جموں پہنچ کر ان کو معلوم ہوا کہ بھارتی پارلیمنٹ نے ریاست جموں و کشمیر کو دولخت کرکے لداخ اور بقیہ خطے کو دو مرکزی انتظام والے علاقوں میں تبدیل کردیا ہے اور اسی کے ساتھ خود بھارتی آئین میں اس خطے کے آئینی حقوق اور محدود خود مختاری کو ختم کر دیا ہے۔ انورادھا لکھتی ہیں کہ تین دن بعدجب وہ سرینگر میں تھیں، غیر اعلانیہ کرفیو کے دوران اپنے دفتر جارہی تھیں تو ان کو کئی سیکورٹی رکاوٹیں عبور کرنا پڑیں۔ ایک رکاوٹ پر جموں و کشمیر پولیس کے اہلکار نے ان کو بتایا کہ ان کو غیر مسلح کردیا گیا ہے۔ پولیس نے درخت کے سائے میں کرسی پر آرام فرما تے سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے ایک آفیسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم ان سے احکامات لیتے ہیں۔ کتاب کے مطابق خصوصی حیثیت کا چھن جانا صرف ایک جذباتی مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ جموں و کشمیر میں جمہوریت کی آخری نشانیاں تھیں، جن کو فوجی بوٹو ں تلے روند دیا گیا۔ بھارت نے مشروط الحاق سے مکمل انضمام کی طرف مارچ کیا۔ بتایا گیا کہ اس انضمام سے کشمیریوں کو بھارتی شہریوں کے برابر حقوق ملیں گے۔ وہ جمہوریت کے پھل کا پوری طرح لطف اٹھا سکیں گے۔ مگر شہریوں کو گھیر کر اور سول سوسائٹی کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کرکے کس طرح کی جمہوریت لائی جا رہی ہے؟ حقوق انسانی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ کارکن خرم پرویز کو نومبر 2021 کو انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ کشمیر ٹائمز کی مدیر کے بقول ان کی گرفتاری سے ٹھیک ایک ماہ قبل انہوں نے سری نگر میں ان کے دفتر میں دو گھنٹے گزارے۔ خرم نے ان سے کہا کہ صورتحال تشویشناک ہے ۔ لوگوں پر خاموشی طاری کر دی گئی ہے ۔وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود سول سوسائٹی کے دیگر اراکین کے ساتھ مل کر وہ کوئی راستہ تلاش کرنے کو کوشش کر رہے تھے ۔یہ راستہ انکی گرفتاری کے بعد بند ہو گیا۔ ویسے تو پچھلے ستر سالوں میں، جموں و کشمیر کی خودمختاری اور جمہوریت پر دیگر حکومتوں کے دور میں بھی کاری وار کئے گئے ہیں مگر موجودہ اقدامات سے کشمیر کے مسئلہ کے دیرپا اور پر امن طور پر حل کرنے کے راستے مسدود ہو گئے ہیں۔ اس تنازعہ کے ایک فریق یعنی کشمیریوں کو مکھن میںپڑے بال کی طرح باہر نکال دیا گیا ہے۔ ان کی اب کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی ۔ لگ بھگ 334 ریاستی قوانین میں سے 164 قوانین کو منسوخ کر دیا گیا ہے اور 167 قوانین کو بھارتی آئین کے مطابق ڈھال لیا گیا ہے۔ مزید 800نئے قوانین نافذ کئے گئے ہیں۔ ان قوانین نے مقامی آبادی کو حقوق بخشنے کے بجائے مزید بے اختیار کر دیا ہے۔ نہ صرف حق رائے دہی سے محرومی بلکہ شہری و سیاسی آزادیوںکو سلب کرنے اور آبادیاتی تبدیلی کیلئے زمین ہموار ہو رہی ہے۔ ہندو اکثریتی جموں میںبھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حامی خوشیاں منا رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بتایا جا رہا تھا کہ ’’اب کشمیریوں کو سبق سکھا دیا گیا ہے۔ اب ہم بھی ڈل جھیل کے کنارے زمین خریدیں گے۔‘‘ نفرت اور جہالت کا ایک طوفان برپا تھا۔ ان اقدامات کے دور رس اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ، کتاب میں بتایا گیا ہے کہ خود ہندو اکثریتی جموں اور لداخ کے بدھ اکثریتی لیہہ ضلع میں ، جہاں ریاست کے دولخت ہونے اور بھارت میں ضم کرنے پر خوشیاں منائی گئی تھیں ، اب یہ احساس گھر کر رہا ہے کہ وہ ایک بڑے نقصان کے طرف گامزن ہیں۔ جموں کے کاروباری طبقہ کو اب بھارت کے کارپوریٹ کے ساتھ مسابقت کرنی پڑ رہی ہے۔ دوسری طرف بدھ آبادی ، جو پہلے ہی قلیل تعداد میں ہے ،کو شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس خطے میں اب چین ، بھارت کے لئے ایک واضح خطرہ کے طور پر ابھر آیا ہے، جس کا علاج فی الحال بھارت کے پاس نہیں ہے۔ چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کبھی بھی بے قابو ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف کشمیر کے اندر مایوسی اور خوف کاعنصر مقامی آبادی کو کسی بھی انتہا تک لے جانے کا موجب بن سکتا ہے۔خاموشی ایک طوفان کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ پورے خطہ کو ایک آتش فشاں کے اوپر بٹھادیا گیا ہے، جو مختلف شکلوں اور مختلف آوازوں کے ساتھ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔انورادھا خبردار کرتی ہیں کہ بھارتی حکومت کی موجودہ کشمیر اور خارجہ پالیسی خطے کیلئے نہایت خطرناک رجحانات کی حامل ہے۔ مواصلات پر پابندی کی وجہ سے کشمیر میں میڈیا پر بھی عملی طور پابندی لگائی گئی تھی۔انورادھا نے 10 اگست کومعروف وکیل ورندا گروور کے ساتھ پٹیشن تیار کرکے اسکو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ کشمیر میڈیا کی طویل خاموشی نے بھی ایک آزاد اور خودمختار میڈیا کے مستقبل کے امکانات کے بارے میں خوف اور خدشات کو جنم دیاتھا۔ ایک میڈیا پروفیشنل کی حیثیت سے، کشمیر ٹائمز کے سب سے سینئر ایڈیٹرز میں سے ایک کے طور پر،اس پر آواز اٹھانا ان کے فرائض میں شامل تھا۔ انہوں نے استدعا کی تھی کہ پریس اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن سروسز اور فوٹو جرنلسٹ اور رپورٹرز کی نقل و حرکت پر عائد سخت پابندیوں میں فوری نرمی کی جائے۔ٹھیک پانچ ماہ بعد، 10 جنوری 2020 کو، عدالت نے کہا کہ حکومت طویل عرصے تک انٹرنیٹ یا لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں نہیں لگا سکتی۔ اس کے علاوہ اس نے کہا کہ ان حقوق کو عارضی طور پر چھیننے کے لیے درست وجوہات کو پبلک ڈومین میں لانا ہو گا۔ یہ سب کچھ بتانے کے باوجود عدالت نے فوری طور پر پابندیوں کو واپس لینے کا حکم نہیں دیا۔ اس نے جموں و کشمیر حکومت سے کہا کہ وہ سات دنوں کے اندر پابندیوں کو کم کرنے کے لیے ایک 'جائزہ کمیٹی' قائم کرے۔حکومت نے میڈیا کیلئے عارضی طور پر فیسیلیٹیشن سینٹر (MFC) ہا ئی سیکورٹی زون میں ایک ہوٹل کے تہہ خانے میںقائم کیا ، جس کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ بس یہی ایک جگہ تھی، جہاں باہر فون کیا جاسکتا تھا۔ دو سو سے زیادہ صحافی تین کمپیوٹرز اور فون استعمال کرتے تھے۔ 3 فروری 2021 کوجموں و کشمیر پولیس نے انٹرنیٹ پر رضاکاروں کے طور پر ایک نجی فورس تشکیل دی، جو انٹرنیٹ پر نظر رکھ کر پولیس کو رپورٹ کرینگے۔ یہ ایک طرح سے سویلین ملیشیا کا قیام تھا، جس طرح نوے کی دہائی میں اخوان کے نام سے عسکریت پسندوں سے نپٹنے کیلئے احتساب اور جوابدہی سے مبرا ایک غیر سرکاری فورس ترتیب دی گئی تھی۔(جاری ہے)