لاہور(سلیمان چودھری) پنجاب میں شہباز شریف دور حکومت میں14اضلاع کے ایک ہزار سے زائد بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سنٹرز کو چلانے کیلئے قائم کی جانیوالی پنجاب ہیلتھ فیسلٹیز مینجمنٹ کمپنی میں 24کروڑ86لاکھ روپے کی مالی بے قاعدگیاں سامنے آ گئیں۔رولز کے خلاف ورز ی کرتے ہوئے کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز کی تعیناتی کی گئی جبکہ چیف ٹیکنیکل آفیسر اور میڈیکل ایکسپرٹ کو اقربا پروری کی بنیادتعینات کیا گیا ۔ نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی کے باجوود 4کروڑ28لاکھ 90ہزار مالیت کی 17 گاڑیاں خریدی گئیں ۔کمپنی کے ہیڈ آفس کیلئے کرائے پر حاصل کردہ عمارت کی تزئین و آرائش پر معاہدہ کے برعکس 33لاکھ 17ہزار روپے خرچ کئے گئے ۔روز نامہ 92نیوز کوموصول آڈٹ رپورٹ کے مطابق کمپنی نے اپنے ملازمین کو 10لاکھ 50ہزار روپے عید بونس کے نام پر الائونس دیا ۔سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے تحت یہ کمپنی تشکیل دی گئی جس کے رولز کے مطابق کسی سیاسی فرد کو اسکے بورڈ میں شامل نہیں کیا جا سکتا لیکن رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سابق وزیر پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کئیر خواجہ عمران نذیر اور سابق ایم پی اے ڈاکٹر نادیہ عزیز کو بورڈ میں شامل کیا گیا ۔رولز کے مطابق ایک تہائی بورڈ ممبرز آزاد ہونے چاہئیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔چیف ٹیکنیکل آفیسر کی بھرتی کیلئے ایم بی بی ایس کیساتھ ایم پی ایچ ، ایم ایچ ایم ، ایم ایچ اے ، ایم ایم سی ایچ کی ڈگری اور 10سال کا متعلقہ تجربہ ہونا ضروری تھا مگر ڈاکٹر ندیم سہیل کومئی 2017ء میں ماہانہ تین لاکھ روپے تنخواہ پر بھرتی کیا گیا جن کے پاس تعلیمی قابلیت بھی پوری نہ تھی ۔آڈیٹر جنرل نے اس تعیناتی کو میرٹ کیخلاف قرار دیا اور ڈاکٹر ندیم سہیل کو ملنے والی 52لاکھ 10ہزار کی تنخواہ کو مالی بے قاعدگی قرار دیا ۔سابق دور حکومت کے مالی سال 2017-18ء میں نئی گاڑیوں کے خریداری پر پابندی تھی لیکن کمپنی کی جانب سے 17ٹیوٹا ہائی لیکس جن کی مالیت 4کروڑ28لاکھ 90ہزار روپے ہے لی گئیں ۔ رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریٹائرڈ ڈاکٹر نواز علی گورائیہ کی بھرتی کی گئی اور ایک لاکھ 50ہزار روپے ماہوار تنخواہ مقرر کی گئی۔ ڈاکٹر نواز کو ملنے والی 18لاکھ 35ہزار روپے کی تنخواہ بھی بے قاعدگی پائی گئی ۔آڈٹ میں سامنے آیا کہ کمپنی نے ظفراﷲ خان خاکوانی لیگل فرم کی خدمات حاصل کیں اور 11لاکھ 13ہزار روپے ادا کئے حالانہ کمپنی کیلئے منیجر لیگل بھرتی کیا گیا تھا کہ جس کو اڑھائی لاکھ روپے تنخواہ بھی دی جاتی رہی ۔کمپنی کی جانب سے 53اے جی او آر ٹو میں ایک کوٹھی کرائے پر لی گئی اور کمپنی نے 33لاکھ 17ہزار روپے اسکی تزئین آرائش پر خرچ کر دیئے ۔اسی طرح 19کروڑ34لاکھ 24ہزار995روپے مالیت کے اثاثہ جات کا ریکارڈ بیلنس شیٹ میں ظاہر کیا گیا لیکن اس حوالے سے جب کمپنی انتظامیہ سے سٹاک رجسٹرطلب کیا گیا تو وہ آڈیٹرز کو فراہم ہی نہیں کیا گیا جس سے اتنی مالیت کے اثاثوں کی موجودگی مشکوک قرار دی گئی ہے ۔