میں نہیں جانتا کہ اب وہ بچہ کہاںہوگا ،اگر وہ لہو میں لتھڑی جنت ارضی کو تقسیم کرنے والی خونیں لکیر پھر سے عبور کر گیا، توغالب گمان یہی ہے کہ اس کے کسی گوشے میں کہیں سینے پر زخموں کے کبھی نہ مرجھانے والے پھول لئے ابدی نیند سو رہا ہوگا، یہ 1998ء کی بات ہے جب کراچی کے صحافیوں کا ایک وفد جماعت اسلامی کے اجتماع عام میں شرکت کے لئے کراچی سے اسلام آباد پہنچاتھا اورپھر یہاں سے اسی مقبوضہ جنت ارضی کی جانب روانہ ہوا،اس وفد کے شرکاء میں اس وقت کے نوجوان اور نوآمیز صحافیوں میں یہ خاکسار بھی تھا،اس وفد کا مقصد تحریک آزادیء کشمیرسے متعلق آگاہی تھی،جماعت اسلامی کے اجتماع سے فراغت کے بعدہم نے تاخیر کرنا مناسب نہ جانا اور منزل کی جانب بڑھ گئے،دو تین روز کا دورہ تھا جس میں ہم وادی ء نیلم بھی گئے اور ان خانماں بربادوں سے جا کر ملے جو لائن آف کنٹرول عبور کرکے پاکستان پہنچے تھے، اس دورے میں ہم چکوٹھی تک گئے اور ان ٹوٹی پھوٹی ادھڑی ہوئی دیواروں کو بھی دیکھا جنہیں بھارتی گنز نے ادھیڑ ڈالا تھا اسی دورے میں رات گئے ہم حزب المجاہدین کے کیمپ پہنچے اکتوبر کے دن تھے، ابھی کڑاکے کی سردی پڑنا شروع نہیں ہوئی تھی لیکن کراچی والوں کے لئے شروع شروع کی یہ سردی ہی بہت تھی ہم گھپ اندھیرے میں حزب المجاہدین کے کیمپ میں پہنچے اور یہیں میری ملاقات اس نیلی آنکھوں والے لڑکے سے ہوئی جس کی عمر بمشکل گیارہ بارہ برس رہی ہوگی اس کے چہرے پر چھائی سنجیدگی اسکی معصومیت سے لگا نہیں کھاتی تھی میری نظریں بار بار اسکے چہرے کا طواف کرتیں اور ذہن میں سوال سر اٹھاتا کہ یہ لڑکا یہاں کیا کررہا ہے ،آخرکار مجھ سے رہا نہ گیااور میں نے اقبال کے شاہینوں سے پوچھ ہی لیا،اس نے اس لڑکے کی طرف دیکھا اور کسی بھلے سے نام سے مخاطب کرتے ہوئے، کشمیری زبان میں کچھ کہا جواب میں اس لڑکے کی نظریں مجھ پر آرکیں ،ہمارے میزبان نے مجھ سے کہا آپ خود ہی پوچھ لیں یہ یہاں کیا کررہا ہے ؟ میں نے یہ سوال لے کر اسکی جانب دیکھا تو اس نے اداس سی مسکراہٹ کے ساتھ پہلو بدلا اور کہنے لگا ’’میں سری نگر سے ہوں ۔۔۔‘‘ اس مختصر سے جملے کے بعد وہ چپ ہو گیا اور پھر تھوڑی دیر بعد جب تعارفی نشست میں اس لڑکے نے بولنا شروع کیا تو ہم سب جیسے بولنا بھول گئے کراچی کے وہ گھاگ صحافی جو کسی بڑے سے بڑے کے رعب میں نہیں آتے تھے جن کی زبان لائن آف کنٹرول کے کسی مورچے میں لگی مشین گنز کی طرح ہر وقت تیاری کی حالت میں رہتی تھیں وہ سب چپ تھے اور اس بڑے سے کمرے میں ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی اور وہ تھی اس نوعمر لڑکے کی ۔ وہ بتا رہا تھا’’میں اسکول سے گھر آیا ناں تو بستہ رکھتے ہی کھیلنے چلا گیا، میرے دوست سامنے سڑک پر کھیل رہے تھے میری امی نے پیچھے آوازیں دیں لیکن میں نے پیچھے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا اور دوستوں کے پاس چلا گیا ہم درختوں پر پرندوں کے گھونسلے تلاش کر رہے تھے کبھی کسی درخت پر جاتے اور کبھی کسی دوسرے پر،کھیل کھیل میں شام کا وقت ہوا تو گھر کو بھاگے ابھی گھر کے قریب ہی تھے