گزشتہ دنوں ایک کالم لکھا تھا کہ این جی او کی سواری آ رہی ہے۔ آغاز اس فقرے سے کیا تھا کہ فیض احمد فیض ایک این جی او کا نام ہے۔ وجہ اس کی عاصمہ جہانگیر پر ایک تین روزہ عالمی کانفرنس بنی تھی جس میں دنیا بھر سے لوگوں کے پَرّے کے پَرّے شریک ہوئے تھے۔ اس کا تازہ ترین مظاہرہ طلبہ یونین کی بحالی کے نام پر ایک کلچر کی ریلی ہے۔ اس ریلی کی ریہرسیل درمیان میں ایک فیض میلے میں نمودار ہوئی تھی۔ یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں جن پر ایک لمبے عرصے سے گذارش کرتا آ رہا ہوں۔ درمیان میں انقلاب کا تڑکا ہے۔ جب لال لال لہرائے گا، تب ہوش ٹھکانے آئے گا۔ دو چار نامور انقلابیوں کی رونمائی تھی۔ لگتا تھا نئی آرزوئیں انگڑائیاں لے رہی ہیں اور ایک بار پھر ایشیا سرخ ہو رہا ہے۔ ہماری تو زندگی یہ نعرے بنتے اداروں کا جواب دیتے گزری ہے۔ تا ہم پتا ان کو چل جائے گا جو نئے نئے اس میدان میں اتر رہے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ کوئی سرخ سویرا طلوع ہو رہا ہے اور میں اندر سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ہوں۔ سرخ انقلاب والوں میں تو پھر بھی بھلے لوگ تھے۔ وہ دنیا ہی کے نقشے پر نہیں، برصغیر کے افق پر بھی ایک نئے عہد کا طلوع تھا۔ ترقی پسندی کی تحریک اس کے بطن سے پھوٹی تھی۔ اس کے جواب میں ادب میں ایک بہت بڑی معرکہ آرائی ہوئی تھی۔ اس تحریک کے دوسرے مرحلے پر میرے جیسوں نے اپنی نوجوانی کا عروج گزارا تھا۔ میں کہا کرتا تھا، بیس سال تک ہماری نسل یہ لڑائی لڑے گی، پھر اگلی نسل آ جائے گی اور وہ نمٹ لے گی۔ نویں کے عشرے کے شروع ہونے سے پہلے بھی جب دنیا بھر کا انقلابی ملبہ دیوار برلن کے نیچے دب گیا اور روس کا انجر پنجر ڈھیلا ہو گیا تو ہم یہ سمجھے لو ہمارا کام پورا ہوا۔ ہمارے انقلابی بھی این جی او کو پیارے ہو گئے اور انہیں امریکہ کے سایۂ عاطفت میں جگہ مل گئی۔ بڑا عبرت ناک منظر تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے، یہ طلبہ یونین کی بحالی کا ایجنڈہ کسی لیفٹ کا ایجنڈہ ہے جو ہمیشہ تعلیمی اداروں میں پٹتی رہی ہے۔ کیا اس طبقے کو جو طبلے کی تھاپ پر رقص کر رہا ہے، کسی منظور پشین سے ہمدردی ہو سکتی ہے۔ یہ اس پورے عمل کا تاریخی تسلسل ہے جو لیفٹ کے مغرب میں گم ہو جانے کے بعد نمودار ہونا لازمی تھا۔ ایک زمانہ تھا جب امریکیوں نے ایک نعرہ لگایا کہ کلچر کو فروغ دیا جائے۔ اس پر کلچر کے عالمی ادارے یونیسکو والے بھی سرگرم عمل ہو گئے۔ اس پر ہمارے دانشور نے بھی کہا خوب جواب دیا کہ یہ کلچر کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ ہم اعلان کریں کہ آئو کلچر پیدا کرو اور کلچر پیدا ہونے لگے۔ تو اب جو کچھ ہو رہا ہے یہ کلچر پیدا کرنے کی ایک نئی کوشش ہے۔ فیض کے میلے، عاصمہ جہانگیر کے کنونشن، طلبہ کی ریلیاں میں ان سب کو ایک ہی صف میں رکھ رہا ہوں تو اس کی یہی وجہ ہے۔ یہ ملک میں کلچر کا فروغ ہے۔ اس اشرافیہ کلچر کی باربار وضاحت کر چکا ہوں۔ یہ اس بورژوا کا کلچر ہے جسے بالزاک نے قابل گردن زدنی قرار دیا تھا۔ ہم اسے اشرافیہ کا کلچر کہتے آئے ہیں جسے سکھانے والے لکھنؤ کے مشہور تہذیبی مرکز تھے۔ اب ان کے ٹھکانے بدل چکے ہیں، مگر انداز وہی ہیں۔ برصغیر میں انقلاب کی کہانی پہلے ہی رومانس میں نہیں ہوتی رہی ہے۔ یہاں کا انقلاب، انقلابی کم اور رومانوی زیادہ تھا۔ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔ اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں۔ اگر یہاں کی انقلابی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو وہ جادو کے نام صفیہ کے خطوط سے چل کر شبانہ اعظمی تک پہنچتی ہے اور بالی وڈ میں کہیں کھو جاتی ہے۔ یہ جب موجودہ شکل میں طلوع ہو گی تو اس کا مزاج اور اس کا کلچر کسی فیض میلے جیسا ہی ہو گا۔ امریکیوں نے بہت خوبصورتی سے اسے ایک کلچر میں ڈال دیا ہے۔ وہ کلچر جو کسی صورت پرولتاری نہیں،بورژدائی ہے۔ میں بھی طلبہ یونینوں کی جدوجہد کا پالا ہوا ہوں اور ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ اسے بحال ہونا چاہئے تا ہم اتنا جانتا ہوں کہ ان کا احیا اگر پبلک یونیورسٹیوں یا سرکاری تعلیمی اداروں سے نہیں ہو گاتو کیا نجی یونیورسٹیاں اور پرائیویٹ کمرشل ادارے اس کے متحمل ہو سکیں گے۔ اس وقت سرکاری یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین نہ سہی، طلبہ تنظیمیں تو کام کر ہی رہی ہیں مگر نجی کمرشل اداروں میں اس کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ یہ طلبہ کے حقوق کی جدوجہد ہے۔ اس جدوجہد کا آنکھ جھپکتے ہی اٹھ آنا ایک قابل غور بات ہے۔ ایک زمانے میں جس طرح پروگریسو کا لفظ استعمال ہونا تھا۔ اب کافی عرصے سے لبرل اور سیکولر نے اس کی جگہ لے لی تھی۔ اس کے ساتھ ڈیموکریٹک کا لفظ لگا دیا جاتا تھا۔ غور کیا جائے تو اس کلچر میں فروغ پانے والے انقلابی ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ ایک نیا کلچر ہے جو غیر انقلابی اور غیر سیاسی ہے۔ یہ سول سوسائٹی ہے۔ امریکی سامراج نے جس طرح ٹریڈ یونین کی آڑ میں کمیونسٹ انقلاب کا راستہ روکنے کی جدوجہد کی ہے۔ اس طرح اب وہ ان انقلابیوں کی مدد سے جو ان کے گوشۂ عاطفیت میں پناہ ڈھونڈے بیٹھے تھے ایک ایسے کلچر کو فروغ دینا شروع کیا ہے جو بظاہر انقلابی دکھائی دے، مگر سرا سر غیر انقلابی اور غیر سیاسی ہو۔ اسے ہی سول سوسائٹی کہتے ہیں، یہی این جی او ہے۔ جس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ اب انقلاب نہ مذہب لائے گا نہ تنظیم فلسفہ، بلکہ یہ انقلاب چھوٹے چھوٹے مختلف کام کرنے سے آئے گا۔ اب لڑائی فیوڈل ازم یا جاگیرداری کے خلاف نہیں، چائلڈ لیبر، تعلیم، ہیلتھ اس طرح کے دوسرے معاملات کے لیے ہے۔ یہ مسائل حل ہو جائیں گے تو معاشرہ خود بدل جائے گا۔ پوسٹ ماڈرن ازم کا یہی فلسفہ ہے حالانکہ معاشرہ یوں نہیں بدلا کرتا۔ جب تک انجام نہیں بدلتا، یہ چھوٹے چھوٹے مسائل بھی طے نہیں ہوتے، تا ہم اس تبدیلی کو خوبصورت بنانے کے لیے سب کچھ کیا جائے گا جو دل نشیں ہو۔ یہ ایک ایکٹویٹی ہے جس کا انقلاب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس حوالے سے جو کچھ ہوگا اس کا مرکزی نقطہ یہی اسلوب حیات اور یہی کلچر ہو گا۔ یہ اگر انقلاب ہے تو انقلاب کا جھانسہ ہے۔ یہ اگر تبدیلی ہے کہ تبدیلی کا دھوکہ ہے۔ یہ اگر کوئی مقصد ہے تو مقصد کا سراب ہے۔ ہمارے پرانے انقلابیوں نے تین نسلوں کو انقلاب رومانس میں مبتلا کیے رکھا۔ اب یہ دوسرے پردوں میں آ رہے ہیں، مقصد اپنے لیے جائے پناہ ڈھونڈنا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب اس معاملے کو سمجھنے والے لوگ موجود ہیں۔ ایک نسل تیار ہے، آج برادر عزیز عامر خاکوانی کا کالم پڑھ کر تسلی ہوئی کہ اب اگر کوئی نظریاتی معرکہ ہوا تو اسے اس کے اصل پس منظر میں سمجھا جائے گا۔ رہے ارشاد احمد عارف تو وہ تو اس جدوجہد سے گزر چکے ہیں جس سے ہم گزرے تھے، آئیے، بسم اللہ کیجیے، ہم بھی حاضر ہیں، دھوکہ دہی نہیں چلنے دیں گے۔