اب جا کے پتہ چلا ہے کہ ہر حکومت جب زمام اقتدار سنبھالتی ہے تو اسکے پہلے آٹھ دس مہینوں میں مہنگائی ہو جاتی ہے اور یہ کوئی غیر معمولی کام نہیں ہے۔لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ پہلے چند مہینوں میں اگر مہنگائی ہوتی ہے تو کیا وہ پانچ سال مکمل ہونے پر ختم ہو جاتی ہے یاکم ہو جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ افراط زر کی شرح جو مہنگائی کا باعث بنتی ہے وہ ہر سال بڑھتی چلی جاتی ہے اور کسی بھی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے پر وہ کئی گنا بڑھ چکی ہوتی ہے اور سونے پر سہاگہ کہ نئی حکومت آتے ہی اس دلیل کا سہارا لیتی ہے کہ جب سابق حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا تو اسکے پہلے پانچ مہینوں میں جو مہنگائی ہوئی تھی وہ اس سے کہیں زیادہ تھی۔تحریک انصاف کے ساتھ ، سر منڈاتے ہی اولے پڑے ، والی بات ہوئی ہے۔ مہنگائی اور افراط زر تو ہوئی، اوپر سے کمائی کا مہینہ شروع ہو گیا۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ رمضان کریم جیسے نیک ماہ میں ایسا کیا ہو جا تا ہے کہ ہر چیز کی قیمت ایک دن میںسو گنا بڑھ جاتی ہے۔شاید اس ماہ کو کمائی کا مہینہ سمجھنے والے لوگ زیادہ تر تاجر اور کاروباری حضرات ہیں۔اس لئے وہ ہمارے جیسے نالائقوں اور قدامت پسندوں کے برعکس اس مہینے میں کمائی کے اور معنی لیتے ہیں۔ یہ کس چیز کی کمائی کا مہینہ ہے،نیکی یا پیسہ، یہی جاننا چاہتا ہوں۔ اس رمضان میں مہنگائی کی صورتحال گزشتہ رمضان کی طرح ہی ہے۔ ایک دن پہلے جو چیز سو روپے کی تھی چاند کا اعلان سنتے ہی دو سو کی ہو گئی۔ ہر گلی محلے میں ایک ہی صورتحال ہے۔آپکو ہر جگہ اس ماہ کو کمائی کا مہینہ سمجھنے والے مل رہے ہیں۔ لیکن ایسے بھی لا تعداد ہیں جو اس مہینے کو نیکی کمانے کا بہترین موقع جانتے ہیں اور اپنے اعمال میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ حسب استطاعت ضرورت مندوں کی مدد اور سحرو افطار کا خصوصی اہتمام کرتے نظر آتے ہیں۔اعدادو شمار کا ذکر کریں تواہل وطن کی دریا دلی کا دنیا میں کوئی جوڑ نہیں ۔ ہر سال تقریباً 240 ارب روپے کے خیرات و صدقات کئے جاتے ہیں۔ رحمدلی اور غم بانٹنے میں ہمارا کوئی جوڑ نہیں۔ اتنی بڑی خیرات اگر حقداروں تک پہنچ جائے تو ملک عزیز میں کوئی بھوکا اور بھکاری نظر نہ آئے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ عام دنوں میں بھی اور خصوصاً رمضان کریم میں بھکاریوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں نکل آتی ہیں اور آپ پیدل ہیں، سائیکل یا گاڑی پر ہیں بچ نکلنا محال ہو جاتا ہے۔بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ کوئی بہت منظم انداز میں بھکاریوں کا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ مہنگائی اور بھکاری ہر ماہ رمضان کی خصوصی سوغات بن گئے ہیں اور صرف ذخیرہ اندوز اور تاجر ہی نہیں بھکاری مافیا بھی اسے کمائی کا مہینہ ہی سمجھتا ہے۔ تاجروں میں خوف خدا رکھنے والے لوگوں کی کمی نہیں لیکن اپنی تجارت کے حوالے سے وہ اس ماہ میں بھی تاجر بن کر ہی سوچتے ہیں اور مہینوں پہلے اس بات کی تیاری کر لی جاتی ہے کہ کس طرح اس ماہ مبارک کو پوری طرح کیش کرانا ہے۔ جزا و سزا تو آخرت کے روز خدائے بزرگ و برتر نے طے کرنی ہے لیکن یہ کس طرح کا سودا کیا جا رہا ہے ۔کمائی تو دونوں طرح سے ہو سکتی ہے۔ نیکی کما کر بھی اور مال کما کر بھی، ترجیح کیا ہونی چاہئے یہ فیصلہ بھی مجھے صادر کرنے کا کوئی حق نہیں۔ لیکن جب ہم یہ مناظر دیکھتے ہیں مسجدوں میں معتکف افراد خدا کی خوشنودی کے لئے اپنے آپ کو بیشتر وقت عبادت میں مشغول رکھتے ہیں اور جب تھوڑی دیر کیلئے نیند غالب آتی ہے تو انہی کا کوئی بھائی بند انکے جیبوں اور سرہانوں کے نیچے رکھے ہوئے موبائل فون چوری کر لیتا ہے۔پستول کی نوک پر دکانوں کو لوٹ لیا جاتا ہے کیونکہ یہ کمائی کا وقت ہے اور دکانداروں کے غلے میں کافی کیش ہو تا ہے۔ گزشتہ رمضان کریم ختم ہونے کو تھا تو میں نے کالم میں عرض کیا تھا کہ صورتحال دیکھ کر یہ تکرار پہلے روزے شروع ہوچکی ہے کہ یہ کس چیز کی کمائی کا مہینہ ہے اور کسی حد تک اندر جھانکنے کا عمل جاری ہونے کو ہے۔یہ عمل گزشتہ سال شروع ہوا کچھ عرصہ جاری رہا اور پھر ہم بھی اپنی الجھنوں اور مصروفیات میں گم ہو گئے۔ پہلی دفعہ کوشش کی تھی شاید اس لئے بہت مشکل لگ رہاتھا۔ سنا ہے نیک لوگ تو رات سونے سے پہلے یہ عمل کرتے ہیں اور جب تک اپنے اندر جھانک کر نہیں دیکھ لیتے کہ آج پورا دن انہوں نے کیااچھا کیا انکو نیند ہی نہیں آتی۔ہمیشہ سے میرا خیال یہی رہا ہے کہ اچھے انسان سکون کی نیند سوتے ہیں اور جو اچھے اعمال کے مالک نہیں ہوتے انہیں نیند تو آ جاتی ہے بھلے مسکن دوائوں کی مرہون منت ہو لیکن سکون نہیں ہوتا۔ میرا پہلا تجربہ تھا جو بہت کامیاب نہیں ہوا لیکن ایک بار پھر دل مائل ہے کہ اس عمل کو زیادہ سنجیدگی سے کرنے کی ضرورت ہے شاید عمر کا بھی تقاضا ہے۔ شاید اس مرتبہ کامیاب ہو جائوں ۔ انسان کو تو اصل پر پیدا کیا گیا۔ تو یہ اصل کہاں چلا جاتا ہے۔یہی وہ محرک ہے کہ اپنے گریبان میں جھانکنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ یہ اصل اکژکہاں غائب ہو جاتا ہے۔ گزشتہ رمضان میں ابتدائی تانک جھانک میں تو سب ٹھیک لگا لیکن جوں جوں اپنی ذات کو اصل کے معیار پر پرکھنا شروع کیا تو شرمندگی کے علاوہ کیا ہو سکتا تھا۔اگر اس شرمندگی سے بچنے کی کوشش کی جائے تو اپنے اندر جھانک کر دیکھنے کا تکلف کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اگر شرمندگی کا احساس بڑھے تو اسے مٹانے کے لئے ٹکرا جانے کا حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ طاقتوروں اور مافیاز کے سامنے کمزور پڑ جانے والا یہ حوصلہ کیسے پیدا کرے۔ بہت سوچ بچار کے بعد یہی فیصلہ کیا کہ جہاد کا کمزور درجہ ہی سہی اس بارے میں آواز لگاتے رہنا ہے اور اندر جھانکنے کا عمل اگرچہ کافی جان کنی کا باعث ہے لیکن جاری رکھنا ہے شاید کوئی ایسا سراغ مل جائے جس سے ضمیر کو بھی اطمینان آجائے اور خلق خدا کے لئے بھی کوئی بہتری کی صورت نکل آئے۔بابا بلھے شاہ نے دریا کوزے میں بند کر دیا۔ بھج بھج وڑنا ایں مند ر مسیتی کدی من اپنے وچ وڑیا ای نہیں