کہ فوجی جیپوں کی آواز سنائی دی ہم سمجھ گئے کہ انڈین فوج نے کارڈن آف کرنے آرہی ہے اور ایسا ہی ہوا،انڈین فوج کسی کی مخبری پر ہمارے علاقے میں آچکی تھی وہ گھر گھر تلاشی لے رہی تھی انہیں اطلاع ملی تھی کہ یہاں کچھ مجاہدین نے پناہ لی ہوئی ہے وہ ہمارے گھر میں بھی گھسے اور والد صاحب سے بدتمیزی کرنے لگے میرے بڑے بھائی سے برداشت نہیں ہوا وہ والد صاحب کے سامنے آگیا کہ جو بات کرنی ہے مجھے سے کرو اس فوجی افسر نے یہ دیکھا تو میرے بھائی کے بجائے میرے والد کو تھپڑ مار دیا میرا بھائی آگے بڑھا تو اسے فوجیوں نے پکڑ لیا وہ میرے بھائی کو کچھ نہیں کہہ رہے تھے بس اسکے سامنے میرے والد کو مار رہے تھے اور یہی بہت تکلیف اذیت تھی میرے والدہ آگے بڑھیں انہوں نے ان پر بھی ہاتھ اٹھادیا،پھر سب کو مار دیا میں ڈر کر تندور میں چھپ گیا تھا اس لئے بچ گیا،فوجیوں نے گھر سے نکلنے کے بعد گھر کوآگ لگادی تھی موقع دیکھ کر میں تندور سے نکلا اور پھر جنگل کی طرف بھاگ گیا‘‘۔اس لڑکے نے بتایا کہ وہ ساری رات روتا رہا اورچلتا رہا صبح ہوئی تو اسے کچھ پتہ نہ تھا کہ وہ کہاں ہے وہیں اسکی ملاقات مجاہدین سے ہوئی اور وہ ان کے ہمراہ خونیں لکیر عبور کر کے اپنے خوابوں کی دھرتی پر پہنچ گیا اس لڑکے کا کہنا تھا کہ اب وہ ان فوجیوں سے بدلہ لے لگا، ان کا مقابلہ کرے گا اور انہیں اسی راستے سے واپس بھیجے گا جہاں سے یہ کشمیر میں داخل ہوئے ۔ مجھے نہیں علم کے وہ کشمیری حریت پسند اب کہاں ہوگا مقبوضہ کشمیر میں گوریلا جنگ لڑنے والی کی عمر چھ ماہ بتائی جاتی ہے، اس ملاقات کو تو بیس برس ہونے کو ہیں ان بیس برسوں میں جانے کتنی نیلی اور بادامی آنکھوں والے بچوں کو یتیمی کا دکھ سہنا پڑا ہوگااور جانے کتنے برہان وانی بنے ہوں گے مجھے خبر نہیں لیکن میں نے تب ہی اس وقت کے ’’برہان وانی ‘‘کی آنکھوں میں پڑھ لیا تھا کہ اب یہ مشعلیں بجھنے والی نہیں بھارتی فوجیوں کو مودی کی جنونی حکومت نے مکمل کھل کھیلنے کا موقع دے رکھا ہے ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں لیکن یہاں بھی ہمت کی کمی نہیں ،آزادی کا قافلہ رک رہا ہے نہ شہادتوں کا سلسلہ، سری نگرکے باٹامولہ میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ایک خاتون سمیت پانچ افراد کی شہادت نے شہداکے قبرستان میں مزید پانچ قبروں کا اضافہ کردیا ہے، ان شہادتوں کو 1989ء سے ہونے والی شہادتوں سے جوڑا جائے تواس وقت تک 95670کشمیری شہید ہوچکے ہیں 22918خواتین بیوہ اور107798بچے یتیم ہوچکے ہیں مجھے مہذب ملکوں سے شکوہ نہیں،ان لوگوں سے گلہ نہیں جو کتوں اور بلیوں کے حقوق کے لئے ریلیاں نکالتے ہیں میں تو حیران ہوں کہ کشمیر میں یہ بہتا لہو کلمہ گو عربوں کو دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات قائم کر رہے ہیں کہ اب امن کی بات ہونی چاہئے بہت خون بہہ چکا،سوال ہے کہ کشمیر میں بہنے والا لہو لہو نہیں ؟ اسے لہو کا درجہ اور عالم اسلام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کتنا بہنا ہوگا؟ دریائے جہلم کو کتنی لاشیں بہا کر لانی ہوں گی !!!