امریکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ ایک میلٹنگ پاٹ Melting Pot ہے۔ کس نے سوچا تھا کہ خاندانی طوپر پر فرانسیسی پس منظر رکھنے والے جو بائیڈن امریکہ کے 46 ویں صدر بنیں گے اور نائب صدر کمیلا ہیرس ۔ جس کی ماں بھارت میں پیدا ہوئی اور جس کے والد جیمیکا میں جنم لینے والے سیاہ فام شخص ہیں۔ جو بائیڈن کا پس منظر ایسا نہیں کہ اس پر ڈرامہ بن سکے مگر کمیلا ہیرس کی زندگی بہت فلمی ہے۔ وہ خاتون جو اس وقت 56 برس کی ہیں۔ جو بہت سرگرم ہیں۔ وہ سیدھے بالوں والی سیاہ فام عورت ہے جو سیاسی اور سماجی طور پر بہت جدید خیالات کی مالکہ ہے۔ گذشتہ صدی کے چھٹے عشرے میں جب تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والی شمائلہ گوپلان کیمسٹری کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ آئیں تو ان کی ملاقات ان افریقی نوجوانوں سے ہوئی جو امریکی نسل پرستی کے خلاف ایک تحریک چلا رہے تھے اور بعد میں وہ مشہور باغی تنظیم بلیک پینتھر موومینٹ Black Panther Movement کا حصہ بنے۔ اس دوراں بھارتی شمائلہ کی شادی جمیکا میں جنم لینے والے اس نوجوان سے ہوجاتی ہے جس کا نام ڈونالڈ ہیریسن ہے۔ وہ شادی زیادہ عرصے تک نہیں چل سکی مگر اس رشتے سے دو لڑکیوں نے جنم لیا۔ ایک کا نام مایا ہے۔ مایا امریکہ کی معروف وکیل ہیں۔ جب کہ دوسری لڑکی کا نام کمیلا رکھا گیا۔ وہ کمیلا جو اس وقت امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر ہیں۔ کمیلاکا پس منظر دیکھ کر کسی کو تو یاد آتا ہوگا جرمن ادیب اور شاعر ہرمن ہیسی کا مشہور ناول ’’سدھارتھا‘‘ وہ ناول جس میں ایک نوجوان اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لیے جنگلوں میں بھٹکتا ہے۔ گوتم بدھ کی شخصیت کو سامنے رکھ کر تحریر کیے جانے والے اس ناول کا ہیرو تو سدھارت ہے مگر اس ناول کی ہیروئن کا نام کمیلا ہے۔ میرے خیال میں سائنسی دنیا میں رہنے والی شمائلہ گوپلان نے جب اپنی بیٹی کا نام سوچا ہوگا تو اس کے ذہن میں ہرمن ہیسی کا ناول ضرور ہوگا۔ کیوں کہ اس دور میں یہ ناول بہت مشہور تھا۔ اس ناول پر بنی ہوئی فلم بھی مقبول ہوئی تھی۔ مگر امریکہ کی نائب صدر کی زندگی ناول سے زیادہ ڈرامائی ہے۔ کیوں کہ وہ تین ملکوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب تین ممالک آپس میں ملے تو کمیلا کی شخصیت ابھر آئی۔ کمیلا کے والد جیکمیکا میں پیدا ہوئے۔ ان کی ماں بھارت میں پیدا ہوئی۔ جب کہ کمیلا نے خود امریکہ میں جنم لیا مگر اس نے بچپن سے اپنے افریقی اور ہندوستانی رشتے قائم رکھے۔ وہ کئی بار بھارت میں اپنے ننہیال آئی ہیں اور بھارت ان کے لیے کوئی اجنبی ملک نہیں۔ وہ افریقہ میں اپنے دادا کے گھر سے بھی تعلق میں رہی ہیں۔ امریکہ اس کا اپنا وطن ہے۔ وہ امریکی سیاست میں سرگرم ہیں۔ اس کے سیاسی خیالات امریکی آئین سے بھی آگے ہیں۔ امریکی آئین میں سزائے موت کا قانون موجود ہے جب کہ کمیلا ہیرس سزائے موت کے خلاف جدوجہد کرنے والی خاتون کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ وہ خواتین کے حقوق کی عملبردار رہی ہیں۔ اس کے علاوہ کمیلا ہیرس تیسری جنس کے قانونی اور معاشرتی حقوق کے لیے سرگرم رہی ہیں۔ وہ امریکی حکومت میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔ امریکی ریاست کی نظر میں پہلے تو سابق امریکی صدر باراک اوباما کی اہلیہ مشل اوباما تھیں مگر یہ حقیقت ہے کہ جن اسباب کے خاطر ریاست ہائے متحدہ امریکہ مشل اوباما کو اہم پوزیشن دینے کا سوچ رہی تھی وہ ساری صلاحیتیں کمیلا میں درجہ کمال پر ہیں۔ اس لیے امریکہ کے معمر صدر کو نسبتی طور پر مضبوط خاتون نائب صدر سے نوازا گیا ہے اور اس سلسلے میں کمیلا کا انتخاب اس امکان کو تقویت دے رہا ہے کہ امریکی ریاست ایک سیاہ فام خاتون کو اہم عہدے پر رکھ کر ایک تو امریکہ میں موجود سیاہ فام آبادی میں احساس محرومی کی موجودگی کو کم کرنا اور امریکی معاشرے کو اندر سے مضبوط کرنا چاہتی ہے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ امریکہ دنیا کو دکھانا چاہتا ہے کہ اس کی نائب صدر ایک سیاہ فام عورت ہے۔