اسلام آباد(خبرنگار) عدالت عظمیٰ نے ایف بی آر کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایف بی آرکے کمپنی سے معاہدے کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے ٹیکس ڈیٹا پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ شیئر کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انتہائی حساس ڈیٹا نجی کمپنی کو کیسے دیدیا گیا؟ کیا ایف بی آر ٹیکس بھی جمع کرنے کا کام نجی کمپنی کو ہی دیتا ہے ؟ اٹارنی جنرل نے کہاپرال نامی کمپنی نجی نہیں پبلک لمیٹڈ ہے ۔ جسٹس اعجا زالاحسن نے ریما رکس دیئے من پسند افراد کو کمپنی میں نوازنے پر تشویش ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا ایف بی آر افسران کے پورے پورے خاندان اس کمپنی میں ملازم ہیں،پرال کمپنی کو ختم کرکے نیب کو تحقیقات کا کہہ دیتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکوئی سرکاری افسر پرال کمپنی سے تنخواہ نہیں لے رہا، کمپنی کا کام صرف سافٹ ویئر بنانا ہے ، ٹیکس اعدادوشمار اکٹھے کرنا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ایف بی آر والے اپنا آئی ٹی سسٹم کیوں نہیں بناتے ؟ ،ایف بی آر کو پرال کے قیام سے کیا فائدہ ہوا؟، ایف بی آر افسران آن لائن پاسورڈز کیساتھ جو کھیل کھیلتے ہیں معلوم ہے ، بلاوجہ اربوں روپے کے ٹیکس ری فنڈ جاری کئے جاتے ہیں، آن لائن سسٹم سے بھی دو نمبری ہی ہونی تو اس کا کیا فائدہ؟ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکمپنیاں بنانے کا مقصد صرف زیادہ تنخواہیں دینا ہے ، حکومت جو کام کمپنیوں سے کراتی ہے وہ خود کیوں نہیں کرتی؟ پنجاب میں بھی 56 کمپنیاں بنائی گئی ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاپرال کمپنی کا منافع کس کو جاتا ہے ؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا منافع حکومت کو جاتا ہے ۔ ادھر سپریم کورٹ نے گیس سیس کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ وکلا15روز میں معروضات تحریری طور پر جمع کرا سکتے ہیں۔ دریں اثنا عدالت عظمیٰ نے ارشد محمود ملک کو ایئر مارشل اور چیئر مین پی آئی اے کے عہدوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کا موقع دیتے ہوئے آبزرویشن دی کہ بیک وقت دو سرکاری عہدوں پر مستقل تعیناتی غیر قانونی ہے ۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پی آئی اے سربراہ کی تعیناتی کیس کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کرکے قرار دیا پی آئی اے کو عارضی نہیں مستقل سربراہ کی ضرورت ہے ، عارضی تعیناتی حکومت کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے ۔چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے سب کچھ ایڈہاک ازم پر چل رہا ہے کچھ تبدیل نہیں ہوا،سی ڈی اے کا چیئر مین بھی قائم مقام لگایا ہوا ہے ۔عدالت نے پی آئی اے کے گمشدہ جہاز کے بارے میں رپورٹ پر عدم اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے مسترد کردی۔ نیب کے وکیل نے کہا پی آئی اے بورڈ نے عدالت کو اس بارے مکمل حقائق نہیں بتائے ،تحقیقات جاری ہیں عدالت مزید وقت دے ۔ چیف جسٹس نے کہا نیب کو صرف وقت ہی چاہیے ہوتا ہے ، تحقیقات جاری رکھے ۔پی آئی اے کے لوگوں کیساتھ کیا معلوم کونسی فلم شوٹ ہوئی ہوگی، فلم بنانے والی کمپنی اسرائیلی ہونا بہت سنجیدہ بات ہے ۔چیف جسٹس نے کہا پی آئی اے نے اپنا ایک جہاز ہی بھجوا دیا، مزید چار جہاز بھی گرائونڈ کئے ہیں،بقیہ تین جہاز کہاں فروخت ہوئے کچھ معلوم نہیں،کیا کھول کر کباڑ خانے میں تو نہیں دے دیئے ،کیا ایسے حالات میں موجودہ انتظامیہ کو کام کرنے دیں؟، ایک سابق وزیراعظم اپنے علاج کیلئے جہاز کو لندن لے گئے ،پی آئی اے کا جہاز انکے علاج تک لندن کھڑا رہا،،ہم نے جانا ہو تو جہاز ملتا ہے نہ ٹکٹ۔