کمنٹری کا لفظ پڑھتے ہی آپ کے ذہن میں کرکٹ کا بلاگھوم گیا ہو گا؛مگر ہماری کمنٹری کرکٹ پر نہیں چند ایسے فقروں پر ہے جو کثرتِ اِستعمال سے اَپنا ُمفہوم کھو چکے ہیں اَور زبان و بیان کے اعتبار سے غلط ہیں۔ اِنھیں ہم بغیر سوچے سمجھے برتنے کے عادی ہو چکے ہیں یا یہ اپنے اَندر کوئی نہ کوئی منطقی سقم ضرور رکھتے ہیں۔ لیجیے کمنٹری سنیے! …… ’’کیا آپ مجھے اِتنا ہی بے و قوف سمجھتے ہیں؟‘‘ جی نہیں‘ ہم آپ کو اِتنا بے و قوف قطعاً نہیں سمجھتے! تھوڑی بہت کسر تو آپ خود تسلیم کر رہے ہیں اَور ہم بھی آپ کو صرف اُسی َحد تک بے و قوف سمجھتے ہیں۔ …… ’’ریڑھی بان کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔‘‘ اگر ریڑھی بان کو بے دردی سے قتل کرنے کے بجائے پیار‘ ّمحبت اَور خلوص سے قتل کیا جاتا تو یقین جانیے، ہمیں ذرا بھی دُکھ نہ ہوتا۔ صاحب‘ آج کل کے قاتل واقعی بہت سنگد ِل ہیں۔ اگلے زمانے میں اُن کا دستور تھا کہ ُوہ اَپنے ہونے والے مقتول سے مصافحہ کرتے‘ اُسے گلے لگاتے‘ َسر ُمنہ ‘ ُچومتے‘ عنقریب سر زد ہونے والے ُجرم پر پیشگی اِظہار ِ ندامت کرتے، تقویت ِ قلب کے لیے اُسے خمیرہ ٔ اَبریشم یا چاندی کے ورق لگا سیب کا مربّہ کھلاتے؛اَور پھر آنکھوں میں آ نسو بھرکر‘ دھیرے دھیرے‘ کلیجے میں ُچھری اُتارتے۔ لیکن اَب وقت بدل ُچکا ہے: قاتلوں میں ُوہ پہلے کی سی مر ّوت اَور سلیقہ قرینہ نہیں رہا۔ …… ’’لذیذ کھانوں اَور عمدہ چائے کا وا حد مرکز۔‘‘ یقین جانیے‘ ہم نے شہر کے سینکڑوں ہوٹلوں اَور ریستورانوں میں کھانا کھایا اَور چائے پی؛ لیکن کھانا لذیذ تھا‘ نہ چائے ُعمدہ۔ بلا شبہ آپ کا ہوٹل یا ریستوران لذیذ کھانوں اَور ُعمدہ چائے کا وا ِحد مرکز ہے‘ مگر آپ کے دیکھا دیکھی ہر شخص نے اپنی دُکان پر ’’وا حد مرکز‘‘ لکھ رکھا ہے۔ اِندریں حالات‘ خاکسار کی رائے یہ ہے کہ آپ اپنی الگ پہچان اَور شناخت کے لیے اَپنے سائن بورڈ پر ’’وا حد مرکز‘‘ کے بجائے ’’اِکلوتاوا حد مرکز‘‘ لکھ لیں! …… ’’میں نے ر ِکشا ڈرائیور کے منہ پر َکس کر طمانچہ مارا۔‘‘ آپ کہتے ہیں تو مانے لیتے ہیں‘ ورنہ جتنی دیر آپ نے طمانچہ کسنے میں لگائی ہو گی‘ اُتنی دیر میں تو ر ِکشے والا ر ِکشا لے کر َہوا ہو گیا ہو گا۔ طمانچہ مارنے کا اُصول یہ ہے کہ فوراً ہی َجڑدیا جائے کیونکہ اِسے کسنے میںجو وقت لگتا ہے‘ اُس سے فائدہ اُٹھا کر دُوسرا شخص آپ کے منہ پر طمانچہ جڑ سکتا ہے! …… ’’مرحوم نے اپنے پیچھے ایک بیوہ اَور دو بچے چھوڑے ہیں۔‘‘ بیوہ تو ممکن ہے مر ُحوم نے جان بوجھ کر پیچھے چھوڑی ہو‘ تاکہ وہ کم اَز کم دُوسری دُنیا میں تو سُکھ کا سانس لے سکے؛ لیکن ّبچوں کو پیچھے چھوڑ کر اُس نے واقعی زیادتی کی ہے۔ تاہم یہ اُس کا ذاتی معاملہ ہے‘ ہم دخل دینے والے کون ہوتے ہیں! …… ’’پولیس نے نوجوان جوڑے کو سر ِعام فحش حرکات کرتے ہوئے گر َفتار کر لیا۔‘‘ اِس نوجوان جوڑے کو ِگر َفتار کر کے حوالات کے بجائے پاگل خانے بھیجنا چاہیے تھا۔ حیرت ہے کہ پولیس کو سامنے دیکھ کر بھی اُنھوں نے فحش حرکات جاری رکھیں۔ لگتا ہے اُنھیں گر َفتار ہونے کا بہت شوق تھا۔ ویسے ہم نے اپنی ز ِندگی میں سر ِ عام فحش حرکات والا منظر کبھی نہیں دیکھا۔ …… ’’مجھے دیکھ کر ُوہ بھاگ کھڑا ُہوا۔‘‘ ایک بات کریں جناب‘ بھاگ گیایا کھڑا ہو گیا… متضاد باتیں مناسب نہیں ہیں! …… ’’مر ُحوم کی وفات سے ایک اَیسا خلا َپیدا ہو گیا ہے جو مدتوں ُپر نہ ہو سکے گا۔‘‘ اَب تک ہمارے ہاں اِتنے خلا پیداا ہو چکے ہیں کہ ہمارا ملک خلائی َدور میں داخل ہو گیا ہے۔ آپ کا یہ فرمانادرست ہے کہ مر ُحوم کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا مدتوں ُپر نہ ہو سکے گا: یہ واقعی محنت طلب کام ہے۔ ممکن ہے‘ اِس کام میںکئی سو برس لگ جائیں۔ ویسے اِطلاعاً عرض ہے کہ اُن کی وفات سے دفتر میں جو خلا َپیدا ُہوا تھا‘ ُوہ تو اگلے ہی روز ُپر ہو گیا تھا، یعنی اُن کی جگہ نئے آدمی کی تعیناتی کر دی گئی تھی۔ آپ سے گزارش ہے کہ کسی صاحب کی فوتیدگی پر فوراً خلا نہ َپیدا کر دیا کریں؛ بہتر ہے‘ اِطمینان فرما لیا کریں کہ خلا َپیدا ُہوا بھی یا نہیں۔ اکثر اَوقات مرنے والا اپنے پیچھے خلا کے بجائے ڈھیر سارے بچے اَور اچھا خاصا بینک بیلنس چھوڑ جاتا ہے جس سے کئی چھوٹے موٹے خلا پر ہو سکتے ہیں! …… ’’دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ‘ مر ُحوم کو کر وٹ کر وٹ جنت نصیب فرمائے۔‘‘ مر ُحوم کی مستقل مزاجی قا بل داد ہے کہ وہ جنت میں جا کر بھی گھومنے پھرنے کے بجائے حسبِ معمول لیٹے ہوئے ہیں۔ گویا جس تساہل پسندی اَور آ رام طلبی کا شکار وہ ز ِندگی بھر رہے‘ اُس نے جنت میں بھی اُن کا پیچھا نہ چھوڑا۔ …… ’’عوام نے اپنے محبوب لیڈر کو دیکھ کر فلک شگاف نعرے لگائے۔‘‘ بالکل د رست… یہ جو فلک پر جگہ جگہ شگاف نظر آتے ہیںیقینا اِنھِیں نعروں کی وجہ سے ہیں۔ اگر سیاسی عمل اِسی شد و ّ مد سے جاری رہا تو ُوہ د ِن دُور نہیں جب ہمارے سر پر آسمان کے بجائے ایک بہت بڑا ِشگاف ہو گا۔ …… ’’پولیس نے دونوں کو اَندیشہ ٔ نقص امن کے تحت گرفتار کر لیا۔‘‘ پولیس نے گرفتار کیا نا! اگر پڑھے لکھے افراد گرفتار کرتے تو ’’اندیشہ ٔ ِنقض امن‘‘ کے تحت کرتے۔ اَب پولیس والوں کو یہ بتا کر گرفتار ہونے کا خطرہ کون مول لے کہ اصل لفظ’’ نقض ‘‘ہے ‘ یعنی’’ بگاڑ اَور ٹوٹ ُپھوٹ‘‘اَور’’اندیشہ ٔ نقض امن‘‘ کا مطلب ہے ’’امن کے درہم برہم ہونے کا خطرہ۔‘‘ …… ’’آپ کی دُعا سے مزے میں ہوں۔‘‘ اگر آپ مزے میں ہیں تو یقینا کسی اَور کی دُعا سے ہیں : ہم نے تو آپ کے حق میں کبھی دُعا نہیں کی۔ …… ’’مر ُحوم ایک مشہور سماجی کارکن تھے۔‘‘ واہ صاحب! آپ یہ بات ہمیں اُن کی ز ِندگی میں بتا دیتے تو ہم بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتے۔ یہ کیا بات ُہوئی کہ اِس اَہم راز کا اِنکشاف آپ ہمیشہ سماجی کارکن کی وفات کے بعد ہی کرتے ہیں!اَور ہاں‘ یہ تو بتائیے کہ کبھی اخبارمیں کسی ایسے شخص کے اِنتقاِل ُپر ملال کی خبر بھی َچھپی ہے جو سماجی کارکن نہیں تھا!