کمیلا ہیرس نائب صدر کی حیثیت سے کون سے کمال کرتی ہیں؟ یہ سوال تو قبل از وقت ہے۔ مگر یہ ایک دلچسب حقیقت ہے کہ کمیلا کی زندگی اور اس کے نظریات اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ وہ ترقی پسند اور انسان دوست خاتون ہیں۔ انہیں کمزوروں اور مظلوموں سے فطری طور پر ہمدردی ہے۔ کیا اس حوالے سے ہم کمیلا سے یہ امید رکھ سکتے ہیں وہ بھارتی پس منظر رکھنے کی وجہ سے وہ بھارتی ریاست میں قید ایک مظلوم اور خون بہاتی ہوئی قوم سے انصاف کرنے کے لیے اپنی موجودہ پوزیشن کو استعمال کرے؟ کمیلا اور ڈونالڈ ٹرمپ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم کمیلا سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ ہندو ازم کے فاشسٹ خیالات کو عمل میں لانے والے انسان اور امن کے مخالف نریندر مودی کے ساتھ بیٹھنے میں سکون محسوس کرے۔ جہاں تک کمیلا کا خاندانی اور ان کا ذاتی پس منظر ہے؛ وہ اس بات کے حق میں گواہی دیتا محسوس ہوتا ہے کہ وہ انتہا پسندی کے خلاف ہیں۔ اس کے علاوہ ایک باشعور خاندان میں پرروش پانے اور اپنی بھارتی نسبت کی وجہ سے وہ جب بھی کشمیر میں بہتے ہوئے خون کے بارے میں پڑھتی ہوگی یا ٹیلی ویژن میں وہ جب بھی ماتم کرتی ہوئی ماؤں دیکھتی ہونگی تب ان کے دل میں کشمیریوں کے لیے ہمدردی کا احساس تو جنم لیتا ہوگا۔ اگر کشمیری عورتوں کی آبرو ریزی کا ذکر کرتے ہوئے ایک یورپی سینیٹر پھوٹ پھوٹ کر رو سکتا ہے تو پھر بھارت سے تعلق رکھنے والی سیاہ فام اور روشن خیال خاتون کے دل میں کشمیری عوام کے لیے اپنائیت کے جذبات کس طرح نہیں ہونگے؟ یہ دنیا بہت مفادپرست ہے مگر مفادات کی اس دنیا میں انسانیت بھی تو ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اپنے ملکی مفادات کے لیے جب مسلمان ملکوں کے حکمران کشمیر میں بہتے ہوئے خون سے نظرچراتے ہیں تب ہم بھارت کے ہندو خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک امریکی عیسائی عورت سے یہ امید کس طرح رکھ سکتے ہیں کہ وہ کشمیر کے حق میں کوئی ایسا کردار ادا کرے جس سے کشمیر میں جاری تشدد کا خاتمہ ہو۔ کمیلا ہیرس کو معلوم ہے کہ کشمیری صرف اپنے ضمیر پر سمجھوتہ نہ کرنے کی وجہ سے گذشتہ سات عشروں کے دوراں ہر قسم کی قربانیاں دیتے آئے ہیں۔ آج کشمیر میں ایسا کوئی گھر مشکل سے ملے گا جہاں بھارتی جارحیت پر غم اور غصے کا اظہار نہیں کیا گیا ہو۔ کشمیر کے ہر گھر میں یا تو لہو بہا ہے یا آنسو بہے ہیں۔ وہ لہو اور وہ آنسو اب تک بہہ رہے ہیں۔ بھارت نے انتہائی بے رحمی سے کشمیری عوام میں موجود آزادی کی امنگ کو کچلنے کی کوشش کی ہے اس میں تو مودی ہٹلر سے بڑھ کر ثابت ہوا ہے۔مودی اس وقت بھی عام طور پر بھارت میں بسنے والے مسلمانوں اور خاص طور پر کشمیری عوام پر جس طرح تشدد کر رہا ہے عالمی ضمیر اس کی مسلسل مذمت کرتا رہا ہے مگر عالمی سیاست میں ضمیر کی کوئی اہمیت نہیں۔ ضمیر کی آواز پر صرف گونگے آنسو بہتے ہیں۔کشمیر عرصہ دراز سے پوری دنیا سے انصاف کا تقاضہ کرتا رہا ہے۔ آج کشمیر عجیب نظروں سے کمیلا ہیرس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ کیا کمیلا ہیرس جنوبی ایشیا کے مظلوم خطے اور محکوم قوم کی آزادی اور خودمختیاری کے لیے اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں گی؟ جرمن ادیب ہرمن ہیسی نے اپنے ناول ’’سدھارتھا‘‘ میںایک جگہ لکھا ہے’’میں سوچ سکتا ہوں۔ میں انتظار کرسکتا ہوں۔ میں بھوکا رہ سکتا ہوں‘‘ یہ تینوں خوبیاں جو مذکورہ ناول کے ہیرو میں تھیں وہ تینوں خوبیاں کشمیریوں میں بھی ہیں۔ کشمیری اب تک سرکشی سے سوچ رہے ہیں۔ کشمیری اب تک انتظار کرتے ہوئے نہیں اکتائے۔ کشمیری بااصول رہتے ہوئے بھوک برداشت کرتے رہے ہیں۔ کیا ایسی خوبیوں کی مالک مظلوم اور محکوم قوم کے لیے کمیلا ہیرس کچھ نہیں کریں گی؟