جمعرات 23مئی 2019ء کی شام کومقبوضہ کشمیر کے معروف علاقے ترال کے ڈاڈسرگائوںمیں لگاتارکئی برس تک قابض بھارتی فوج کے اعصاب پرسواررہنے والے مجاہدکمانڈر ذاکر موسیٰ قابض بھارتی فوج کے ساتھ ہوئے ایک خونریزمعرکے کے دوران شہیدہوگئے۔ کشمیرپولیس کے ایک آفیسرجواس معرکے کاعینی گواہ ہے کاکہناہے کہ ذاکرموسیٰ شیرکی طرح لڑا،اوروہ آخری دم تک قابض فوج سے مخاطب تھاکہ اگردم ہے توسامنے آکرلڑائی لڑو۔مگر قابض بھارتی فوج نے حسب سابق تاب مقاومت نہ لاتے ہوئے بالآخراس مکان کوبارودی موادسے مکمل تباہ کردیاجہاں کمانڈرذاکرموسیٰ اپنے ایک ساتھی مجاہدکے ہمراہ مورچہ زن تھے جبکہ دیگر کئی مکانوں کو شدید نقصان پہنچا۔قابض فوج نے مالک مکان مدثر احمد گونو کو گرفتار کر لیااوراسے نامعلوم مقام پرمنتقل کیا۔جمعرات کی شام کوہی جب مقبوضہ کشمیرمیں کمانڈرذاکرموسیٰ کی شہادت کی خبرجنگل کی آگ کی طرح پھیلی توعوام الناس میںزبردست بے چینی دیکھنے کوملی، بھارت مخالف مظاہروں اوراحتجاج کاسلسلہ شروع ہوگیااورمقبوضہ کشمیر میں حالات مزیدکشیدہ ہو گئے۔بھارت مخالف مظاہروں اوراحتجاج کایہ سلسلہ تادم تحریرجاری ہے۔24مئی جمعہ کو ترال میں انجینئر ذاکر موسیٰ کے جنازے میںاس قدرلوگ شریک ہوئے کہ 20مرتبہ ان کی نمازجنازہ اداکی گئی۔کمانڈرذاکر موسیٰ کی شہادت کے بعدمقبوضہ کشمیرمیںتادم تحریر موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بند ہے جبکہ کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ قابض انتظامیہ نے یہ اقدام اس لئے اٹھایاتا کہ کمانڈرذاکر موسیٰ کی شہادت پرکشمیری مسلمانوں کی طرف سے جوشدیدردعمل سامنے آرہاہے اس سے متعلق پیداشدہ صورتحال سے باہرکی دنیاکوبے خبررکھاجاسکے۔ انجینئرذاکر موسیٰ، جن کا اصل نام ذاکر رشید بٹ تھا،وہ نور پورہ ترال کے رہنے والے تھے ۔ انہوں نے 2013ء میں کشمیرکے عسکری محاذ میں شمولیت اختیار کی۔وہ معروف کشمیری مجاہدکمانڈربرہان وانی کے انتہائی قریبی رفقا میں سے تھا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد ذاکرموسیٰ نے فیلڈمجاہدین کی کمان سنبھالی۔ ذاکر موسیٰ قابض بھارتی فوج کے اعصاب پرسوارتھے اوربھارتی فوج کے خلاف کئی معرکوں میں وہ شریک رہے گزشتہ برسوں میں قابض بھارتی فوج کے ساتھ ہوئے معرکہ آرائیوں کے دوران ان کے کئی ساتھی شہیدہوئے۔ذاکر موسیٰ پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔انکے والد عبدالرشید بٹ ریٹائرڈ اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر ہیں۔انکے بڑے بھائی ڈاکٹر شاکر رشید بٹ بون سرجن ہیں جبکہ انکی بھابی بھی ڈاکٹر ہیں۔ذاکر موسی 2012ء میں بھارتی پنجاب کے چندی گڑھ میں رام دیو جندل انجینئرنگ کالج میں بی ٹیک کرنے کیلئے گئے تھے۔ تاہم کشمیرمیں جاری بھارتی بربریت نے ان کاساراسکون چھین لیااور انہوں نے تعلیم کو خیربادکہہ دیا اور برہان وانی کا انتہائی قریبی ساتھی بن گیا۔ جولائی2016ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد کمانڈر ذاکر موسیٰ نے سوشل میڈیاکے ذریعے کئی ویڈیو پیغامات جاری کیے بشمول کشمیردنیابھرکی تحریکوں کو’’ایک منزل ایک کارروان‘‘ کے طورپرپیش کیا۔مقبوضہ کشمیرمیں شہداء کو پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر جنازے کا جلوس نکالا جاتا ہے۔ انصارغزوہ الہندکایہ پرچم داعش کے پرچم کے مشابہہ ہے۔مظاہروں کے دوران بھی اس قسم کے علم لہرانے لگے توبدمعاش اورمتعصب بھارتی میڈیانے خوب شور ڈالا کہ کشمیر میں داعش آ گئی ہے۔ ایک طرف بھارتی میڈیا کا یہ پروپیگنڈا عروج پر تھا مگردوسری طرف خود بھارت کی قابض فوج، پولیس اور دیگر انٹیلی جنس اداروں نے واضح کیا ہے کہ کشمیرمیںداعش کی موجودگی کے شواہد نہیں ملے۔اس دوران کشمیرمیںبعض تجزیہ کاروں کاخیال تھاکہ بھارت تزویراتی طورپر امریکہ کا خاص حلیف بن چکاہے۔ ایسے میںکشمیر میں داعش آ گئی تو کشمیر میں آزادی کی جنگ امریکہ کی عالمی جنگ کا حصہ بن جائے گی، اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم انسانی حقوق کی پامالی نہیں بلکہ عالمی سطح پر جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے زمرے میں دیکھے جائیں گے۔جہادکونسل کے چیئرمین سیدصلاح الدین نے اپنے ایک ویڈیوپیغام میں کہاکہ جہادکشمیرکاکوئی عالمی ایجنڈانہیں بلکہ یہ خالصتاََمقامی تحریک ہے جس کامقصدصرف اورصرف بھارت سے آزادی حاصل کرناہے اوربس۔ کشمیرکے بزرگ لیڈرسیدعلی گیلانی نے کمانڈرذاکرموسیٰ کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ جو لوگ شعور کی بیداری کے ساتھ اللہ کی سرزمین پر اللہ کا قانون نافذ کرنے کی جدوجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، انہیں قوم کا بیش بہا سرمایہ قراردیکر عوام سے ان قربانیوں کی حفاظت کرنے کی دردمندانہ درخواست ہے۔سیدعلی گیلانی کے جانشین محمداشرف صحرائی نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ ذاکر موسیٰ نے اسلام کی سربلندی اور آزادی کی خاطر اپنی اٹھتی ہوئی جوانی قربان کی اوروہ کسی مسلکی یا تنظیمی عصبیت کا شکار نہیں تھا بلکہ اسلام کا ایک مخلص سپاہی ہونے کی حیثیت سے انھوں نے اپنا سب کچھ اس راہ میں تج دیا ۔موصوف ایک ہونہار انجینئرنگ طالب علم تھا وہ اپنی تعلیمی ڈگری کو اپنی دنیا بنانے کے لئے اچھی طرح سے استعمال کرسکتا تھا ،مگر اسلام اور وطن کوتسلط سے آزاد کرنے کی پکار پر اس نے اپنی اعلی ڈگری خاطر میں نہ لاتے ہوئے عزیمت کی راہ اختیار کی ۔جبکہ سیدعلی گیلانی کے جانشین محمداشرف صحرائی ذاکرموسیٰ کواپنی آنکھوں کانورقراردے چکے ہیں۔ کمانڈر ذاکرموسیٰ بھارتی فوج کے اعصاب پراس قدرسوارتھاکہ گزشتہ برس بھارتی پنجاب میں یہ خبرعام ہونے سے کھلبلی مچ گئی کہ جب بھارتی خفیہ اداروں کی طرف سے کہاگیاکہ کشمیرکے کمانڈر ذاکرموسیٰ کو مبینہ طور پراپنے دیگر ساتھیوں کیساتھ امرتسر میں دیکھا گیا ہے ۔بھارتی میڈیانے اس رپورٹ پر اپنے پاگل پن کاخوب مظاہرہ کیااور ذاکر موسیٰ کی سکھوں کے طرزپرپگڑی باندھے تصاویردکھاناشروع کردیں۔