ترجمہ و تلخیص: محمد اختر

 

’’دوستانہ ‘‘کی ایک دیرپا میراث اس کا ہٹ گانا ’’دیسی گرل ‘‘ ہے جو ایک طرح سے ان جنوبی ایشیائی خواتین کے لیے ایک ترانہ بن چکاہے جو امریکہ ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں مقیم ہیں۔کرن جوہر کہتے ہیں ،’’پریانکا اور میں اس گانے کا بڑی خوشی سے ذکر کرتے تھے ۔وہ مجھے کہتی تھی کہ وہ جہاں بھی جاتی ، مداحین اسے اس گانے پر رقص کرنے کے لیے کہتے تھے۔اس کی لائنزمیں جس دیسی گرل کا زکر کیا گیا ہے وہ صرف بھارت کی یا پاکستان کی یا بنگلہ دیش کی لڑکی نہیں ہے۔بلکہ اس کا اطلاق ہر دیسی لڑکی پر ہوتا ہے۔یہ چیز پریانکا پر امریکہ میں بھی صادق آتی تھی۔ ‘‘پریانکا چوپڑا جن دنوں میامی میں شوٹنگ کررہی تھی تو ممبئی سے ایک ملاقاتی اس سے ملنے کے لیے آیا۔یہ فلم ساز وشال بھردواج تھے جو ممبئی سے بذریعہ پرواز میامی پہنچے تھے تاکہ انہیں اپنی فلم ’’کمینے ‘‘کا سکرپٹ سناسکیں جس کی وہ ان دنوں تیاری کررہے تھے ۔یہ فلم ’’دوستانہ ‘‘کے ایک سال بعد ریلیز ہوئی تھی۔

وشال نے پریانکا کو ایک فلم میں دیکھا تھا اور وہ ان کی اداکاری کی صلاحیت سے بہت متاثر ہوئے تھے ۔ان کا یہ بھی خیال تھا کہ پریانکاچوپڑا ایک ذہین خاتون ہے ۔ چنانچہ انہوں نے سویٹی کے کردار کے لیے ان سے رابطہ کیا ۔وشال بتاتے ہیں،’’میں ’’کمینے ‘‘میں کردار کے لیے کوئی ایسی لڑکی چاہتا تھاجو تھوڑی سی مراٹھی دکھائی دے اور سانولی بھی ہو۔ ‘‘وشال نے پہلے تو پریانکا سے اس وقت رابطہ کیا جب وہ ابھی ’’دوستانہ ‘‘کی شوٹنگ سے فارغ نہیں ہوئی تھی۔انہوں نے اسے اس کہانی کا تانا بانا سنایا جس پر ابھی وہ بدستور کام کررہے تھے اور امید کررہے تھے کہ پریانکا اس کے لیے ڈیٹس دے دے گی۔وشال کے مطابق وہ ممبئی کی بارشوں کو فلمانا چاہتے تھے اس لیے مون سون کے موسم میں شوٹنگ کرنا چاہتے تھے۔

