کوئی الزام محبت پہ نہ تم آنے دو ختم ہوتا ہے اگر ربط تو ہو جانے دو ڈھیر غلے کا اگر ہے تو نہیں اس کے لئے چونچ میں آتے ہیں چڑیا کے فقط دانے دو ایسے ہی چڑیوں کو بدنام کیا ہوا ہے کہ چڑیاں چگ گئیں کھیت۔کھیت اجاڑنے والی باہر کی مخلوق ہے۔ وہ جو کماد اجاڑ دیتے ہیں ، ایک مرتبہ جارج آرویل کا ناول اینمل فارم Animal formضرور پڑھ لینا چاہیے کہ ذھنی کام کرنے کا دعویٰ کرنے والے کس طرح جانوروں کا استحصال کرتے ہیں۔ ایسے ہی آج علی الصبح دوستوں کی محفل میں ایک نظم کا تذکرہ کیا تو میں نے ان کی تصیح کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظم تو قصور کے مشہور شاعر عبداللہ شاکر کی ہے اور 1982ء میں میں نے فیصل آڈیٹوریم پنجاب یونیورسٹی میں خود ان سے سنی۔ایک آدھ لائن ذھن میں رہ گئی۔ کھائی جائو بھئی کھائی جائو اتوں رولا پائی جائو باندر وانگوں کھیر کھا کے کٹے نوں کٹائی جائو یہ ہر دور میں ہوتا آیا ہے کہ کھاتا کوئی ہے گالیاں کسی کو پڑتی ہیں۔ یہی تو فن اور فنکاری ہے اب دیکھیے کہ خان صاحب کو چلنے ہی دیا جا رہا۔جانے والوں کے چاہنے والے ہی مان نہیں۔لگتا ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی کی فتح کے بعد علاقہ چھوڑنے والے وہاں بارودی سرنگیں بچھا جاتے ہیں۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ آپ کورونا یا چاند گرہن بھی ان کے نام لگا دیں بہرحال ہوشمندی ضروری ہے۔ قارئین !میں تو ہلکی پھلکی باتیں کرنے بیٹھا تھا چونکہ شاعر ہوں تو کبھی کبھی آپ کو سخن کی دنیا میں لے آتا ہوں۔کہتے ہیں کہ شاعر اور عام آدمی میں اتنا سا فرق ہوتا ہے کہ ایک منظر سے عام آدمی بے نیازی سے گزر جاتا ہے مگر شاعر اس کا نوٹس کرتا ہے اور پھر اس منظر میں دوسروں کو شریک کرنا چاہتا ہے۔میں بھی کچھ منظروں اور کچھ خبروں پر ٹھہر جاتا ہوں۔کبھی کبھی جیسے رات کی رانی کی خوشبو آپ کے پائوں کی زنجیر بن جاتی ہے اور اس کے برعکس کوئی کریہہ چیز آپ کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ بارش میں دھوپ نکل آئے یا دھوپ میں بارش ہو رہی ہو۔ ایک مرتبہ بندہ اس سحر کا اسیر تو ہو جاتا ہے: لب پر ہے انکار کسی کے اور ہے دل میں خواہش بھی اس کی آنکھوں میں دیکھو تو دھوپ بھی ہے اور بارش بھی جس طرح زندگی کا تنوع ہمیں کھینچتا ہے اسی طرح یکسانیت سے ہم اکتا جاتے ہیں بعض اوقات کلیشے بننے والی چیزیں اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں ۔مجھے یاد ہے چاسر Chaucerکی ایک نظم نائٹ Knightیعنی جنگ جو ہم پڑھتے تھے، اس نے اسے اتنی مرتبہ اچھا goodلکھا کہ شک پڑنے لگ گیا۔اسی طرح زیادہ تعریف اور زیادہ بدتعریفی کسی کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ مثلا بار بار محترمہ فردوس عاشق اعوان کا مریم نواز کو جعلی راجکماری کہنا اور اسے اس نام سے مخاطب کرنا لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اسی طرح آئے دن وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کا بغیر پروٹوکول لاہور کا دورہ اور خود گاڑی ڈرائیو کرنا ۔ اصل بات یہ ہے کہ لاہور میں کام کروا کر لاہوریوں کے دل جیتے جائیں۔یہ گندگی صرف خبروں ہی میں اٹھائی جاتی ہے۔کسی کا مصرع یاد آ گیا ’’پھر رہا ہے شہر میں صفدر کھلا‘‘ بعض اوقات تو بڑے بڑے لوگوں کے بڑے بڑے بیان بھی کلیشے بن جاتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کے اس بیان پر آپ کیا کہیں گے کہ انہوں نے نور مقدم قتل کیس میں نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے حکومت ٹیسٹ کیس بنائے گی۔ اب آپ بتائیے کہ ساہیوال کیس میں کہ جہاں بچوں کے سامنے ان کے والدین کو بھون دیا گیا، کے بارے میں بھی خان صاحب نے کہا تھا کہ اسے ٹیسٹ کیس بنائیں گے۔ اس کے بعد بھی کئی کیس ٹیسٹ کیس بن بن کر رہ گئے۔ خدا لگتی کہیں کہ کیا یہ محض بیان بازی نہیں۔ دل دکھتا ہے کہ ہر لوٹ مار میں بھی صرف تفتیشی کمیشن بنتا ہے، رپورٹ بھی بنتی ہے اور داد بھی وصول کی جاتی ہے مگر کسی ایک کوئی سزا کوئی جرمانہ نہیں صاحب یہ تو مذاق ہے اس پریکٹس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اصل شیر آ کر کھا جاتا ہے ۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نور ی ہے ناری ہے ایک لمحے کے لئے نواز شریف کا کیس ہم لے لیتے ہیں۔اس کو سزا ہو جاتی ہے پھر ارشد ملک کا ویڈیو سامنے آ جاتا ہے چلیے اسے چھوڑیے، ، نواز شریف پر منی لانڈرنگ اور دوسرے الزامات ؎ہیں، بے شمار ثبوت قوم کو دکھائے جاتے ہیں، سب کچھ درست بھی مان لیا جائے تو سوال یہ بھی ہے کہ ان کو جانے کیسے دیا گیا۔ کل کلاں کوئی معاہدہ یا کوئی ڈیل سامنے آ گئی تو کسی کو کوئی حیرت نہیں ہو گی۔سچی بات تو یہ کہ سب کا احتساب ہو فارن فنڈنگ کیس ہو یا کورونا ایڈ ہو۔ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ہم سچ سے ڈرتے ہیں ہم این آر او بھی اس کو کہتے ہیں جو دشمن کو نہ دیا جائے اور دوست کو اس سے محروم نہ رکھا جائے: تم ہی اگر نہ سن سکے قصہ غم سنے گا کون کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے آج ہی وزیر اعظم نے چینی کی قیمتوں کو واپس لانے کی بات کی ہے،پہلے بھی کر چکے ہیں ، آئل 370روپے کلو غریب بندہ کیاکرے ،بہت تکلیف ہوتی ہے جب میں کبھی ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو بے چارے روزانہ کی بنیاد پر دو انڈے، پائو دودھ ،پانچ روپے کی چینی اور اسی طرح دوسری چیزیں خریدتے ہیں۔ اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں۔پیٹ خالی ہو تو کوئی کچھ بھی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔پچھلی حکومت تو چوروں اور ڈاکوئوں کی سہی مگر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ لوگ گئے وقت کو کیوں یاد کرتے ہیں۔پھر اپنا پیارا دوست ازہر درانی یاد آیا: شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی