اکیسویں صدی کوبعض لوگ انصاف کی صدی قراردے کربڑی امیدیں باندھ چکے تھے ۔ اس صدی کابیسواں بر س جو2020کہلاتاہے بھی شروع ہوچکاہے مگرکشمیرسے فلسطین کے افق پرظلم کے سائے بدستورگہرارنگ جمائے بیٹھے ہیں۔کون ساانصاف، کہاں کاانصاف ،کون کرے گا انصاف۔کیاامریکہ انصاف کرے گاکہ جس نے کرہ ارض پر اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی افغانستان اورعراق پر اتناظلم ڈھایاکہ چنگیزاورہلاکوبھی شرمسارہیں۔ 5 جنوری اہل کشمیر کے حافظے کی لوح پر ایک بھیانک یاد کے طور پر سوالیہ نشان بن کر محفوظ ہے جب بھی یہ دن آتا ہے تو کشمیریوں کو اپنے مقدر کی وابستگی کی وہ تاریخی داستانیں یاد آتیں ہیں جن کے اثر سے آج بھی کشمیری مسلمان باہر آنے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہیں۔یہ اقوام متحدہ کے قیام کے ابتدائی سال تھے۔ لیگ آف نیشنز کے نام سے ایک عالمی تنظیم جنگ عظیم دوئم کی بھڑکنے والی آگ میں بھسم ہو چکی تھی۔ اقوام عالم نے مجلس اقوام کواس وقت تاریخ کی قبر میں دفن کر دیا تھا جب یہ طے ہو چکا تھا کہ جو عالمی تنظیم ایک ایسی عالمی جنگ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی کہ جس نے انسانوں اور انسانیت کو موت، تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا ،وہ اپنے وجود کا جواز نہیں رکھتی۔ مجلس اقوام کی راکھ پر ہی اقوام متحدہ کے نام سے ایک نئی تنظیم کا تاج محل اس امید کے ساتھ تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی منظوری دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ مظلوم اور غلام قوموں کو اپنی آزادی اور حق خود ارادیت کیلئے جدوجہد کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد دنیا کی بہت سے مظلوم قوموں نے یوا ین چارٹر کا سہارا لے کر نہ صرف یہ کہ آزادی اور حق خود ارادیت کی تحریکیں شروع کیں بلکہ اس چارٹر سے اپنی جدوجہد کے لئے جو بھی تلاش کیا۔اقوام متحدہ کے قیام کے ابتدائی ماہ و سال میں ہی دنیا کا نقشہ تبدیل ہونے لگا۔ برطانیہ جو ایک طویل عہد سے دنیا میں منصب داری پر فائز ہوتاچلا آرہا تھا، اپنی حیثیت سے محروم ہوتا چلا گیا اور اس کی جگہ پہلے سوویت یونین اور پھر امریکہ منصب داری پر فائز ہوئے۔ یورپی ممالک جو ہٹلر کی پالیسیوں کے باعث بری طرح تقسیم کا شکار تھے ، متحد ہونے لگے ۔برطانیہ نے اپنی نو آبادیوں کو آزادی دینے کا سلسلہ شروع کیا ۔ برصغیر بھی اس ہلچل کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اور برطانیہ کی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی یہاں بھی مختلف النوع تحریکیں شروع ہو گئیں ۔ اسی ماحول میں مسلمانانِ برصغیر نے اپنے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ شروع کیااور کشمیر ی قوم میں بھی ڈوگرہ راج کے خلاف آزادی کی تحریک شروع ہو گئی ۔ اہل کشمیر کا سیاسی میلان کچھ اور تھا، جبکہ وقت کی کانگریسی قیادت کشمیریوں کی خواہشات کو جبر، دھونس، دھاندلی، مکر، ترغیب اور تحریص ہر انداز سے کچلنے اور اغوا کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی ۔ کانگریسی قیادت کے ان خوابوں میں انگریز بھی نہایت عیاری سے بھر پور انداز میں رنگ بھرنے کی کوشش کر رہا تھااور یوں کشمیر ایک تنازعہ بنتا چلا گیا اور کشمیری مسلمان حالات کی دلدل میں دھنستے چلے گئے ۔ کشمیری مسلمانوں کی فکراور خواہشات کو اغوا کرنے کیلئے جو سازشی جال بنے گئے ، ان کے تحت بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہو گئیں جبکہ قبائلی آزاد کشمیر کی طرف سے پیش قدمی کرتے چلتے گئے ۔