جنگوں سے نفرت اور امن سے محبت انسان کے ضمیر میں شامل ہے کیونکہ جنگ کا مطلب ہے‘ خوف‘ بے یقینی‘ معذوری‘ بیماری‘ تباہی‘ بربادی‘ جدائی اور بکھرائو جبکہ امن سے مراد ہے امید‘ یقین‘ تحفظ‘ زندگی‘ خوشی‘ ملاپ اور سلجھائو۔کچھ جنگیں علی الاعلان ہوتی ہیں۔ ہم انہیں کھلی جنگیں کہہ سکتے ہیں جن کے خطرات ہم محسوس کرسکتے ہیں۔ ان کھلی جنگوں کی دھمکیاں‘ جارحیت‘ جنگی ہیجان برپا کرنے کے اقدامات‘ ٹکرائو کا ماحول پیدا کرنے کی مذموم کوششیں‘ سب کچھ سامنے منظر پر دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ جنگ کے خطرے کا انداز لگا کر حفاظتی اقدامات کئے جا سکیں۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ کھلی جنگوں میں بھی دشمن کے خلاف بہت کچھ پس منظر میں ہورہا ہوتا ہے۔ جنگیں اب صرف سرحد پر بھی جیتی اور ہاری نہیں جاتیں۔ جنگ لڑنے کے بہت سے محاذ ہیں لیکن کالم کا موضوع یہ نہیں ہے۔ یہ بات تمہید کے طور پر لکھنی پڑی۔ میرے کالم کا موضوع تو وہ جنگیں ہیں جو کارپوریٹ دنیا کے پروردہ‘ دولت کے پجاریوں نے انسان اور انسانیت کے خلاف آغاز کررکھی ہیں۔اگر جنگ سے مراد بے یقین‘ خوف‘ بیماری‘ موت‘ معذوری‘ الجھائو اور بکھرائو ہے تو پھر ہم اسے بھی جنگ ہی تو کہیں گے۔ زمانہ امن میں بھی انسان خوف‘ عدم تحفظ اور بے یقینی کا شکار ہو جائے‘ اس کے لیے یہ بھی ایک جنگ ہی کی صورت حال ہے۔ انسانیت کے خلاف ان جنگوں کی کئی قسمیں ہیں۔ یہ موضوع طویل ہے۔ تحقیق کا متقاضی ہے۔ اس کالم میں صرف ایک حوالے پر بھی بات ہوگی۔ یاد رہے کہ یہ ڈھکی چھپی جنگیں جو انسان کو عدم تحفظ‘ خوف اور بے یقینی سے دوچار کرتی ہیں ان کو Figour out کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ بڑی محنت اور باقاعدہ پلاننگ کے تحت ایک ماحول ایسا پیدا کردیا۔ لوگ زہر کو امرت سمجھ کر پی رہے ہیں۔ پچھلے دنوں جناب اوریا مقبول نے ایک کالم پولیو ویکسینیشن کے حوالے سے لکھا کہ کس طرح اس پر ایک سائنسدان نے ریسرچ کی کہ یہ پولیو ویکسینیشن کئی قسم کی بیماریوں کی وجہ بن رہی ہے۔ صرف پولیو کے وائرس کو ختم کرنے کے لیے جو ویکسینیشن دی جاتی ہے وہ بچوں میں مدافعتی نظام کو کمزور کرکے دوائیاں بیچنے والے مافیا کے مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔اس کالم پر آنے والا ردعمل ملا جلا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ اوریا صاحب 21 ویں صدی میں کس قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ یہ سوال ضرور ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے تو پھر اس کا صحیح جواب ڈھونڈنے کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے۔ ریسرچ اور تحقیق اور یہ دونوں مثل پتھر ہم پاکستانی اٹھانے سے قاصر ہیں۔ یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں والی صورت حال ہے۔جو شے مغرب سے درآمد ہوتی ہے ہم بخوشی اس کو اپنا لیتے ہیں۔ چند سال پیشتر اینٹی بائیوٹک دوائیں مارکیٹ میں آئیں۔ اس کے بعد ہمارے ڈاکٹر ہر چھوٹی بڑی بیماری کا علاج کرتے وقت نسخے میں اینٹی بائیوٹک ضرور لکھ کردیتے ہیں۔ یہ پریکٹس یہاں اس قدر عام ہو چکی ہے کہ بچوں اور بڑوں کو ہونے والا موسمی نزلہ‘ زکام کا علاج ہی اب اینٹی بائیوٹک کے بغیر نہیں کیا جاتا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلسل ان اینٹی بائیوٹک دوائوں کا استعمال کر کے جسم کا مدفاعتی نظام کمزور ہو رہا ہے اور یہ اینٹی بائیوٹک دوائیں جسم پر اثر نہیں کر رہیں جبکہ یہی اینٹی بائیوٹک دوائیں مغربی ملکوں میں انتہائی ضرورت کے وقت نسخے میں لکھی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں جس بے دردی سے ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک دوائیں دے کر بچوں کو مدافعتی نظام کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں‘ ترقی یافتہ ملکوں میں پریکٹس کے بالکل برعکس ہے۔ بچوں کی عام موسمی بیماریوں میں کبھی بھی ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک کو تجویز نہیں کرتے۔ وہاں یہ قانون ہے کہ دس دن تک موسمی نزلہ زکام بخار کا علاج بغیر اینٹی بائیوٹک سے کیا جاتا ہے کیونکہ بچوں کے اندر مدافعتی نظام (Immunity System) ابھی نشوونما پا رہا ہوتا ہے اگر اس سٹیج پر ان کو یہ دوائیں دے دی جائیں تو مدافعتی نظام کمزور پڑنے لگتا ہے جبکہ جسم کا مدافعتی نظام اللہ کا بنایا ہویا ایک Healing System ہے اور قدرت کا یہ ہیلنگ سسٹم خودکار طریقے سے کام کرتا ہے۔ انسانی صحت کا دارومدار اسی پر ہوتا کہ یہ مدافعتی نظام کس قدر مضبوط ہے۔ یہ نظام بیماریوں کے خلاف ایک ڈھال ہے۔ دسمبر 2018ء میں جب میں امریکہ کے وزٹ پر تھی تو وہاں ٹیکساس کے ایک شہر Mckenny میں پاکستانی فیملی کے ہاں کھانے پر گئے۔ اس دعوت کی میزبان ہماری دوست سعدیہ رفیق کی فیملی فرینڈ تھیں۔ انہوں نے دو اور پاکستانی فیملیز کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ وہاں باتوں باتوں میں ہماری میزبان کہنے لگیں کہ یہاں بچے بیمار ہو جائیں تو ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک تجویز نہیں کرتے۔ سادہ دوائیں‘ پھر کچھ گھریلو ٹوٹکے‘ شہد‘ دارچینی‘ ملٹھی وغیرہ سے بچوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اگر دس دن تک بیماری میں بہتری نہ آئے تو پھر ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک دوا تجویز کرتا ہے۔ میرے لیے یہ حیرت کی بات تھی کیونکہ ہمارے ہاں تو بچے کو چھینک بھی آ جائے تو محلے کی نکڑ پر بیٹھا ہوا جنرل فزیشن نسخے میں سب سے اوپر اینٹی بائیوٹک لکھ کر دیتا ہے۔ یہاں پر ایسا کوئی قانون کیوں نہیں ہے؟ ایک آنکھیں کھول دینے والی ریسرچ امپیریل کالج لندن کے ہیلتھ انسٹیٹیوٹ نے کی‘ اس کے مطابق غریب ملکوں میں بسنے والے لوگوں کے مدافعتی نظام مسلسل اینٹی بائیوٹک کے استعمال سے کمزور پڑ رہے ہیں۔ اس ریسرچ میں اینٹی بائیوکٹس کو Immuno Suppressive Drugs لکھا گیا ہے۔بیماری کی شدت میں ان کا استعمال ضروری ہے جبکہ نزلہ زکام جیسی عام بیماریوں میں ان کا استعمال ایسے ہی ہے جیسے باغیوں کے ایک گروہ کو کچلنے کے لیے پورے براعظم پر بم مار دیا جائے۔ یہ الفاظ اس ریسرچ کے ہیں جنہیں میں نے یہاں ترجمہ کیا ہے۔ وہ ممالک جہاں ریاست اپنے شہریوں کے حقوق کی محافظ ہے‘ وہاں انسانی صحت کے خلاف ایسی جنگ پر قابو پا لیا گیا ہے جبکہ پاکستان جیسے غریب ملک میں بسنے والے لوگ ابھی خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ انسانی صحت میں نقب لگانے والی اس گھنائونی جنگ کو کون روکے گا؟