عالمی معاشی ایجنسی کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ کے ترجمان نے عجب متضاد فقرہ کہہ دیا۔ عالمی ایجنسی سٹینڈرڈاینڈ پؤرز کا کہنا تھا کہ پاکستان کا معاشی مستقبل خطرے میں ہے اور حالات بہتر ہونے کے فوری امکانات ختم ہو گئے۔ ساتھ ہی ایجنسی نے پاکستان کی ریٹنگ کی منفیت کو دوبالا کرتے ہوئے اسے بی کیٹگری میں شامل کر دیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ کے ترجمان نے کہا کہ یہ عمرانی حکومت کی نااہلی اور نالائقی کی چارج شیٹ ہے ساتھ یہ بھی کہا کہ عمرانی حکومت جان بوجھ کر ملکی معیشت کو تباہ کر رہی ہے۔ ترجمان کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ نااہلی‘ نالائقی کے ساتھ جان بوجھ کر والے الفاظ استعمال نہیں کئے جا سکے۔ یعنی ایک ہی فقرے میں ہر دو الفاظ کو اکٹھا کرنا غلط ہے۔ جو کام جان بوجھ کر یعنی لنگرلنگوٹ کس کر کیا جائے ‘ اسے نااہلی کہا جا سکتا ہے نہ نالائقی ایسا کام سراسر اہلی اور سراسر لائقی کے زمرے میں آتا ہے۔عمرانی ٹیم کو جن کارہائے لائقہ کی انجام دہی کے لئے لایا گیا تھا‘ وہ اسے پوری اہلی اور لائقی کے ساتھ سرانجام دے رہی ہے۔ ترجمان کو انصاف سے کام لیتے ہوئے ٹیم کو سو میں سے سو نمبر‘ پانچ صفائی کے‘ کل 105نمبر دینے چاہئیں۔ ٭٭٭٭٭ سی پی این ای نے بلوچستان میں اخبارات پر صوبائی حکومت کے ازحد دبائو پر شدید الفاظ میں احتجاج کیا ہے۔بلوچستان سے آنے والے بعض احباب نے بتایا ہے کہ صوبے میں میڈیا کے حالات ابتر ہیں۔ عرض کیا‘ وہ تو پورے ملک میں ابتر ہیں۔ کہنے لگے‘ بلوچستان میں ’’ابتر ترین‘‘ ہیں۔دبائو‘ دھمکیاں ‘ مخالف کارروائیاں سب زوروں پر ہیں‘ پورا زور لگایا جا رہا ہے کہ اخبارات بند ہو جائیں۔ اتنے برے حالات کی ملک بھر میں کسی کو خبر نہیں۔ اب یہ جو دو چار سطریں چھپی ہیں تو سی پی این ای کے بیان کی وجہ سے ورنہ یہ بھی کہاں چھپتیں۔بلوچستان پر وزیر اعلیٰ جام کمال کی حکومت ہے۔ موصوف سنجرائی ماڈل سے برآمد ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت ’’روشن خیال‘‘ ہیں۔ صحافت ‘ حق رسائی معلومات‘ تعلیم‘ خواندگی ‘ علاج‘ انسانی حقوق جیسی اشیا کو بوسیدہ اور فرسودہ سمجھتے اور انہیں حقیقی ’’ترقی‘‘ کی راہ میں رکاوٹ مانتے ہیں۔ ع اے جام۔ تیرے حسن کمالات کی خیر چند روز پہلے کوئٹہ کے ایک پروفیسر ابراہیم لونی کو سرعام‘ سب کے سامنے ایک اے ایس پی عطاء الرحمن ترین نے بندوق کے بٹ مار مار کر قتل کر دیا۔جام صاحب نے ایک لفظ اس خبر کا چھپنے نہیں دیا۔ پھر سنا ہے پشتون بیلٹ میں بہت بڑی ہڑتال ہوئی‘ کچھ خطرناک اشارے ملے جس کے بعد سنجرانی ماڈل کے وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ قتل کی تحقیقات کرائی جا رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب کے ایک وزیر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ سانحہ ساہیوال پر کسی جوڈیشل کمشن کی ضرورت نہیں۔ یہ بات تین چار روز پہلے پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے بھی کہی تھی۔واقعی‘ کمشن بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جے آئی ٹی نے رپورٹ دے دی ہے۔ مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج ہو چکا ہے۔ کبھی نہ کبھی یہ نامعلوم افراد معلوم کے زمرے میں آ جائیں گے۔ پھر انصاف بھی اپنا راستہ تلاش کر لے گا۔ تب تک کمشن کی نہیں صبر اور انتظار کی ضرورت ہے۔ نقیب اللہ محسود کا والد انتظار کر رہا ہے۔ ساہیوال کے متاثرین بھی کر لیں۔سانحہ جس روز ہوا‘ اس کی شام خبر جاری کی گئی کہ وزیر اعظم اس کی خبر ملتے ہی صدمے سے نڈھال ہو گئے۔ صدمہ کس بات کا تھا؟ لگتا ہے کہ انہیں اس خبر سے صدمہ پہنچا کہ کچھ لوگوں نے سانحے کی ویڈیوز بنا لی ہیں جس سے معاملہ خراب ہو گیا ہے۔ یعنی ’’پھڑے گئے آں‘‘معاملہ خراب ہو تو وزیر اعظم کو صدمے میں آنا ہی چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ افغانستان کے لئے پاکستان کی برآمدات کا حجم کم ہو کر آدھے کے قریب رہ گیا ہے اور اب پاکستانی مال کی جگہ افغان منڈیوں میں بھارت اور ایران کے مال نے لے لی ہے اور ان ملکوں کی برآمدات افغانستان کے لئے بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہ حق ہمسائیگان کے لئے ہمارے ایثار اور قربانی کا معاملہ ہے۔’’ توں لنگھ جا‘ ساڈی خیر اے ‘‘کی تفسیر ہے۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ مستقبل قریب میں افغانستان سمندر تک راہداری کے لئے ایران پر انحصار کرنے والا ہے۔ مستقبل سے مراد وہ سیٹ اپ ہے جو عنقریب افغانستان میں بننے والا ہے اور جس میں کہا جاتا ہے‘ سب سے اہم کردار طالبان کا ہو گا۔طالبان کا مرکز نگاہ گوادر نہیں رہا‘ ان کی نظریں اب چاہ بہار کا تعاقب کر رہی ہیں۔ طالبان ایران کو اور ایران طالبان کو بہت زیادہ پسند نہیں کرتا لیکن ’’مجبوری‘‘ نے قربتیں بڑھا دی ہیں۔ گوادر کو عمران کی نظر کھا گئی۔ چاہ بہار دھندلکے سے باہر آ رہا ہے۔ اہل ’’نظر ‘‘ کو مبارک ہو۔ ٭٭٭٭٭ مہمند ڈیم کا ٹھیکہ لینے والے وزیر کا کہنا ہے کہ ٹھیکہ جس کمپنی کو ملا‘ اب میری نہیں‘ میرے بیٹے کی ہے۔ لوگ اس تسلی بخش وضاحت کو نہیں مان رہے۔ کہتے ہیں کہ مفادات کا ٹکرائو ہے۔کیسا ٹکرائو؟ 300ارب روپے کے مفادات خوش اسلوبی سے باپ بیٹا میں تقسیم ہوں گے۔ کسی ٹکرائو کے بغیر۔ زیادہ حصہ بیٹے کو جائے گا‘ کم باپ کو کہ باپ کے ’’شیئرز‘‘ زیادہ نہیں ہیں۔ادھر ایسے معصوم صفت لوگ بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی کوئی ڈیم بننے والا ہے۔ بھئی جو شور شرابہ اور دھوم دھام تھی۔ قصہ ماضی ہوئی۔ وقت کا نظریہ ضرورت تھی ‘ یوں سمجھئے کہ ع اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی۔’’ آفتاب ‘‘کے ’’آفتاب‘‘ کو پچھلے دنوں سوئٹزرلینڈ اور انگلینڈ کے مرغزاروں میں دیکھا گیا۔ سنا ہے‘ کسی خوبصورت‘ موزوں جھیل کی تلاش تھی۔ ایسی موزوں کہ جس کے کنارے جھونپڑا ڈالا جا سکے۔ ٭٭٭٭٭ اطلاع ہے کہ فخر امام کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنایا جا رہا ہے۔ حق بحقدار رسید۔ لگے ہاتھوں چودھری شجاعت کو اکادمی ادبیات کا ’’فیصل واڈا یا علی امین گنڈا پور کو اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین لگا دیں۔