نتیجتاً پاکستان اور بھارت کے مابین سر زمین کشمیر پر با قاعدہ جنگ کا آغاز ہو گیا ۔جنگ طویل عرصہ تک جاری رہی اور آخر کار بھارت نے نوزائیدہ اقوا م متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا۔ بھارت اپنا مقدمہ اس دعوے کے ساتھ اقوام متحدہ میں لے کرگیا کہ کشمیر میں حالات بہتر ہوتے ہی رائے شماری کا اہتمام کر کے کشمیریوں کو آزادانہ طور پر اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار ملنا چاہیے جبکہ پاکستان کا مقدمہ تو تھا ہی یہ کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے۔ پاکستان کشمیر کیساتھ جغرافیائی، نظریاتی ،تہذیبی اور تاریخی رشتوں کے باوجود کشمیر پر اپنا حق جتلانے کی بجائے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا وکیل بن کر سامنے آرہا تھا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان، بھارت اور کشمیر کے نمائندے اپنا اپنا موقف پیش کرتے چلے گئے ۔ بھارتی موقف کی حمایت میں ایک بار شیخ عبد اللہ جبکہ آزاد کشمیر کی طرف سے سردار ابراہیم خان پیش ہوئے۔ اقوام متحدہ نے کشمیر کی صورت حال کو جاننے کیلئے یکے بعد دیگرے کئی مصالحتی مشن بھیجے، جنہوں نے اپنی رپورٹس مرتب کر کے اقوام متحدہ کے کارپردازان کو پیش کیں۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کے موضوع پر قراردادوں کی منظوری کا عمل بھی جاری رہا۔قرارداد کا کوئی حرف یا اشارہ بھارتی حکمرانوں کی طبع نازک پر گراں گزرتا تو اقوام متحدہ کے حکام اس قرار داد پر نظر ثانی کر کے اسے بھارتی حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق بنانے میں لمحوں کی تاخیر نہ کرتے۔ کشمیریوںکے بعد جن قوموں نے حق خود ارادیت کی جدوجہد شروع کی انہیں اقوام متحدہ کے زیر سایہ منزل مراد مل گئی ۔ جنوبی سوڈن اورمشرقی تیمور اس سلسلے میں ایک اہم مثالیں ہیں ۔انڈونیشیا ایک اہم مسلمان ملک ہے ،اس کے ایک جزیرے مشرقی تیمور میں خالصتاََمسیحی عوام کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کاحق دیاگیا اوراس طرح مشرقی تیمور کو انڈونیشیا سے الگ کردیاگیا۔جبکہ سوڈانمیں بھی مسیحوں کو ریفرنڈم کاحق دیاگیا اس اس طرح سوڈان کودوپہاڑ کرکے جنوبی سوڈان کوایک الگ ملک بنادیاگیا۔چونکہ کشمیر خالصتاً مسلمانوں کامسئلہ ہے اس لئے یہاں 72برس گذرنے کے باوجودکشمیری عوام کو ریفرنڈم کے حق سے محروم رکھاگیا۔چونکہ اقوام متحدہ کی کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عمل در آمدسے امریکہ ، یورپ اور صہیونی طاقتوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا ،یہی وجہ ہے کہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں ایک سیدھے سادے اور اصولی مقدمے کی پیروی کی کیا ضرورت پڑی ہے اور مقدمہ بھی ایسا کہ جہاں فیصلے کے اثرات ایک مسلمان ملک اور معاشرے کے حق میں جانا یقینی ہوں کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ اس مقدمے میںکشمیریوں اور پاکستان کا موقف ہی صائب اور جائز ہے لیکن اقوام متحدہ کے دہرے معیار اور کشمیر میں اپنی قراردادوں پر عمل در آمد میں نا کامی نے اس ادارے کے وجود، ساکھ بڑا سا سوالیہ نشان لگا رکھا ہے ، کہ کیا اقوام متحدہ عالمی تنظیم کہلانے کی حقدار بھی ہے ؟ اور مسلمانوں کے معاملات میں اس ادارے کا رویہ UNO کی بجائے U....NO سے زیادہ کچھ نہیں۔