عالمی مجلس بیداری فکر اقبال کے زیر اہتمام ادبی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مختلف سکالرز نے کہا کہ علامہ اقبالؒ کے کلام میں شیطان کی دو اقسام ملتی ہیں۔ ابلیس خاکی اورابلیس ناری۔شیطان روئے زمین پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا جس میں وہ کامیاب نہ ہوا اور حسد میں آگیا۔ محترمہ فارحہ جمشید پی ایچ ڈی سکالر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی نے علامہ اقبال کی نظم جبریل اورابلیس میں ’’ابلیس کی ماہیت اور حقیقت‘‘(نصف آخر)‘‘ کے عنوان پر کہا کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ کو کہا کہ میں آپ کے بندوں کو گمراہ کروں گا۔ ابلیس نے کتنے ہی پیغمبران خدا دیکھے لیکن پھر بھی کافر ہی رہا،محترمہ نے ابلیس کے شکوے بھی بتائے کہ مجھے جمعہ کی چھٹی بھی نہیں اور مجھ پر کوئی کتاب اور وحی بھی نازل نہیں ہوئی اور میرے ساتھ معاونین کی کوئی بہت بڑی تعداد بھی نہیں اورپھر بھی میرا لہو قصہ آدم کو رنگین کرگیا۔ محترمہ نے بتایاکہ وسوسے شیطان کی طرف سے اورالہام اللہ تعالی کی طرف سے ہوتا ہے اس کے بعد محترمہ نے ابلیس کی مجلس شوری سے متعدد اشعارسناکر اپنے موضوع’’ابلیس کی حقیقت و ماہیت‘‘کاحق اداکر دیا۔ شیطان کاکردار اقبال کے ہاں مختلف جہتیں رکھتا ہے ۔ ایک جہت تو وہ ہے جو مذہبی روایتوں میں عام ہے یعنی شر اور بدی کا استعارہ ۔ اقبال نے شیطان کو اس روپ میں اپنی مختلف نظموں میں دکھایا ہے۔ ان نظموں میں ’’ابلیس کی عرضداشت‘‘ ، ’’ابلیس کافرمان‘‘ اور ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ لائقِ ذکر ہیں، لیکن موخر الذکرنظم میں ابلیس کا کردار زیادہ توانا نظرآتا ہے۔ اس نظم میں ابلیس اپنے مشیروں سے یہ مشورہ کرتا ہے کہ وہ کس طرح اپنی طاقتِ شر کو استحکام بخش سکتا ہے ۔ شیطان کی طاقت دنیا میں دو نظام ہائے زندگی کے بل بوتے پر قائم ہے یعنی شہنشاہیت اور فاشزم۔ شیطان کو خوف ہے کہ یہ دونوں نظام ، انقلاب کی زد پر ہیں اور ان کا خاتمہ دراصل اس کی اپنی ہی موت ہے۔ شیطان اس موقع پر زیادہ خائف سوشلزم سے نہیں بلکہ اسلام سے ہے۔ اقبال کی تمام شاعری میں شیطان ایک ایسا انقلابی کردار ہے جو فطرت کے جدلیاتی نظام میں اثبات کے مقابلے میں نفی کی طاقت ہے اور یہ طاقت ہمیں ہر زماں و مکاں سے برسرپیکار نظرآتی ہے۔ لیکن یہ امر دلچسپی کا حامل ہے کہ اقبال کی شاعری میں ابلیس کا کردار پہلی بار کسی منفی حوالے کے بجائے ایک مثبت زاویے سے ابھرتا ہوا نظرآتا ہے۔ ’’جبریل و ابلیس ‘‘ وہ نظم ہے جس میں جبریل و شیطان مکالمہ کرتے ہیں۔ شیطان کے بنیادی خدوخال اور اوصاف پیام مشرق میں ان کی نظم تسخیر فطرت میں واضح ہوتے ہیں جس میں وہ شیطان کے انکار سے بات کا آغاز کرتے ہوئے عجیب نکتہ یہ نکالتے ہیں کہ شیطان کا آدم کو سجدے سے انکار فوقیت تقوٰی کی بنیاد پر نہیں بلکہ فوقیت خلق کی بنیاد پر ہے ۔