ایک نابینا سردار جی جو امریکہ میں رہتے تھے، ان کے سونگھنے کی حس باکمال تھی۔ یار دوست انہیں جو بھی مشروب گلاس میں ڈال کر پیش کرتے سردار جی سونگھ کر اعلان کردیتے۔ فلاں کمپنی دا اے، فلاں برانڈ دا اے۔ ان کے مسلسل مشروبی تجزیوں نے یار دوستوں کو مجبور کردیاکہ وہ کوئی ایسا ’’شغل‘‘ کریں کہ سردار جی زچ ہوجائیں۔ تین چار مختلف کمپنیوں کے برانڈ مکس کرکے گلاس میں ڈالے گئے اور سردار جی کو پیش کردیئے گئے۔ سردار جی نے سونگھا اور بار بار سونگھتے چلے گئے۔ زچ ہوگئے۔ منہ بنا کر کہنے لگے ’’اے تے نئی پتہ لگدا کہ کمپنی کیہڑی اے، پر اے کمپنی زیادہ چلے گی نئیں‘‘۔ عمران خان اینڈ کمپنی کی حکومت کتنی دور تک اور کتنی دیر تک چلے گی یہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون یا مولانا فضل الرحمن کے بس کی بات نہیں۔ ہاں البتہ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور یہ دے سکتے ہیں۔ وجہ؟ ملک کے اندر فیصلہ کرنے والے پاکستان کا امریکہ پر انحصار ختم کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان کے موثر حلقوں نے پاک چین دوستی اور سی پیک کا ڈول ڈالا۔ فرنٹ پر تو سیاسی حکومتوں نے ہی کھیلنا تھا۔ ان حکومتوں نے اس کے اندر مزید ’’ڈیلز‘‘ میں اپنے اپنے کمال اور جمال ڈال دیئے۔ چینی کافی ہوشیار ہیں۔ وہ معترض نہ ہوئے۔ سی پیک پر میڈیا نے بھی خوب چرچے کیے اور اسے گیم چینجر قرار دے دیا۔ بات یوں تھی کہ پاکستان ہمیشہ سے امریکہ کے قریب رہا ہے۔ معاشی، دفاعی اور دیگر معاملات میں۔ اس گہرے اثر کو کیسے کم کیا جائے اس پر اسٹیبلشمنٹ نے سوچ بچار شروع کردیا۔ طے یہ پایا کہ ابھرتے ہوئے چین سے قربت بڑھائی جائے۔ ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری دوستی کے مزید باب لکھے جائیں۔ سی پیک کو بطور ’’گیم چینجر‘‘ ہر پلیٹ فارم پر پیش کیا جانے لگا۔ پاکستان میں مگر ایسے دانشور اور تھنک ٹینک موجود تھے جو اس پر شدید تحفظات رکھتے تھے۔ چینیوں کا ایک قومی مزاج ہے جو رفتہ رفتہ کھل رہا ہے۔ اگر ہم 2006ء سے اب تک کا ٹریڈ ریکارڈ اور ادائیگیوں کا توازن دیکھیں تو پاک چین دوستی میں چائنہ کی ایکسپورٹ زیادہ ہیں اور پاکستان کی ایکسپورٹ چین کو چوتھا حصہ بھی نہیں۔ یہ عدم توازن ڈالروں میں جائے اور بات بہت دور تک جاتی ہے۔ ہم جس خطے میں رہتے ہیں اس میں تین عدد ملک ہمارے پڑوسی واقع ہوئے ہیں۔ ایران، افغانستان اور انڈیا۔ افغانستان میں امریکہ بذات خود اور اس کے گہرے مفادات موجود ہیں۔ بھارت اور امریکہ بمعہ اسرائیل سٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ امریکہ اور انڈیا کے لیے پاکستان اور چین کی بڑھتی ہوئی قربت بہت زیادہ تشویشناک ہے۔ ہمارے موثر ادارے سفارتی محاذ پر ایک نازک سا کھیل کھیل رہے تھے۔ امریکہ کو اپنا مخالف کیے بغیر چین سے قربت بڑھائی جائے۔ جب تک امریکہ میں اوبامہ تھے یہ نازک سا سفارتی اور دفاعی کھیل آگے بڑھتا رہا۔ ٹرمپ انتہا پسند ہے۔ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہر حد تک جانے کا قائل ہے۔ ایران کے ساتھ امریکہ کی حالیہ کشیدگی جس شو ڈائون کی طرف بڑھ رہی ہے اس کی تپش پاکستان میں جلد ہی محسوس ہونا شروع ہوجائے گی۔ ہماری فارن پالیسی مزید دبائو کا شکار ہوجائے گی۔ گئی رتوں میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ وہی لائن ٹوہ کرتی تھی جو گلوبل اسٹیبلشمنٹ کی ہوتی تھی۔ پاکستان میں رفتہ رفتہ فیصلہ ساز حلقوں میں قومی اپروچ ابھری۔ امریکہ پر انحصار کم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ متبادل Options پر برین سٹارمنگ ہوئی۔ نئے سفارتی در کھولے گئے۔ خارجہ پالیسی میں لچک اور Creativity پیدا کرنے کی کوشش ہوئی۔ پاک امریکہ تعلقات کے ماضی قریب کے اتار چڑھائو دیکھیں تو بات بڑی آسانی سے سمجھ آجاتی ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف زرداری کی کرپشن جب پاکستان کی معاشی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی تو ’’ایمپائرز ‘‘ حرکت میں آگئے۔ اس وقت داخلی طور پر دونوں ہی ایک پیج پر ہیں۔ سر آئینہ بھی اور پس آئینہ بھی۔ مگر کمپنی کی حکومت کے نہ چلنے کی وجہ اس مرتبہ کچھ اور ہوگی۔ ماڈرن وارز میں دبائو جنگی نہیں معاشی ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک یہ سب ادارے امریکہ کی فارن پالیسی کو آگے بڑھانے کے ذرائع ہیں۔ پاکستان کو صرف چھ ارب ڈالر لینے کے لیے اتنے پاپڑ کیوں بیلنے پڑے؟ پاکستانی روپے کی قدر مسلسل کیوں گر رہی ہے؟ ہم نے امریکہ، چین، سعودی وعرب، متحدہ عرب امارات اور ڈونر اداروں سے بے تحاشا قرض لیے مگر ادھر پیسہ آتا تھا ادھر باہر چلا جاتا تھا۔ اب عمران خان وہی کچھ کر رہے ہیں جو جو انہیں کہا جارہا ہے۔ اسد عمر، حفیظ شیخ، شبر رضوی اور سٹیٹ بینک کے گورنر اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آئی ایم ایف پیکیج اور ایمنسٹی سکیم کے باوجود بات نہیں بن پارہی۔ ایسے میں کمپنی کی حکومت دسمبر کے آس پاس بند ہوسکتی ہے۔ مگر اس کی وجہ پیپلز پارٹی، شریفس یا مولانا نہ ہوں گے بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ، اور کہیں اور ہوں گی۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنت اس وقت ٹرمپ اور امریکہ کے حربوں سے خاصے دبائو میں ہے۔ اس وقت کھیل کا میدان وہی خطہ ہے جس میں پاکستان واقع ہے۔ پاکستان کی اکانومی جس شدید دبائو میں ہے اس کی وجہ ہمارے کرپٹ حکمران طبقات ہیں۔ مگر ان میں سے کچھ طبقات اس قدر متبرک اور مقدس ہیں کہ ایمنسٹی سکیم سے بھی وہ باہر ہیں۔ اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ حکومت سب کچھ مان کر بھی ہار جائے گی اور پچھلے بیس سال کے پبلک آفس ہولڈرز پھر جیت جائیں گے۔ پہلے عوام ہاریں گے، پھر حکومت ہارے گی۔ وہی کمپنیاں اور برانڈ جیتیں گے جو ہمیشہ سے جیت رہے ہیں۔ بیچارے سیاستدان ابھی کچھ عرصہ کے بعد ڈوبنے والے بحری جہاز سے پھدک پھدک کر جائے پناہ گاہ کی طرف بھاگیں گے۔ اگلی جائے پناہ کون سی ہوگی؟ دیکھئے … انتظار کیجئے۔ جب صرف پی ٹی وی تھا اس دور میں اطہر شاہ خان عرف جیدی کا ایک سیریل چلا کرتا تھا … ’’انتظار فرمائیے‘‘۔ بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں ویسٹرن صحافی کرسٹنا لیمب پاکستان آئی ، فوجی جرنیلوں سے ملی، سیاستدانوں سے ملی، بیوروکریسی سے ملی اور پھر عام انسانوں سے ملی۔ کہنے لگی کہ یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں ہر شخص انتظار کر رہا ہے۔ کسی ہونی کا… یا انہونی کا۔ اس کی کتاب کا نام تھا Waiting for Allah۔