بیگم کلثوم نواز کی وفات پر پاکستانی عوام نے افسوس کا اظہار کرنے میں بخل اور سیاسی تعصب کا اظہار نہیں کیا۔ بڑی وجہ یہ تھی کہ سیاست میں ہر شخص متنازع ہو جاتا ہے لیکن بیگم کلثوم نواز نے خود کو ایسے سیاسی علاقے میں داخل نہیں ہونے دیا جہاں ان کے متعلق منفی سوچ پیدا ہوتی۔ انہیں دو بار بات کرنے کا موقع ملا۔ پہلی بار جب لاہور میں ان کی گاڑی کو کرین سے کھینچا گیا اور انہوں نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے جدوجہد کا اعلان کیا۔ دوسری بار کسی نے ان سے پوچھا آپ کی حکومت آئی تو صدر کسے بنانا چاہیں گی۔ ان دنوں امریکہ ڈاکٹر عبدالقدیر کے حوالے سے پاکستان پر دبائو ڈال رہا تھا اور ٹی وی پر جنرل مشرف اور ڈاکٹر صاحب کی ملاقات کا واقعہ تازہ تھا۔ بیگم کلثوم نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو آئندہ صدارتی انتخابات میں اپنی جماعت کا امیدوار بنانے کا اعلان کیا۔ اس بیان کے بعد مرتے دم تک انہیں میڈیا سے بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ان کے خاندان نے ان سے ٹوٹ کر محبت کی مگر ان کی سیاسی فکر کو ریشم و اطلس کے ہزاروں پردوں میں چھپا دیا۔ عام آدمی بیگم کلثوم کو اس لیے مظلوم نہیں سمجھتا کہ وہ قیدی نواز شریف کی بیوی اور مریم نواز کی ماں تھیں بلکہ اس کا خیال ہے کہ کلثوم نواز کے سیاسی ٹیلنٹ کو دبا کر پاکستان کے عوام کو ایک متبادل سیاستدان سے محروم رکھا گیا۔ سیاست مواقع کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی تربیت دیتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے انتہائی قریبی رفیق بتاتے ہیں کہ جن دنوں پاکستان میں پرویز مشرف حکومت نے سیاستدانوں پر سختیاں کر رکھی تھیں اور بے نظیر بھٹو دوبئی میں مقیم تھیں تو پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر کی کتاب ’’ہائو ٹو بی اے لیڈر‘‘ شائع ہوئی۔ جہانگیر بدر چاہتے تھے کہ اس کتاب کی تقریب رونمائی میں بے نظیر بھٹو بطور مہمان خصوصی شریک ہوں۔ جس روز تقریب ہونا تھی اسی روز ایک خاتون راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک پارٹی رہنما کی منت سماجت کر کے بی بی سے ملنے دوبئی آئیں۔ بے نظیر بھٹو تقریب کے لیے روانہ ہونے لگیں تو یہ خاتون بھی ساتھ ہو لیں۔ تقریب میں پہنچیں تو اس خاتون نے تاثر دینا شروع کیا کہ وہ بے نظیر بھٹو کی انتہائی قریبی اور بے تکلف ساتھی ہیں۔ کچھ قدو قامت اور شکل و صورت بھی اچھی تھی۔ کیمروں نے انہیں نمایاں کر دیا۔ سٹیج پر مصنف جہانگیر بدر کی کرسی مہمان خصوصی بے نظیر بھٹو کے دائیں طرف رکھی گئی۔ بائیں طرف دیگر مہمانوں کی نشست تھی یہ خاتون سامنے حاضرین میں بیٹھنے کی بجائے جہانگیر بدر والی نشست پر جا بیٹھیں۔ آداب محفل اور انکی بی بی سے تعلق کی گہرائی سے ناواقفیت نے انتظامیہ کو مخمصے کا شکار کر دیا۔ جہانگیر بدر کیلئے اضافی کرسی منگوائی گئی۔ موقع ہاتھ آئے تو اکثر لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔یہ اس خاتون کی بے نظیر بھٹو سے پہلی ملاقات تھی۔ بعدازاں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن تعینات کی گئیں۔ میاں نواز شریف سے بہتر کون جانتا ہے کہ موقع کو کس طرح اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جائے۔ 2006ء میں میثاق جمہوریت ہوا۔ پھر این آر او کیا گیا۔ نواز شریف نے میثاق جمہوریت کا حصہ بننے کا ہمیشہ کریڈٹ لیا لیکن این آر او کا ملبہ بے نظیر بھٹو پر ڈالا۔ حالانکہ سچ یہی ہے کہ این آر او نہ ہوتا تو نواز شریف کا دوبارہ پاکستان آنا اور ایک بار پھر سے سیاسی کردار ادا کرنا ممکن نہ ہوتا۔ چودھری شجاعت موجود ہیں۔ ان کی کتاب میں ایسے کئی واقعات کا ذکر ہے جن میں میاں نواز شریف کی اس صلاحیت کو بیان کیا گیا ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی وفات کے موقع پر ہزاروں پارٹی کارکن تعزیت اور نماز جنازہ میں شرکت کے لیے جاتی عمرہ آئے۔ جاتی عمرہ لاہور میں ہے۔ وہ لاہور جہاں سے حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی 14نشستوں میں سے 10پر ن لیگ کامیاب ہوئی ہے۔ نواز شریف سے ملاقات کے لیے اراکین اسمبلی کو اجازت نہیں ملی۔ حتیٰ کہ ان کے انتہائی قریبی ساتھی خواجہ آصف کو جنازہ کے موقع پر رہائشی حصے میں داخل ہونے سے روک دیا گیا‘ رسم قل کے موقع پر بھی خواجہ آصف کو روک دیا گیا تاہم فون پر شکائت کے بعد انہیں اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ میاں نواز شریف سے سعودی عرب‘ چین‘ ترکی اور قطر کے سفیروں و نمائندوں نے تعزیتی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کے بعد سوشل میڈیا پر ایک مہم دکھائی دی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ پیرول کی مہلت ختم ہونے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز واپس اڈیالہ نہیں جائیں گے بلکہ انہیں لندن بھیج دیا جائے گا۔ اس مہم میں ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا گیا کہ سعودی عرب نے اس ڈیل کے عوض پاکستان کو 10ارب ڈالر دینے کی پیشکش کی ہے جسے حکومت نے مان لیا ہے۔ یہ گمراہ کن مہم کہاں سے چلی‘ کیا یہ کسی کا خواب ہے‘ کسی کی خواہش ہے؟ جسے سوشل میڈیا پر پھینک دیا گیا ہے۔ دراصل اب امکانات کی تلاش میں سوشل میڈیا سے مدد لی جاتی ہے۔ ہمارے ایک دوست فیک اکائونٹس سے اپنی تحریری اور علمی خوبیاں سوشل میڈیا پر ڈالتے رہتے ہیں۔ حیرت ہے کہ کچھ لوگ واقعی انہیں اہم تجزیہ کار اور ادیب تصور کر کے ان کی شاگردی کے آرزو مند نظر آتے ہیں۔ وہ میڈیا سیل جس کے کارکن پی ٹی وی اور دیگر اداروں سے تنخواہ لے کر مسلم لیگ ن کے لیے خدمات انجام دیتے تھے‘ وہ پی آر او ٹائپ کی چیزیں جو اداروں کا خون چوس رہی تھیں اور وہ اخباری ٹکڑے فائلوں میں لگانے والے جو محکموں کے سربراہ لگا دیئے گئے تھے وہ اب بھی کام کر رہے ہیں۔ انہیں شائد یہی پیغام ملا تھا کہ بیگم کلثوم نواز کی وفات پر نواز شریف کے لیے دلوں میں نرمی کا جو موقع بنا ہے اسے سیاسی فائدے میں بدلنے کی تحریک شروع کی جائے۔سردست ہمیں ان کیسز پر توجہ رکھنا ہو گی جو نواز خاندان کے خلاف زیر سماعت ہیں۔ دوسرا یہ کہ نئے این آر او کی گنجائش نہیں۔ ایسا ہوتا ہے تو سول ملٹری تعلقات میں بڑی دراڑ آ جائے گی۔ سیاسی و عسکری قیادت اس امر پر متفق ہے کہ اب معاملات مل کر چلانے ہیں ورنہ نہ ڈیم بنیں گے نہ امریکہ اور بھارت کے دبائو کا مقابلہ ہو سکے گا۔ اپنی تازہ نظم پیش کرتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ تین کونے سفر کی صعوبتوں سے سبھی ادوار میں بھاری رہے ہیں بہادر مائیں! اپنے شاہسواروں کو یہ کہتی تھیں میرے بیٹے تو چوتھے کوٹ نہ جانا وہاں!آسیب رہتا ہے کئی دیو زاد رہتے ہیں حسینوں کی شکل میں ڈائنیں ہیں جنوں کی سلطنت ہے وہاں کے سامری طوطا بنا دیں گے نصیحت ماں کی میں نے مان لی تھی مگر میں کیا کروں کہ! شہر کے پانچ کونے بن گئے ہیں