بنائوٹی ‘ جھوٹی اور گھڑی ہوئی کہانیوں کو انگریزی زبان میں فیبلر(Fables)کہتے ہیں۔ روس کے شہر ماسکو میں زار روس کے زمانے میں ایک ایسا شخص مشہور تھا جو ایسی کہانیاں لکھنے میں یدطولیٰ رکھتا تھا۔ یہ شخص ایوان کرائیلو(ivan Krylov)اپنی ان تحریروں کی وجہ سے بہت مشہور ہوا۔ حالانکہ وہ شاعر ‘ ڈرامہ نگار‘ناول نگار‘ مترجم اور سب سے بڑھ کر صحافی بھی تھا۔ اس نے 1814ء میں ایک بنائوٹی اور جھوٹی کہانی یعنی فیبل تحریر کی جس کا نام تھا متجسس آدمی(inquisitive man) اس کہانی میں ایک شخص عجائب گھر کی سیر کے لئے جاتا ہے اور وہاں موجود چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کو غور سے دیکھتا ہے لیکن اسے عجائب گھر میں موجود ہاتھی نظر نہیں آتا ہے۔ اس شخص کی اس کہانی کی بنیاد پر انگریزی ادب میں ایک محاورہ تخلیق ہوا کمرے میں ہاتھی(Elephant in the room)اس محاورے کو مارک ٹوئن نے اپنی کہانیوں میں استعمال کر کے انگریزی بول چال میں زندہ کر دیا۔ خبر کی دنیا میں اس کا استعمال پہلی دفعہ 20جون 1959ء کو نیو یارک ٹائمز میں ہوا۔ اس محاورے کا اشارہ کسی ایسے موضوع یا مسئلے کی جانب ہوتا ہے جو بہت بڑا اور اہم ہو اس حد تک نمایاں ہو کہ اسے ہر کوئی جانتا ہو‘ لیکن کوئی اس کا ذکر نہ کرے‘ کیونکہ ایسا کرنے سے کچھ لوگوں کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہوں‘ یا ایسا کرنا سیاسی و معاشرتی حوالے سے برا سمجھا جاتا ہو۔ لوگوں کے جذبات بھڑکا سکتا ہو اور خطرناک حد تک متنازعہ ہو۔ پاکستانی سیاست ‘ مذہب اور معاشرت میں ایسے بہت سے مسائل اور موضوعات ہیں جو کمرے میں ہاتھی کی طرح موجود ہیں‘ انہیں ہر شخص جانتا ہے لیکن ان کے بارے میں گفتگو سے ڈرتا ہے۔یوں تو پاکستان کی سیاست و معاشرت میں ایسے لاتعداد موضوعات اور مسائل ہیں جن سے لوگ آگاہ ہیں لیکن ان کی جانب سے آنکھیں پھیر کر مزے سے اپنے کام کاج میں مصروف رہتے ہیں اور وہ مسئلہ یا موضوع ایک بہت بڑے ہاتھی کی طرح ان کے درمیان موجود رہتا ہے‘ لیکن پاکستانی سیاست و معاشرت کا ایک ہاتھی ایسا ہے جس کے بغیر کاروبار سلطنت نہیں چلتا‘ جو اس ملک میں تمام خرابیوں اور اچھائیوں کا سب سے بڑا حصہ دار ہے۔ لوگ اس کے بارے میں گفتگو تو کرتے ہیں مگر مصلحت سب کا رویہ ہے۔ سیاست دان جب تک اقتدار میں نہ ہو‘ اس کی تقریریں اس ہاتھی سے کمرے کو پاک کرنے کے گرد گھومتی ہیں‘ لیکن اقتدار میں آتے ہی وہ اس کا سب سے بڑا محافظ اور خیر خواہ بن جاتا ہے۔ فوج کا جرنیل اقتدار میں آتے ہی اسے تہہ و بالا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اس کا بہت جی چاہتا ہے کہ اس کے ساتھی کمرے میں موجود اس ہاتھی کو نکال کر خود اس کی جگہ کھڑے ہو جائیں لیکن تھوڑی دیر بعد اسے احساس ہو جاتا ہے کہ اس ہاتھی کے بغیر تو چارہ نہیں پھر وہ بھی اس کا سب سے بڑا خیر خواہ بن جاتا ہے۔ پاکستانی سیاست و معاشرت کا یہ ہاتھی بیورو کریسی ہے۔ پاکستان کے تمام وزرائے اعظم‘صدور اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر دراصل ایوان کرائیلو کے ’’متجسس آدمی‘‘کی طرح ہیں جو اس ملک کی ہر خرابی کو دور کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے وہ عجائب گھر کی چھوٹی سے چھوٹی چیز پر بھی غور کرتا ہے لیکن ’’کمرے کے ہاتھی‘‘ یعنی بیورو کریسی کے وجود سے مکمل سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ستر سالوں میں اس ’’ہاتھی‘‘ کا سائز کئی گنا بڑا ہو چکا ہے‘ اس کے اخراجات میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اس کے پیدا کردہ مسائل اب لاینحل ہو چکے ہیں۔ عمران خان کی جذباتی سطحیت سے یہی توقع تھی کہ یہ ’’ہاتھی‘‘ اسے بہت جلد شیشے میں اتار لے گا اور پھر یہ اسی کی زبان فر فر بولنے لگے گا اور ایسا صرف چند ماہ میں ہی ہو گیا تھا۔اس بیورو کریسی کا کمال یہ ہے کہ پہلے دن سے اپنے بارے میں ایک تاثر ضرور برقرار رکھتی ہے کہ اسے اصلاح (Refrom)کی سخت ضرورت ہے۔1773ء میں قائم ہونے والی اس بیورو کریسی کی اصلاح کے لئے لاتعداد کمشن بنائے گئے۔ مونٹیگو چمسینورڈ(montague chelmsford)کے کمشن سے لے کر عمران خان کے عشرت حسین کے کمیشن تک سب اسی تگ و دو میں مصروف رہے کہ بیورو کریسی کی اصلاح کیسے ہو۔ سب نے موٹی موٹی کتابیں تحریر کیں جو الماریوں کی زینت بنا دی گئیں لیکن کوئی اس کی ہیت تبدیل کر سکااور نہ ہی اس کے اختیار‘ تصرف اور بالا دستی میں کمی کروا سکا۔ یہ ہاتھی کمرے کے سائز‘ مالک کی خواہش اور اپنی حیثیت کے دفاع کے لئے خود کو ایسا ایڈجسٹ کرتا ہے کہ اس کا وجود کسی کو برا ہی نہیں لگتا‘ سب گزارہ کر لیتے ہیں۔ پاکستان بننے سے لے کر آج تک بیورو کریسی کی اصلاح پر لاتعداد کمیشن بنائے گئے۔ ہر کسی نے کمیشن بنانے کی وجوہات تحریر کیں۔ لیکن پندرہ دسمبر 1998ء کو ورلڈ بنک نے سو صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی اس رپورٹ کے مندرجات اور تجویز کئے گئے حل سے کوئی متفق ہو یا نہ ہو‘ اس نے آغاز میں اصلاح کے لئے جو سات وجوہات بتائی ہیں وہ اس بیورو کریسی کی بدحالی‘ نااہلی اور بددیانتی کی تصویر کشی ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ وہ سات اہم خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی سول سروس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ 1۔اس کا ڈھانچہ ضرورت سے زیادہ سخت ‘ مرکزیت والا ہے اور اس کے قوانین کا معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اپنے اندر بھی مختلف طبقات کے لئے مختلف قانون رکھتی ہے جن کی وجہ سے سرخ فیتہ اس کی پہچان بن چکا ہے۔ 2۔ان کی مہارتوں کا ان کی نوکری اور عوام کے ساتھ ان کے واسطے‘ محکموں کی خصوصی نوعیت سے کوئی تعلق نہیں۔ 3۔ان کے ہاں اندرونی طور پر پوچھ گچھ اور احتساب بالکل ختم ہو چکا ہے اور عوام کے سامنے تو یہ کبھی بھی جواب دہ نہیں رہے۔ 4۔یہ مکمل طور پر سیاسی پارٹیوں کی ٹیم بن چکی ہے اور اس کے فیصلوں پر انصاف کی بجائے سیاست غالب آ چکی ہے۔ 5۔ ان کے آپس کے گروپوں میں بھی سخت تنائو ہے بلکہ مرکزی حکومتی بیورو کریسی اور صوبائی بیورو کریسی میں تعاون نام کو بھی نہیں۔ 6۔ اس کے گریڈ ایک سے لے کر بائیس تک ہر سطح پر کرپشن ایک وبا کی طرح سرایت کر چکی ہے۔ 7۔ کارپوریٹ سیکٹر میں زیادہ تنخواہوں اور مراعات کی وجہ سے بیورو کریسی میں اہل اور قابل افراد آنے کم ہو چکے ہیں۔یہ ہے وہ تصویر جو 1998ء میں اس پاکستانی بیورو کریسی کی بنائی گئی۔ آج 22سال گزرنے کے بعد یہ تصویر زیادہ خراب اور بوسیدہ ہو چکی ہے اور یہی بوسیدہ تصویر پاکستان کے مرکز اقتدار کے ہر کمرے میں ایک دیوہیکل ہاتھی کی صورت موجود ہے‘ جس کے موٹے موٹے پائوں تلے عوام کچلی جا رہی ہے اور حکمران اس پر سواری کے مزے لے رہے ہیں‘ لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ اس کی سواری خطرناک ہے‘ یہ کسی بھی دن فیصلہ کر لے تو سوار اوپر سے ایسے گراتی ہے کہ اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ زمین پر آ چکا ہے۔