میں آج یہ کالم لکھنا نہیں چاہتا۔ اس لیے کہ اس وقت طبیعت میں اتنی تلخی ہے کہ ایسی شفیق شخصیت پر اس کیفیت میں لکھنا زیب نہیں دیتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا سیاسی قد کاٹھ بھی اتنا بڑا تھا کہ اس حوالے سے بھی ان پر تفصیلی گفتگو ہو سکتی ہے۔ وہ خواتین میں ہماری مشرقی روایات و وضعداری کی ایسی علامت تھی کہ اب یہ نسل ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم سیاست میں مادر ملت کے عادی تھے۔ اس لیے جب ولی خاں کی پارٹی پر پابندی لگی اور نسیم ولی خاں میدان میں اتریں تو ہم جیسوں نے ان کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کیا۔ انہوں نے جس ڈریس کوڈ کو اپنایا وہ خوش کر گیا‘ وہ ہماری مشرقی روایات کا منہ بولتا ثبوت تھا سر پر چادر ‘ بات کرنے کا مہذب انداز۔ وہ لوگ جو نظریاتی طور پر لیفٹ کی سیاست یا کلچر کے دلدادہ تھے‘ ایک خاتون کے اس انداز پر بہت خوش تھے۔ میں نے یہ ذکر اس لیے کہا کہ میرا تعلق اس گروہ سے نہیں جو سرخ پوشوں کے فکری کلچر کے مداح ہوں۔تاہم انہوں نے اپنے انداز سے ایسا نام پایا کہ پی این اے کی تحریک میں ہر مکتب فکر کے لوگ ان کی تعریف کرتے تھے۔ یہ سیاسی فکر ہی کی تعریف نہ تھی‘ مشرقی انداز پر بھی مہر ثبت کرنا تھا۔ اور جب بیگم کلثوم نواز مشرف آمریت کے خلاف میدان میں اتریں‘ تو ان کے بارے میں ذرا سا بھی شک نہ تھا کہ وہ مشرقی اقدار سے روگردانی کریں گی ۔ تاہم لوگوں کو تذبذب تھا کہ وہ کوئی انقلابی پس منظر نہیں رکھتیں اس لیے کیا وہ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کر سکیں گی۔ وقت نے بتایا کہ انہوں نے ثابت کر دیا کہ حالات کے سامنے ڈٹ جانے کے لیے صرف ایک خاص طرح کا انقلابی پس منظر رکھنا ضروری نہیں ہے۔ جن لوگوں نے ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ کس جرأت اور بصیرت کے ساتھ سیاسی معرکے سر کرتی رہیں۔ ان کی اس تصویر نے تو آمریت کی چولیں ہلا دیں جس میں ان کی گاڑی کو کرین سے اٹھایا گیا تھا۔ اور وہ اس میں عزم مصمم بن کر بیٹھی تھیں۔ اس ایک تصویر نے دنیا بھر میں ایک ہیجان پیدا کر دیا۔ بیگم نسیم ولی خاں کے بعد نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو بھی سیاست میں آئیں‘ تاہم ان کے بارے میں ایسا تاثر نہیں تھا کہ وہ بالکل خاتون خانہ قسم کی خواتین ہیں۔ انہوں نے بھی وہ ڈریس کوڈ اختیار کیا جس کا میں تذکرہ کر چکا ہوں۔ تاہم خیال یہ تھا کہ ان کا ماحول ایسا ہے کہ وہ دھڑلے سے مردانہ معاشرے میں اتر سکتی ہیں۔ یقینا ان کی جرأتوں کو داد دی گئی۔ بیگم کلثوم نواز چونکہ شوہر کی سیاست میں واپسی کے بعد عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئیں اس لیے ہمارے بہت سے لوگ اندازہ نہ کر سکے کہ انہوں نے جمہوریت کی کیسی خدمت کی ہے۔ ایسی خدمت کہ ایک روایت کے مطابق بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ بھی پکار اٹھے کہ اگر یہ سیاست میں رہیں تو سب کو پیچھے چھوڑ جائیں گی۔ میں ابھی ابھی جاتی عمرہ سے لوٹا ہوں۔ وہاں جو بھی ملا اور جس جس نے ٹی وی پر بات کی ہے وہ سب اس بات تصدیق کرتے ہیں کہ وہ ایک شفیق خاتون تھیں۔ پارٹی کے کارکن بھی ان کی شفقتوں کے گرویدہ ہیں۔ جب کلثوم نواز سیاست میں تھیں تو میں عرصہ ہوا کراچی جا چکا تھا۔ اس لیے اس کا عینی شاہد نہیں ہوں‘ تاہم اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ میں نے ذرا دور سے بے ٹوک انداز میں اس کا جائزہ لیا ہے۔ اس دوران وہ کراچی آئیں تو ماجد سلطان کے ہاں ٹھہریں بھی۔ نواز شریف بھی جب کراچی آتے تو وہیں ٹھہرا کرتے۔ میاں صاحب سے ان کے قریبی تعلقات کا میں شاہد ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ وہاں ان سے ملنے بڑے شوق سے گیا۔ میں ان دنوں نوائے وقت کا کراچی میں ایڈیٹر تھا۔ مسلم لیگ کے لیے یہ بہت اہم اخبار تھا۔ میری جو ملاقاتیں بھی بھی ان سے ہوئیں وہ اسی گھر میں ہوئیں۔ اس کے بعد ایک دو سفر ان کے ساتھ کرنے کا موقع ملا۔ وہ سچ مچ مشرقی شفقت کا علمی نمونہ تھیں۔ میں نے کہا نا کہ مجھے آج یہ کالم نہیں لکھنا چاہیے کہ اس وقت طبیعت میں بڑا غصہ ہے اور ایک شفیق شخصیت پر کالم غصے میں نہیں لکھا جا سکتا۔ میں بہت سی باتیں کرنا چاہتا ہوں‘ مگر مروت دکھا رہا ہوں اپنا غصہ ضبط کر رہا ہوں۔ ایسے میں کالم کیا خاک لکھا جائے گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ بات فراموش نہیں کی جائے گی کہ بیماری کا زمانہ انہوں نے اپنے شوہر اور بیٹی کے بغیر گزارا۔ ایک دن نواز شریف نے صرف اتنا کہا تھا کہ آخر 47سال کی رفاقت ہے۔ اس بات کا مطلب سمجھنے کے لیے گہرے نفسیاتی تجزیے کی ضرورت ہے۔ ہم لوگ سیاست کرتے رہے۔ کیا کچھ نہیں کہا۔ نواز شریف کا تو بائی پاس ہی نہیں ہوا‘کلثوم نوازکو کینسر ہے ہی نہیں۔ ایک اینکر نے جو وکیل بھی ہیں اور نیم سیاستدان بھی‘ ذرا مسخرے پن کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ ایسا کہہ دیا تھا کہ قدرت کو اتنا ناپسند ہوا کہ فوراً ہی لندن کے ایک ہسپتال میں پہنچا دیا۔ یہ بات میں نے بڑے ضبط سے بیان کی ہے۔ وگرنہ ایسے شقی القلب رکھنے والوں پر بات کرنے کا انداز مختلف ہوا کرتا ہے۔ اعتزاز احسن کو تومیں نے معاف کر دیا۔ اعتزاز کا میں بڑا احترام کرتا ہوں مگر ان کی اس بات سے بہت دکھ ہوا تھا جو کلثوم نواز کی بیماری کے حوالے سے ان کے منہ سے نکلی تھی۔ لیکن انہوں نے جس کھلے دل سے معذرت کی ہے‘ اس کے بعد اسے دہراتے ہوئے بھی اچھا نہیں لگتا۔ کلثوم نواز ایسی شفیق شخصیت تھیں کہ مجھے اندازہ ہے۔ وہ بھی معاف کر دیتیں۔ اسی لیے تو کہہ رہاہوں کہ کالم نہیں لکھا جا رہا۔ یہ دراصل اس معاشرے کا ماتم ہوتا جو اپنے بڑے لوگوں کی قدر نہیں کرتا۔ کوئی سچ مچ ان کی سوانح لکھنا چاہے‘ تو اسے انسانی کردار کی تہہ داریوں کا سراغ ملے گا۔ کسی طرح انہوں نے میاں شریف کے خاندان کو زندہ رکھا۔ ہمارے معاشرے میں ہر دانا عورت یہ کردار ادا کرتی ہے۔ یہ مشرقی روایات کا حصہ ہے۔ جب اس کردار میں سیاست بھی شامل ہو جائے تو یہ کردار اور مشکل ہو جاتا ہے۔ بنیادی اکائی گھر ہوتا ہے ۔ سیاست بھی اس کے گرد گھومتی حقیقت کا نام ہے۔ اس سے کوئی سرحدیں وطن کی سرحدوں سے جا ملتی ہیں۔ وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں۔ یہ میرے جسم میری روح سے عبارت ہے۔ کلثوم نواز جیسی شخصیت ایسی ہی روح کو چھیڑتی ہیں۔ آج آپ ہر ایک کو چاہے وہ سیاسی مخالف ہی کیوں نہ ہو‘ مرحومہ کی تعریف کرتے دیکھیں گے۔ سوائے ایک آدھ بدبخت کے کسی کو کوئی منفی بات کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ مثبت شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے پیاروں ہی سے نہیںمخالفوں سے بھی اپنے حصے کی محبت وصول کرتی ہیں اور جو ہر قسم کی سیاست سے ماورا ہو جاتی ہیں وہ کسی کو پرکھنے کی کسوٹی بن جاتی ہے۔ کون ہے جو اس کسوٹی پر پرکھے جانے سے کھوٹا نکلتا ہے اور کون سچا ثابت ہوتا ہے۔ اس ایک کسوٹی کو یاد رکھئے‘ آپ کو بہت سی باتوں کی پرکھ ہو جائے گی۔ دیکھئے‘ اس وقت جو لوگ احسان کر رہے ہیں کہ وہ انسانی ہمدردی کی وجہ سے قیدیوں ‘ کو پیرول پر رہا کر رہے ہیں‘ وہ حماقت کی بات کر رہے ہیں ۔یہ آپ انسانی ہمدردی نہیں دکھا رہے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔یہ وقت دور نہیں جب مورخ بتائے گا کہ یہ قیدی ضمیر کے قیدی تھے۔ آپ کی یہ بساط کہ ایسی بات کریں۔ خدا سے ڈریں۔ ویسے کلثوم نواز تین بار خاتون اول رہیں۔ نواز شریف کو تو آپ نے نااہل کر دیا۔ مگر خاتون اول تو نااہل نہیں ہوئیں۔ وہ اسی پروٹوکول کا تقاضا کرتی ہے جو ایک تین بار کی خاتون اول کو ملنا چاہیے۔ ابھی تک کوئی اور اس مقام تک نہیں پہنچا۔ خدا ہی جانے کہ مستقبل قریب میں کوئی اور یہ اعزاز حاصل کر سکے گا۔ ایک اچھی بات ہے کہ عمومی طور پر اس حوالے سے احتیاط سے کام لیا جا رہا ہے۔ سیاست کو آپ سیاست کے میدان میں دیکھئے۔ اس فقرے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا کہ آپ سب حدود پھلانگ جائیں۔سنا ہے سوشل میڈیا پر کچھ چھچھورے ایسا کر رہے ہیں ‘تاہم اچھی بات یہ ہے کہ ہمارا سیاسی اور سماجی مزاج عمومی طور پر اس حوالے سے احتیاط ہی کر رہا ہے۔ اس وقت میں ایک اور جنازے سے لوٹا ہوں میں اس کا تذکرہ یہاں نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے کہ وہ کالم بھی اس وقت لکھنے کا نہیں۔ جب سرخپاکستان ہم سے جدا ہو رہا تھا تو خرم چاہ مراد ڈھاکہ شہر کا امیر تھا۔ پھر وہ مغربی پاکستان آ گئے جہاں وہ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر تھے۔ کیا شخصیت تھے۔ ان کے صاحبزادہ حسن صہیب مراد بھی علمی دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے۔ کراچی میں یو ایم ٹی(یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی) جیسا ادارہ ان کے کارناموں میںسے ایک ہے۔ میں نے عرض کیا ان پر بھی اس وقت کالم نہیں لکھنا چاہتا۔ سو آج جو کچھ لکھا ہے وہ سب وہ ہے جو اس وقت نہیں لکھا جا سکتا۔ صرف اس لیے نہیں کہ میں غصے میں ہوں‘ بلکہ اس لیے بھی کہ میں ذرا جذباتی ہو گیا ہوں۔ یہ وہ کالم ہے جو لکھا نہ جا سکا۔ اتنا کہنا ہے کافی ہے!