14فروری 2020ء جمعہ کی صبح گیارہ بجے پاکستان کی قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر جناب رجب طیب اردوان نے کشمیرپر کھل کر بات کرتے ہوئے اہل کشمیرکے مسئلہ حق خودارادیت پرترکی کے دو ٹوک حمایت کااعلان کرتے ہوئے کہاکہ کشمیر ترکی کے لئے ایسا ہی ہے جیسا پاکستان کے لئے ہے۔ترک صدر نے بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو کشمیری بھائیوں کی تکلیف میں اضافے کا موجب قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل جبری پالیسیوں سے نہیں بلکہ انصاف سے ممکن ہے۔ انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ ترکی کے نزدیک کشمیر کی حیثیت’’چناکلے ‘‘جیسی ہے ۔ جناب اردوان کاکہناتھاکہ کل ہمارے لئے چنا کلے کامسئلہ درپیش تھا اور آج کشمیرہمارے لئے چنا کلے ہے، کوئی فرق نہیں ہے ان میں۔ ’’ چنا کلے‘‘ کا ایک مطلب خوبصورت شہر بھی ہے، چناکلے ترکی کا وہ مقام ہے جہاں موجودہ ترکی نے 1916ء میں آزادی کی فیصلہ کن جنگ جیتی تھی۔ اس جنگ میں ہزاروں ترک فوجی شہیدہوگئے تھے۔جنگ عظیم اول کے دوران گیلی پولی ایک عظیم جنگ کا میدان بنا جو ’’جنگ گیلی پولی‘‘کہلاتی ہے۔ یہ جنگ برطانیہ میں ’’درہ دانیال مہم‘‘اور ترکی میں ’’جنگ چناکلی‘‘کے نام سے جانی جاتی ہے۔ گیلی پولی یورپی ترکی میں استنبول سے جنوب میں واقع ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقا اور نیو فانڈ لینڈ میں آج بھی گیلی پولی کی اصطلاح 8 ماہ کی اس مہم کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ جنگ کے دوران 25 اپریل 1915 ء کو برطانوی اور فرانسیسی دستے جزیرہ نما پر اترے اور اگلے8 ماہ تک یہ علاقہ میدان جنگ بنا رہا جس کے دوران دونوں جانب بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ تاہم فتح سلطنت عثمانیہ کی رہی اور برطانیہ اور فرانس کو پسپا ہونا پڑا۔ مجموعی طور پرصلیبی اتحادی قوتوںکے ایک لاکھ چالیس ہزاراہلکارہلاک ہوئے جبکہ سلطنت عثمانیہ کی اڑھائی لاکھ سپاہیوں کی شہادتیں واقع ہوئیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں آج بھی 25اپریل کو( ANZAC Day)کے طور پر منایا جاتا ہے۔جنگ چناکلے میں اتحادیوں کا حملہ ترکوں نے بے مثل مزاحمت اور شجاعت سے روک دیا اور صلیبی اتحادیوں کو بہت سارار نقصان اٹھا کر 9جنوری 1916 ء کو گیلی پولی سے نکلنا پڑا۔ اس فتح نے ترکوں کے حوصلے بلند کر دیے۔ چرچل کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا برطانوی وزیر اعظم ایسکویتھ کو بھی اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔لیکن بعد میں المیہ یہ ہواکہ برطانیہ نے اس ہاری ہوئی جنگ کولارنس آف عربیہ کے ذریعے سرزمین حجازکے ہاشمی خاندان کے سردار سید حسین بن علی’’ شریف مکہ‘‘ کی مدد سے اپنی فتح میں بدلا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صدر اردوان نے مسئلہ کشمیر پر کبھی کسی تعلق یا مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا۔ترک صدرجناب طیب اردوان ان عالمی لیڈروں میں سے ہیں جنہوں نے عالمی فورمز پر ہمیشہ اسلامیان کشمیرکے غموں اورالموں کااظہارکیا اور انکے موقف کی کھل کرحمایت کی ہے۔انہوںنے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور مختلف بین الاقوامی اداروں میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ اس سلسلے میں بھارت کی ناراضگی کی بھی کبھی پروا نہیں کی۔5اگست 2019ء کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پراٹھائے گئے اقدام کی بھی ترک صدر نے کھل کر مخالفت کی تھی۔ انہوں نے 2019ء میں اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر پر کھل کربات کی اور کہا کہ جنوبی ایشیا میں استحکام و خوشحالی کو مسئلہ کشمیر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ترکی نے کشمیر پر عالمی کانفرنس کا انعقاد کرکے دیگر ممالک کے لیے مثال قائم کردی۔گذشتہ ماہ ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں ترک تھنک ٹینک کے اشتراک سے لاہور سینٹر فار پیس ریسرچ کی کشمیرپردو روزہ عالمی کشمیر کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں 25ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔اس کانفرنس میں شریک مندوبین کاکہناتھاکہ بھارت کے ریاستی مظالم نے مسئلہ کشمیر کو سنگین عالمی مسئلہ بنادیا ہے، مقبوضہ وادی میں قید لاکھوں کشمیری عالمی امن کے لیے خطرے کی وارننگ دے رہے ہیں۔ انقرہ میں جاری 25 ممالک کی نمائندگی پر مشتمل کانفرنس میں 90لاکھ سے زائد کشمیریوں پر بھارتی ریاستی مظالم کو انسانیت اورعالمی امن کے لیے سنگین خطرہ قراردیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فوری حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ بہرکیف !جناب اردوان نے پاکستان کی قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہم یہ بات کبھی نہیں بھلاسکتے کہ جب سلطنت عثمانیہ مغربی اتحادیوں کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا تو برصغیر کے مسلمانوں نے عطیات بھیجے۔دراصل وہ اس اخوت اسلامی کویاددلاتے تھے کہ جس کابھرپوراحساس ان کے قلب وجگرمیں موجزن ہے اوراسی کی کرشمہ سازی ہے کہ وہ ارض فلسطین پر اسرائیل کے جبری قبضے اورسرزمین کشمیر پربھارت کے جبری تسلط کے خلاف ہرعالمی فورم پرخم ٹھونک کربولتے ہیںاور وہ فلسطین اور کشمیر کے معاملے پر امہ کے اتفاق رائے کے خواہاں ہیں۔ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ عالم اسلام کے درمیان اخوت و محبت کا رشتہ پھرسے قائم ہو اوران کے مابین تعلقات ایسے ہوں کہ ان کے درمیان پائی جانے والی جغرافیائی تقسیم محض لکیریں ہوں نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف دشمنوں جیسی سرحدیں۔ تاکہ مملکتی و ریاستی تعلقات میں ہرشعبے میں نشو ونما پاجائے اورانکے مابین اسلامی، دینی، سیاسی، تاریخی، ثقافتی اورمعاشی تعلقات بتدریج فروغ پاجائیں تاکہ وہ مل کر اعدائے اسلام کامقابلہ کرسکیں اورکشمیر، فلسطین اور قبرص کے مظلوم مسلمانوں کو سامراجیت کی غلامی سے نکال باہرلاسکیں۔