وہ دلیل یہ دیتا ہے کہ آدم مٹی سے تخلیق ہوا جو کہ ایک ادنٰی شے ہے اور میں نار سے کہ جو ایک اعلٰی شے ہے لہذا اقبال کے نزدیک شیطان دنیا میں نسلی تفرقے کے تصور کا بانی ہے جو ازل سے آج تک انسان کو انسان کا دشمن بنائے ہوئے ہے۔ کائنات میں جہاں جہاں زندگی موجود ہے وہاں وہاں حرارت موجود ہے حتّٰی کہ ایٹم کے ذرات بھی حرارت کا منبع ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ آگ چونکہ جلادینے کی خاصیت بھی رکھتی ہے لہذا اس میں فساد بھی ہے اور ہر فساد تعمیر کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ اگر اشیاء فنا نہ ہوں تو نئی اشیاء وجود میں نہیں آتیں۔ اسی طرح شیطان چونکہ شر کے نمائندے کی حیثیت سے ہمارے درمیان موجود ہے لہذا اس کا وجود خیروشر میں ایک تضاد کی کیفیت پیدا کرتا ہے اور تضاد زندگی میں جوش اور ولولہ پیدا کرتا ہے۔ یہی تضاد سازِ زندگی کی صدا کو ہمیشہ بلند رکھتا ہے۔ یہاں ضروری یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے شیطان کو قابو میں رکھے اور فرمانِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اسے مومن بنا کے رکھے۔ جیسے افلاطون نے نفسِ انسانی کو ایک رتھ سے تشبیہ دی ہے کہ جسے جذبات کے گھوڑے آگے بڑھاتے ہیں جنہیں عقل قابو میں رکھتی ہے- اگر ان گھوڑوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ تباہی پھیلاتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان گھوڑوں کے بغیر رتھ جامدوساکت ہے۔ دیگر سکالر حضرات نے محترمہ کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ خطاب گویا دریاکوکوزے میں بندکرنے کے مترادف تھا۔ ابلیس انسانوں کو گمراہ کرتاہے لیکن اللہ تعالی کے نیک بندے اس کے شرسے محفوظ رہتے ہیں۔ سورۃ زمرکی آیت نمبر40 میں شیطان خودکہتاہے کہ اے بارالہ تیرے نیک بندوں پر میرا زورنہیں چلتا۔شیطان نیکی کی ضدکااستعارہ ہے کیونکہ عربی محاورے کے مطابق اشیا اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں۔ سکالرز نے محترمہ کے انداز خطابت کو بے حدسراہا اور پسندیدگی کااظہا ر کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ کے خطاب سے فکراقبال کی تفہیم کا موقع ملا ہے۔ محترمہ کی قوت استدلال،خداداد بصیرت اور اقبال بینی میں گہری دسترس پر رشک آتا ہے۔انہوں نے آدم و ابلیس کے رویوں میں فرق پر روشنی ڈالی اور محترمہ کو بہترین خطبہ پرمبارک بادپیش کی۔ اصل مسئلہ خیروشرکے وجود کا ہے۔ فرشتوں نے انسان سے پہلے زمین پرجنات کے رویوں کو دیکھاتھا اوراسی کی روشنی میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ فرشتوں میں خیر ہے اورابلیس میں شر ہے جبکہ انسان کے سامنے خیراورشر دونوں راستے کھلے ہیں پس علامہ اقبال نے اس پس منظرمیں ابلیس کاکردار بیان کیا ہے جس کا محترمہ نے بہت خوبصورت پیرائے میں اظہارکیا۔ ٭٭٭٭٭