کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ یہ پاکستان کی آبی اور تجارتی گزر گاہ بھی ہے۔اسی لئے مسئلہ کشمیر پاکستان کے لئے زندگی اور موت جیسی اہمیت رکھتا ہے۔ پنجاب کے پانچ دریا مقبوضہ کشمیر سے نکلتے ہیں جبکہ مرکزی دریا افغانستان سے براستہ گلگت بلتستان پاکستان میں داخل ہوتا ہے جبکہ عالمی قوتوں نے پاکستانی مقتدر اشرافیہ کی مدد سے افغانستان پر حملہ کیا اور بگرام میں مضبوط عسکری‘ سیاسی اور تجارتی اڈہ بنا لیا ہے۔ مذکورہ عالمی اڈے کے قیام سے عالمی قوتوں نے افغانستان سے آنے والی آبی راستے پر اپنا تسلط جما لیا ہے اس طرح پاکستان کے سارے آبی راستے بھارت اور عالمی قوتوں(یعنی ہنود و یہود اور صلیبی) کے تصرف میں ہیں۔ بھارت اور عالمی قوتیں پاکستان کو سیلابی ریلے میں بہا نے کے دعوے کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان اور چین کا زمینی رابطہ براستہ گلگت و بلتستان یعنی کشمیر کے ذریعے ہے۔ کشمیر سی پیک کی عالمی تجارتی راہداری کا مرکز اور منبع ہے۔ گو گلگت و بلتستان پاکستان کا حصہ ہیں جسے بانی پاکستان قائد اعظم کی کشمیر جہاد پالیسی کے ذریعے بھارت اور برطانیہ سے آزاد کرایا گیا تھا مگر قائد اعظم کی وفات کی صورت میں پاکستان کو ایک قومی صدمہ برداشت کرنا پڑا اور قادیانی وزیر خارجہ سرظفر اللہ خان نے گلگت و بلتستان اور آزاد کشمیرکو پاکستان کا باضابطہ حصہ بنانے کے بجائے برطانوی و بھارتی ایما کے مطابق اقوام متحدہ کی سرکردگی میں متنازع بنائے رکھا۔ گو صدر ضیاء الحق نے گلگت و بلتستان کو آئینی طور پر پاکستان کا حصہ بنایا مگر بہاولپور فضائی سازش (17اگست 1988ئ) کے بعد بھارت اور برطانیہ کی ایما پر ان کے حلیف ایجنٹ نے مظفر آباد کی ہائیکورٹ سے گلگت و بلتستان کو وادی کشمیر سے منسلک کر کے خطے کی متنازع تاریخ سے وابستہ رکھنے کی عدالتی جستجو کی کامیاب کوشش کی۔ اگر گلگت و بلتستان پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا تو پاکستان کا چین سے ز مینی رابطہ ختم ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ عالمی قوتوں اور اداروں نے گلگت و بلتستان میں ملحد قوت کی خطے میں سرپرستی کر رکھی ہے جس نے خطے کی مذہبی سماجی‘ اخلاقی و معاشی راہ بندی کر رکھی ہے۔ بھارت کا مقبوضہ کشمیر سے واحد زمینی رابطہ تقسیم ہند کے وقت مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور کے ذریعے تھا۔ ضلع گورداسپور کی ایک تحصیل قادیاں ہے جس نے تقسیم ہند کے وقت اپنی مرتد مسلم کمیونٹی کو علیحدہ اور جدا کر کے ضلع گورداسپور کو مسلم اقلیتی ضلع منظور کرایا جبکہ پاکستان کے وزیر خارجہ سرظفر اللہ قادیانی اور ریڈ کلف ایوارڈ میں دو نام نہاد مسلمان جج تھے جن کا تعلق بھی قادیان تحریک سے تھا۔ یاد رہے کہ کشمیر میں قادیانی تحریک کی تاریخ ایک صدی سے زیادہ عرصے کو محیط ہے۔ حکیم نور الدین کشمیر کے ڈوگرہ راجوں کا شاہی طبیب تھا جس کے ماتحت متحدہ کشمیر کے تمام علمی و طبی ادارے تھے۔ اس وقت قادیانی تحریک کا اولین ہدف اپنے آپ کو پاکستان کی غیر مسلم اقلیت قرار دینا ہے تاکہ قومیتی ریاست Nation stateکی بنیاد پر مقبوضہ و آزاد کشمیر میں ایک آزاد قادیانی ریاست کی بنیاد رکھی جائے۔ ہیں کواکب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ دریں حالات بگرام(افغانستان) کے پہاڑوں سے چلنے والی سیاسی و تجارتی راہداری براستہ قادیان بھارتی پنجاب اور ہما چل صوبوں کے مشترکہ صوبائی دارالحکومت چندی گڑھ تک بغیر رکاوٹ پہنچتی ہے۔ جو پاکستان اور کسی حد تک بھارت کی جغرافیائی شکست و ریخت سے جنم لیتی ہے۔ کارگل کا راستہ گلگت سے براستہ مقبوضہ کشمیر چندی گڑھ تک جاتا ہے۔جہاں بھاری ٹریفک کے لئے موٹر وے مکمل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر بھارت ‘امریکی‘ اسرائیلی اور برطانوی اشرافیہ یا مافیا ایک پیج پر ہیں جبکہ ریاست ایک پیج پر نہیں ہے۔ مذکورہ عالمی طا قتوں ،اداروں اور بھارتی مقتدر مافیا کی سازباز نے مسئلہ کشمیر پر خفیہ سفارتکاری اور مذاکرات کو جنم دیا ہے جس کی تصدیق عالمی میڈیا کے اداروں اور متحدہ عرب امارات کے نمائندے کر رہے ہیں۔ خفیہ سفارتکاری Backdoor Deplomacy مذاکرات مفاہمت اور عالمی ثالثی کھلی حقیقت (open secret) ہے خفیہ سفارتکاری کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب خطے کے عوام سے حقیقت چھپائی جائے ار تمام فریقوں کی عوامی تمنا و آشا) سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر خفیہ سفارتکاری کی تاریخ بھی نئی نہیں ہے۔ مذکورہ پالیسی کے اعلانیہ عندیے سے پہلے بھی مختلف حیلے حربوں سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی اسلام آباد آئے تو اسلام آباد میں کشمیر ہائی وے کے سائن بورڈز اتار دیے گئے اور اب کشمیر ہائی وے کا نام سریگنر ہائی وے رکھ دیا گیا ہے۔’’عالمی ثالثی کی آشا ‘‘ بھی نئی کہانی نہیں۔ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے دور ثالث کے پہلے یوم پاکستان (14اگست) کی سرکاری تقریب میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل(غالباً کوفی عنان) نے شرکت کی اور کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت چاہیں تو اقوام متحدہ کا ادارہ کشمیر پر ثالثی کے لئے تیارہے یہ بات آگے نہیں چلی مگر امریکی صدر ٹرمپ نے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نیازی کے پہلے امریکی سرکاری دورے میں امریکی ثالثی کی آفر کی جو آج دوبئی میں ہونے والے پاک بھارت خفیہ مذاکرات کا پیش خیمہ ہے۔ مسئلہ کشمیر اتنا سادہ نہیں جیسا نظر آتا ہے۔یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔پاکستان کی سلامتی‘ سکون خوشی اور خوشحالی قائد اعظم کے نظریاتی موقف کی استقامت پر منحصر ہے۔ تحریک پاکستان کے اہم موڑ پر کانگرس اور برطانوی سرکار نے قائد اعظم سے پوشیدہ یعنی خفیہ لیاقت ڈیسائی مذاکراتی مکالمہ کرایا جب لیاقت علی خان نے حصول پاکستان پر کمزور موقف اپنایا تو کانگرس نے برطانوی اشیر باد کے تحت مسلمانوں کے جداگانہ تشخص پر حملہ کیا جس سے اختلاف بڑھے اور لیاقت‘ڈیسائی خفیہ مذاکرات کا بھانڈا پھوٹا۔ خفیہ مذاکرات اور مکالمہ کا راز افشا ہونے پر قائد اعظم نے لیاقت علی خان کو کہا کہ اگر تمہیں اپنے موقف کی سچائی اور حقانیت پر یقین ہے تو نظریاتی استقامت دکھائو وگرنہ دشمن تمہارے پائوں کی زمین بھی نکال دے گا۔وانتم الاعلون ان کنتم مومنین۔