۔ ایسی دگرگوں صورت حال میں کس کو اقبال یاد آئے بلند پرواز ہی تو بہت دور کی بات ہے۔ پہلی بات توتنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا کہ سانس آمد و شد رہے۔ کیسا وقت آ گیا کہ سب اپنی رعایا سے بے خبر اپنے ہی نشے میں گم ہیں آنکھیں بند کیے حال مست ہیں ہم یہ شعر کس کو سنائیں: کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