ہمارے ایک دوست نصیر محمود نقوی عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ پچھلے دِنوں پاکستان تشریف لائے تو ہمیں امریکی طرزِ حیات کے بارے میں بہت کچھ بتا گئے ۔ ایک واقعہ انہی کی زبانی آپ بھی سُنیے۔ "ایک روز مُجھے ایک دعوتی کارڈ موصول ہوا جس کا اُردو ترجمہ کچھ یوں ہے: " مکرمی جناب نقوی صاحب! تسلیمات ! ازدواجی زندگی کے پانچ طویل سال گزارنے کے بعد اب ہم میاں بیوی نے خوش اسلوبی اور اتفاق رائے سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ طلاق کی تقریب رائل پیلس ہوٹل میں بتاریخ 5 جون 2017 ء شام چھے بجے منعقد ہوگی۔ آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ اس مبارک موقع پر بیوی بچّوں کے ہمراہ تشریف لا کر تقریب کی رونق کو دوبالا کریں۔ (مسٹر اینڈ مسز رچرڈینگ) یوں تو میں اب تک امریکی زندگی کے متعدد حیران کُن پہلو دیکھ چکا تھا لیکن یہ بات بالکل نئی تھی ۔ بہر حال میں وقت ِ مقرّرہ پر رائل پیلس ہوٹل میں پہنچ گیا۔ میں ہال میں داخل ہُوا تو ایک معمرّ لیکن سمارٹ شخص نے گرم جوشی سے میرا اسقبال کیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ صاحب رچرڈ ینگ کے والد تھے۔ ہال میں نہایت خوبصورت اور قیمتی کُرسیاں رکھی تھیں۔ ایک خالی کُرسی پر میں بیٹھ گیا۔ سامنے سٹیج پر تین خالی کُرسیاں پڑی تھیں، کرسیوں کے پیچھے پانچ چھ لڑکے لڑکیوں پر مشتمل آرکسٹرا نہایت اُداس دُھنیں فضا میں بکھیر رہا تھا۔ سٹیج کے پاس ایک بڑی سی میز پر دو بڑے بڑے کیک رکھے تھے۔ اچانک سب مہمان اُٹھ کر تالیاں بجانے لگے۔ میں نے بھی ان کی تقلید کی ۔ مسٹر اینڈ مسز رچرڈ ینگ ایک پادری کے ہمراہ ہال میں داخل ہو کر سٹیج کی جانب بڑھ رہے تھے۔ دونوں میاں بیوی سیاہ رنگ کا لباس پہنے ہوئے تھے ، پادری کا چُغہ بھی سیاہ تھا۔ سٹیج پر پہنچ کر پادری درمیان والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ دونوں میاں بیوی اس کے دائیں بائیں براجمان ہوگئے۔ اِتنے میں اگلی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ایک صاحب اُٹھ کر سٹیج پر تشریف لائے اور مہمانوں سے مخاطب ہوئے۔ " معزز خواتین و حضرات ! ہم آپ کی تشریف آوری کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اب طلاق کا پروگرام شروع ہُوا چاہتا ہے۔ سب سے پہلے آپ ایک فِلم ملاحظہ فرمائیے جو مسٹر اینڈ مسز رچرڈ ینگ کی شادی پر آج سے پانچ سال پہلے لی گئی تھی۔ " یہ سُن کر حاضرین نے پُرجوش تالیاں بجائیں۔ سٹیج پر رکھے ہوئے ٹی وی کی سکرین پر شادی کی رنگین فلم چلنے لگی جسے حاضرین نے بڑے انہماک اور دِل چسپی سے دیکھا۔ ٹی وی کے بند ہونے پر سٹیج سیکرٹری پھر اُٹھے اُن کے ہاتھ میں ایک فائل کور تھا۔ انہوں نے فائل کھول کر اندر سے ایک کاغذ نِکالا اور کہنے لگے۔ " حاضرین! یہ کاغذ دراصل مسٹر اینڈ مسز رچرڈ ینگ کا نِکاح نامہ ہے جسے میں آپ کی اجازت سے پھاڑنا چاہتا ہوں۔ کہیے اجازت ہے؟" حاضرین نے اثبات میں سر ہلایا تو اِس نے نکاح نامے کو پُرزہ پُرزہ کر کے ہوا میں اُچھال دیا۔ مہمانوں نے تالیاں بجائیں۔ اس کے بعد سٹیج سیکرٹری کی وعوت پر دونوں میاں بیوی باری باری سٹیج پر آئے انہوں نے تفصیل سے وہ وجوہات بیان کیں جن کے سبب انہوں نے رشتہٰ ازدواج کو توڑنا مناسب سمجھا ۔ دونوں نے کہا کہ آج سے ہم اچھے دوستوں کی طرح رہیں گے اور گاہے گاہے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہیں گے۔آخر میں میاں بیوی نے کیک کاٹے۔ مہمانوں نے چند ہی منٹ میں مبارک ۔ سلامت کہتے ہوئے کیکوں کا صفایا کر ڈالا اور یوں یہ تقریب اختتام تک پہنچی۔ قارئین کرام ! حال ہی میں میرے ایک دوست پندرہ سال انگلینڈ میں رہ کر بیوی بچوں سمیت پاکستان واپس تشریف لے آئے ہیں۔ میں نے ان سے کہا۔ " کہیے پاکستان میں آنا کیسا رہا؟" " اس کے جواب میں انہوں نے جو واقعہ سُنایا وہ اپنے اندر عبرت کے ہزار نہیں تو کم از کم چالیس پچاس پہلو ضرور رکھتا ہے۔ یہ واقعہ آپ بھی میرے دوست کی زبانی سُنیے۔ کہنے لگے : " ایک روز میں اپنے دوست عبیداللہ کو ملنے گیا۔ مجھے دیکھ کر وہ بولا، " آئو تم بھی آئو اور میرے گھر میں ہونے والا تماشا دیکھو۔" میں نے اس کے لہجے سے اندازہ لگایا کہ سخت پریشان ہے۔ "بھابی غریب سے پھر لڑائی ہو گئی ہے کیا؟" میں نے کہا۔ " بھابی غریب سے کیا لڑائی ہوتی۔ بیٹی جو تگنی کا ناچ نچا رہی ہے۔ سو بھابیاں مل کر بھی اس کا توڑ پیش نہیں کر سکتیں۔" " یہ سن کر میں گبھرا گیا۔ سویٹی تو بہت اچھی بچی ہے۔ خوامخواہ بچوں کے پیچھے مت پڑا کرو۔" " یہ کہتے ہوئے میں اُس کے پیچھے ڈرائنگ روم میں داخل ہُوا ۔ ایک صوفے پر سویٹی اور ایک سردار جی بیٹھے تھے۔ دوسرے پر ایک پولیس افسر تھا۔ میں اور عبیداللہ ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔ " لو تُم ہی کر لو اگر کُچھ کر سکتے ہو۔ میرا تو دماغ پھٹ رہا ہے۔ " عبیداللہ نے کہا۔ " بیٹی! تم سردار جی کے پاس سے اُٹھو اور اِدھر بیٹھو یہاں ۔" میں نے ایک خالی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ " نہیں انکل۔ آئی ایم آل رائٹ ہیئر۔" "ہُو اِز دِس مَین؟" میں نے سردار جی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سویٹی سے پوچھا۔ " ہی اِز مائی بوائے فرینڈ ، انکل ۔" سویٹی نے جواب دیا۔ " تم اسے بوائے فرینڈ کہتی ہو۔ یہ سکھڑا تو میری عمر کا ہے۔" میں نے کہا۔ " سو وَٹ انکل ! آئی لَو ہِم ۔" سویٹی بولی۔ " اِٹ ڈز ناٹ میٹر" "دیکھو مہاراج!" سردار جی بولے۔ " میں اَیتھے اپنی بے عجتّی کران نہیں آیا۔دھیان نال گل کرو۔" یہ سن کر میرا جی چاہا کہ سردار جی کی کھوپڑی توڑ ڈالوں لیکن ساتھ ہی پولیس والا بیٹھا تھا۔ میں نے اُس سے پوچھا۔ " وَٹ اِز دی مَیٹر، آفیسر؟" اس کے جواب میں آفیسر نے انگریزی میں کہا : " یہ لڑکی سردار بلدیو سنگھ سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ سردار جی کی عمر اگرچہ چالیس سال ہے لیکن یہ لڑکی صِرف پندرہ سال کی ہے۔ قانون کی نظر میں یہ لڑکی بالغ نہیں ہوئی۔ اِس لئے فی الحال اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی۔ اسے دو ڈھائی سال مزید کورٹ شِپ میں گزارنا پڑیں گے۔" " میں بالغ ہوں۔" سویٹی نے احتجاجاً کہا۔ " میں آپ کو کیسے بتائوں کہ میں بالغ ہوں۔ " " قانون کی نظر میں آپ بالغ نہیں۔" آفیسر نے کہا۔ " بیٹی! کُچھ خدا کا خوف کرو۔" عبیداللہ روہانسی آواز میں بولا۔ " تمہیں خدا کا واسطہ ، تم مسلمان یہ سِکھ اور عمر میں اتنا بڑا۔ مُجھ پر رحم کرو بیٹی! میں مر جائوں گا۔ تمہاری ماں اندر بے ہوش پڑی ہے۔ عقل سے کام لو بیٹی!" ـ "دِس اِز آل نان سنس" سویٹی نے کہا اور مُنہ سِکھ کی طرف موڑ لیا۔ " یہ صورتِ حال دیکھ کر مجھ سے مزید برداشت نہ ہوسکا۔ خطرہ تھا کہ مجھ سے کوئی غیر قانونی حرکت نہ ہو جائے۔ میں نے عبیداللہ کوخُدا حافظ کہا اور چلا آیا۔ گھر پہنچ کر جب میری نظر اپنی نوخیز بچّیوں پر پڑی تو میں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا۔"