وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے کہا ہے کہ ہم نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ وہ عاصمہ جہانگیر مرحومہ کی یاد میں سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ سیمینار میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں‘ سینئر صحافیوں اور سیاسی رہنمائوں نے خطاب کیا اور عدلیہ کی آزادی‘ آئین کی بالادستی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے مرحومہ کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔کانفرنس میں صحافیوں کے تحفظ کے عالمی ادارے کے مندوب سیٹو بٹلر بھی آئے تھے لیکن حکومت نے انہیں لاہور ایئر پورٹ پر ہی روک لیا اور پھر ملک بدر کر دیا۔ سیٹو بٹلر نے پاکستان میں صحافت پرپابندیوں کے خلاف کچھ عرصہ پہلے بیان دیا تھا شاید حکومت کو ان کے لاہور ایئر پورٹ پر اترنے کے بعد اس بیان کا پتہ چلا۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کی بات بڑی حد تک درست ہے۔ لیکن شاید وہ نظر اندازکر گئے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش 1999ء میں ہوئی تھی جسے جنرل پرویز مشرف نے کارگل ایڈونچر کرکے غیر سنجیدہ بنا دیا جس کے بعد‘ بظاہر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا سنہری مگر آخری موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ اب ہمارے ہاتھ میں محض اس مسئلے کا ڈھول ہے‘ جتنا چاہے بجاتے رہیں۔ فاروق حیدر باخبر افراد میں سے ایک ہیں اور جانتے ہیں کہ مسئلہ تو واشنگٹن میں‘ چاد ماہ پہلے‘ حل ہو چکا ہے۔ چلئے ‘طے ہو چکا ہے کہہ لیں ۔ اب تقریروں سے کیا ہو گا۔ کشمیر کا ذکر اور مسئلہ کے ’’طے‘‘ ہونے کا ذکر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی اپنے انداز میں کیا۔ فرمایا ‘ اگر کشمیر کا سودا ہونے کی خبر غلط ہے تو پھر حکومت آزاد کشمیر پر حملوں کا جواب کیوں نہیں دیتی۔ بھارتی جارحانہ مہم پر جواب جانا چاہیے۔ بات اگر جواب کی ہے تو وہ وزیر اعظم سمیت ساری حکومت بہت بار دے چکی ہے۔ ان الفاظ میں کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ فی الحال اتنا کافی نہیں؟ پچھلے دنوں وزیر اعظم نے کشمیر پر جہاد کا اعلان کیا‘ پھر اس کی تشریح اگلے روز یوں کی کہ جو بھی کنٹرول لائن پار کرے گا۔ وہ پاکستان کا دشمن ہو گا۔ کیا یہ وضاحت بھی کافی نہیں؟ وزیروں کے بیانات اکثر آیا کرتے ہیں کہ مظلوم کشمیری ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ اسے زبان کی پھسلن کہنا چاہیے کیونکہ اصل میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم کشمیریوں کی طرف دیکھ رہے ہیں(کہ وہ کب تک لڑ سکتے ہیں) رہا ہم سے کچھ کرنے کا سوال تو اس کا جواب ہے کہ میاں کیوں شہیدوں سے مذاق کرتے ہو۔ کشمیر پو جو طے ہوا ہے‘ اس کی سمجھ فاروق حیدر اور سراج الحق دونوں کو ہے لیکن مصلحتاً وہ رسید نہیں دے رہے۔ اسلامی ممالک نے البتہ رسید دے دی۔ جب پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشن میں قرار داد لانے کی کوشش کی تو قرار داد پیش کرنے کیلئے درکار پندرہ ووٹ بھی ہمیں نہیں ملے۔ اتنے تو مسلمان ارکان ہی تھے۔ انہوں نے کس دریا کا پانی پی لیا تھا کہ ہماری حمایت سے یوں یک دم دستبردارہو گئے؟ جی نہیں۔ وہ ہمارے مخالف نہیں ہوئے انہیں معاملے کی سمجھ آ گئی تھی کہ جو طے ہونا تھا۔ طے ہو چکا ہے‘ اب ڈھول بجانے میں ہمیں حصہ لینے کی ضرورت کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ’’خاموش‘‘ رہ کر اپنے سمجھ جانے کی رسید دے دی۔ ٭٭٭٭٭ کشمیر کے مسئلے پر پہلی نوازش جنرل ایوب خاں نے کی جو 27اکتوبر کو پاکستان پر ’’نافذ‘‘ ہوئے۔ انہوں نے مادر ملت کو جعلسازی‘ زور ‘ زبردستی سے صدارتی الیکشن میں شکست دی اور پھر عوامی ردعمل کی اٹھتی طوفانی لہروں سے خوفزدہ ہو کر کشمیر ایڈونچر کرتے ہوئے پاکستان کو جنگ میں دھکیل دیا۔ کشمیر پر عالمی ہمدردی اور حمایت پاکستان کے حق میں تھی۔ ان کے اس ایڈونچر سے وہ متاثر ہونا شروع ہوئی اور 1999ء میں کارگل کے ایڈونچر کے بعد بڑی حد تک معدوم ہو گئی۔ اس جنگ کی قیمت پاکستان کو کئی اور حوالوں سے بھی دینا پڑی۔ یادش بخیر‘ ایوب خاں کا ذکر چھیڑا تواور بھی کئی باتیں یاد آ گئیں کشمیر کا مسئلہ دریا برد کرنے کے علاوہ بھی ان کے ملک پر بہت سے احسانات ہیں وہ پاکستان میں حکومتی سطح کی کرپشن کے بانی تھے۔ روٹ پرمٹ‘ گندھارا کی صنعت اور دیگر کہانیاں کتابوں میں لکھی ہیں۔ دوسرا کارنامہ ان کی معیشت کی بربادی ہے۔ انہوں نے آزاد پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی میں دیا۔پھر معیشت گروی ہی ہوتی چلی گئی۔ سیاسی اور سکیورٹی حوالے سے انہوں نے ملک کو امریکہ کی سپرداری میں دے دیا اور سیٹو ‘ سنٹو پاکستان میں آبراجے۔ معاشی زوال کے لئے انہوں نے غریبوں کو کنگال کر کے چند گھرانوں کو دولت کا مالک بنانے کی مہم شروع کی۔(اس کی ایک ہولناک جھلک جماعت اسلامی کے اس وقت کے ماہر اقتصادیات صدیق الحسن گیلانی کی مختصر کتاب ’’ترقی اور افلاس‘‘ میں (دیکھی جا سکتی ہے) اس مشن کو کئی عشروں بعد ان کے خلف ثانی پرویز مشرف نے توسیع دی۔ مہنگائی کا آغاز بھی دور ایوبی سے ہوا۔ (بیس روپیہ من آٹا‘ حبیب جالب) ایوب خاں نے لڑائو اور حکومت کرو کے اصول پر مہاجر پٹھان‘ سندھی‘ بلوچ‘ پنجابی ‘ بنگالی منافرت کی بنیاد رکھی۔ پھریہ آگ پھیلتی گئی اور مشرقی پاکستان کو نگل گئی۔ اسلام پر بھی آپ کی نظر کرم تھی۔ فضل الرحمن نام کے ایک ’’مصنوعی‘‘ سکالر کے ذریعے اذان اور نماز کے خاتمے کی مہم چلوائی۔ اس طرح کہ کوئی عربی نہ پڑھے۔ اذان نماز تسبیح سب پنجابی میں ہو۔ ظاہر ہے یہ اذان نماز کے خاتمے کی مہم تھی۔ انکار سنت کے لئے غلام احمد پرویز کو کھڑا کیا۔ پھر جب ’’آفتاب‘‘ رخصت ہوا تو اس کی دھوپ بھی غائب ہو گئی۔ اب کسی کو ڈاکٹر فضل کا پتہ ہے نہ پرویز کا۔ اسلام میں ہندو مت کی آمیزش کے لئے اپنے خاص افسر (جن کی خود نوشت شاید‘‘ کذاب نامہ یا ملتے جلتے نام سے مشہور ہوئی) اور دو ادیبوں کی خدمات حاصل کیں۔ ان داستان گو ادیبوں نے مافوق الفطرت تلقین شاہی بابے متعارف کرائے۔ مقصد یہ تھا کہ آمریت کے خلاف اسلام کے مزاحمتی رنگ کو اور عملی جدوجہد کے سبق کو جادو ٹونے چلے کڑے سے غائب کر دیا جائے۔ اب یہ دونوں داستان گو پرلوک سدھارچکے ہیں لیکن ان کے متعارف کردہ بابوں نے نوجوانوں کی خاصی تعداد کو اب بھی ’’بے عملی‘‘ کے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