سینٹ انتخابات میں پی ڈی ایم کو جو ہزیمت اٹھانی پڑی اس کا سب سے زیادہ نقصان مولانا فضل الرحمن کو ہوا، دس گیارہ جماعتوں کی سربراہی ملنے پر مولانا خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے اور موجودہ حکومت کے خاتمے کی تاریخ یوں ہنس مسکرا کر دیتے جیسے یہ اب ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ مولانا کے سیاسی مخالفین تو خیر جواب آں غزل میں بہت کچھ کہتے رہے۔ ان کے دیرینہ ساتھی حافظ حسین احمد نے اپنے سابق قائد کو سب سے زیادہ زچ کیا،برجستہ جملے اور حقیقت حال کے عکاس چٹکلے۔ حافظ حسین احمد اپنی عالمانہ وضع قطع،چہرے کی تراش خراش سے زاہد خشک نظر آتے ہیں مگر ہیں بلا کے بذلہ سنج اور حاضر جواب،ہلکے پھلکے انداز میں مخالف کو چٹکی کاٹتے اور سننے والوں کو مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں، سینٹ اور قومی اسمبلی میں حافظ حسین احمد وقفہ سوالات میں بالعموم حزب اقتدار کو زچ کرتے مگر اندازِ بیاں اس قدر شگفتہ کہ بدترین مخالف بھی کسمسا کر رہ جاتا، جواباً کچھ نہ کہہ پاتا۔ سوشل میڈیا پر کسی مداح نے حافظ صاحب کے پارلیمانی چٹکلے شیئر کیے ہیں، دل چاہا کہ کالم کا حصہ بنائوں، سامعین محظوظ ہوں اور حافظ صاحب کی ذہانت، برجستہ گوئی، حاضر دماغی اور حس مزاح کی داد بھی دیں۔ سینٹ کا اجلاس ہو رہا تھا صدارت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی محترمہ نورجہان پانیزئی کررہی تھیں۔ (یہ ان دنوں کی بات ہے جب نواز شریف حکومت کی جانب سے پہلی بار بجلی کے بلوں پر سرچارج عائد کیا گیا اور اس پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے کافی سخت ردعمل آیاتھا ) حافظ حسین احمد اٹھے اور کہا وزیر خزانہ جناب سرچارج عزیز صاحب بتانا پسند فرمائیں گے ؟ابھی سوال نامکمل تھا کہ سرتاج عزیز اٹھے اور کہا ''جی !انہیں سمجھائیں، میرا نام درست لیں۔'' حافظ صاحب سے درست نام لینے کو کہا گیا تو حافظ صاحب کہنے لگے: ''آج اخبار میں سرچار ج کا تذکرہ بہت پڑھا، ممکن ہے وہی اٹک گیا ہو۔مگر وزیر صاحب اپنا درست نام بتادیں تاکہ انہیں اسی نام سے پکارا جائے '' سرتاج عزیز اپنے سرخ چہرے کے ساتھ انتہائی غصے میں اٹھے اور کہنے لگے:'' میرا نام سرتاج ہے سرتاج!! !!! یہ کہنے کی دیر تھی کہ حافظ حسین احمد نے کہا : محترمہ چیئرپرسن صاحبہ! آپ انہیں سرتاج کہہ سکتی ہیں؟ ڈاکٹرنورجہاں پانیزئی کے ہونٹوں پر چند لمحے خاموشی کا قفل رہا۔۔۔پھر بولیں:'' نہیں میں نہیں کہہ سکتی'' حافظ حسین احمد نے کھڑے کھڑے کہا: جب آپ ان کا درست نام لینے سے گریز کرتی ہیں اور درست نام نہیں لے سکتیں تو ہم کیسے لے سکتے ہیں؟ ٭ …وسیم سجاد سینٹ کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے ۔بے نظیر بھٹو کے وزیر قانون اقبال حیدر(مرحوم) کی یہ عادت تھی کہ وہ اجلاس سے اٹھ کر لابی میں بیٹھ کر سگریٹ پیتے تھے۔چیئرمین صاحب نے پوچھا :…اقبال حیدر کہاں ہیں؟ حافظ حسین احمد نے کہا'' پینے گئے ہیں'' پورے ہال میں قہقہے برسنا شروع ہوئے تو اقبال حیدر فوراً داخل ہوئے ،کہنے لگے :''جناب چیئرمین !انہو ں نے مجھ پر بہتان لگایا ہے'' اقبال حیدر غصے سے لال پیلے ہو چکے تھے ،حافظ حسین احمد اٹھے اور کہنے لگے:'' جناب چیئرمین! آپ ان سے پوچھیں یہ سگریٹ پی کر نہیں آئے؟میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ پینے گئے ہیں''۔ ٭ …ڈاکٹر اشرف عباسی قومی اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر تھیں، سپیکر معراج خالد بیرونی دورے پر چلے گئے۔ اب قائم مقام سپیکر کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت اشرف عباسی ہی کو کرنا تھی۔مسئلہ صرف حافظ حسین احمد کا تھا کہ کسی طرح انہیں کنٹرول کیا جائے۔ ڈاکٹر اشرف عباسی نے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ حافظ حسین احمد سے میٹنگ کرلی جائے۔وہ یہ سوچ کر رات ساڑھے دس بجے ایم این اے ہاسٹل چلی آئیں۔کمرے میں کراچی کے ایک عالم دین سے کہنے لگیں کہ ''حافظ صاحب بہت تنگ کرتے ہیں، انہیں سمجھائیں، اجلاس کو پر سکون رہنے دیا کریں۔ تیسرے فریق کی موجودگی میں حافظ حسین احمد اور ڈاکٹر اشرف عباسی کے مابین معاہدہ طے پاگیا کہ حافظ حسین احمد تنگ نہیں کریں گے۔اگلے دن اجلاس شروع ہوا تو حافظ حسین احمد اٹھے اور بولنا چاہا ، ڈاکٹر اشرف عباسی نے موصوف کو غصے سے کہا بیٹھ جاؤ۔ چند منٹوں کے توقف کے بعد وہ پھر اٹھے تو ڈاکٹر صاحبہ نے اپنا پہلے والا جملہ دہرادیا۔ ایک مرتبہ پھر ایسا ہوا۔جب چوتھی مرتبہ حافظ حسین احمد اٹھے تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے جھاڑ پلادی۔حافظ صاحب نے کہا: '' میں رات والے معاہدے کو توڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔'' یہ کہنے کی دیر تھی کہ ڈاکٹر اشرف عباسی نے سپیکر کی کرسی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنا شروع کردیا :نہیں، نہیں حافظ صاحب! معاہدہ برقرار رہے گا۔ تمام ممبران رات والے معاہدے پر حیرت زدہ تھے ،یہ معاہدہ ممبران کیلئے معمہ بن کے رہ گیا ۔ ٭… ملک معراج خالد قومی اسمبلی کے سپیکر تھے، اعتزاز احسن وزیر پارلیمانی امور تھے ۔ مگر اعتزاز احسن نے ایک دن آتے ہی سپیکر سے کہا کہ: آج مجھے جلدی ہے، حافظ حسین احمد صاحب سے کہیں کہ وہ اپنا سوال پوچھ لیں۔ حافظ حسین احمد نے کہا کہ: وزیر صاحب بتانا پسند کریں گے کہ کس بات کی جلدی ہے؟ اعتزازاحسن: محترمہ بے نظیر بھٹو (وزیر اعظم ) مری جارہی ہیں۔ حافظ حسین احمد:کس پر؟ بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ شور شرابہ شروع ہوگیا۔حکومتی پارٹی کے اراکین کہنے لگے کہ یہ جملے قابل اعتراض ہیں، ہم واک آؤٹ کریں گے ،نہیں تو حافظ صاحب اپنے الفاظ واپس لیں۔ حافظ حسین احمد: کونسے الفاظ قابل اعتراض ہیں، میں نے بڑی لمبی تقریر کی ہے ، مجھے کیا پتہ کہ انہیں کن الفاظ پر اعتراض ہے۔ معراج خالد : وہ جو قابل اعتراض ہیں۔ حافظ حسین احمد:مجھے کیسے پتہ چلے گا؟ اعتزاز احسن :وہ جو انہوں نے کہا کہ ’’کس پر…؟‘‘ حافظ حسین احمد:جناب سپیکر !میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر محترمہ ہیلی کاپٹر پر جارہی ہیں تو پھر موصوف چلے جائیں اور اگر وہ بائی روڈ جارہی ہیں تو وزیر صاحب بعد میں اپنی گاڑی پر جاسکتے ہیں۔ میں نے یہ پوچھا کہ:وہ کس پر مری جارہی ھیں؟ گاڑی پر یا ہیلی کاپٹر پر؟'' پیپلز پارٹی کے اراکین پھر کھڑے ہوگئے کہنے لگے:'' نہیں! حافظ صاحب کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔'' بڑھ چڑھ کر بولنے والوں میں جہانگیر بدر بھی تھے۔ حافظ حسین احمد:جناب سپیکر !مجھے اپنی نیت کا پتہ ہے ،انہیں میری نیت کا کس طرح معلوم ہوا؟‘‘