پریانکا کا انکار

وشال بھردواج نے مزید بتایا ،’’جب اس نے میری زبانی سکرپٹ سنا تو پہلے تو اس نے پراجیکٹ سے انکار کیا ۔اس کا کہنا تھا کہ فلم میں ہیروئن کے لیے کوئی رول نہیں کیونکہ یہ دو جڑواں بھائیوں کی کہانی تھی۔میں نے اسے کہا کہ شاید ابھی وہ اس کردار کو نہ سمجھ سکے یا میں اسے نہ سمجھا سکوں۔لیکن جس وقت سکرپٹ تیار ہوجائے گا تو اس کا کردارواضح ہوجائے گا۔چنانچہ میں نے اسے کہا کہ بے شک وہ ابھی ہاں نہ کرے لیکن انکار بھی نہ کرے۔‘‘چنانچہ وشال نے پریانکا سے وعدہ کیا کہ وہ سکرپٹ مکمل ہونے کے بعد میامی میں اس سے ملاقات کریں گے۔وشال بتاتے ہیں،’’اس پر وہ ہنسنے لگی اور کہنے لگی ، ’’میامی میں آپ کہاں ملیں گے؟‘‘۔۔‘‘لیکن وہ بذات خود میامی پہنچ گئے اور تب پریانکا کو احساس ہوا کہ سکرپٹ میں بہت جان ہے۔وشال کے مطابق ،’’سویٹی کا کردار ایک طاقت ور عورت کا ہے ۔ میں نے اسے بتایا کہ میرے خواتین کردار ہمیشہ طاقت ور ہوتے ہیں۔میں نے اسے یہ بھی کہا کہ مراٹھی عورت کا کردار ادا کرنا اس کے لیے چیلنج ہوگا۔تب اس نے یہ کردار قبول کیا۔‘‘

مراٹھی عورت کاکردار

تاہم جس چیز نے وشال کو پریانکا کی جانب کھینچا تھا وہ اس کی ذہانت اور خود کو ’’کمینے ‘‘کی ٹیم کے ساتھ ڈھال لینے کی اس کی صلاحیت تھی۔وشال کہتے ہیں،’’جوچیز اسے خصوصی بناتی ہے وہ اس کا بے ساختہ پن ہے۔میری عادت ہے کہ جب میں سیٹ پر ہوتا ہوں تو بہت سی چیزیں بدل دیتا ہوں۔بعض اداکار بڑی تیاری کرکے آئے ہوتے ہیں اور جب آ پ سیٹ پر بہت سی تبدیلیاں کردیں تو وہ گھبرا جاتے ہیں۔وہ میری بہت زیادہ پیروی کرتی تھی اور ہمارے درمیان عزت کا ایک احساس تھا۔تاہم وہ بحث بہت کرتی تھی اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو ذہانت سے ہی آتی ہے جب آپ سمجھتے ہیں کہ آپ دوسرے فرد کو قائل کرسکتے ہیں۔‘‘مراٹھی کردار کے طورپر پریانکا چوپڑا بہت جاندار دکھائی دیں۔چاہے یہ سبز ساڑھی اور چھوٹے سرخ بلائوز میں ملبوس  ہوکر گانا’’رات کے ڈھائی بجے ‘‘پرخوشی سے لبریز دلہن کا ڈانس ہویا افتتاحی گانا ’’فتک ‘‘ہوجس میں وہ ایڈز کے خلاف کام کرنے والی کارکن ہوتی ہے اور اس نے چہرے پر ایک بڑے کونڈم کا ماسک پہن رکھا ہوتاہے۔  وہ مراٹھی بولتی ہے ’’تو کوتھائی گڈو ؟‘‘(گڈو تم کہاں ہو؟)اور نقادوں نے اس کے مراٹھی بولنے والے کردار کے طورپر اس کو نوٹس کیا۔ریڈف ڈاٹ کام نے بھی اس کے مراٹھی بولنے والے کردار میں پرفارمنس کو خوب سراہا۔

پریانکا کو حادثہ

پریانکاکو رات کے ایک منظر کی شوٹنگ کے دوران حادثے کا سامنا بھی کرنا پڑا جس میں سویٹی اور گڈو (شاہد کپور ) ایک سکوٹر پر فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔فلم میں ڈرامائی منظر پیدا کرنے کے لیے سنیما ٹوگرافر تصدق حسین نے سڑ ک کو گیلا کردیا تھا۔بھردواج نے مشورہ دیا کہ سکوٹر چلانے کے لیے ڈبل کا استعمال کیاجائے تاہم پریانکا کا اصرار تھا کہ وہ ایسا خود کرے گی چنانچہ جب پریانکا نے سکوٹر چلایا تو وہ پھسل کر گرپڑی۔وشال بتاتے ہیں ،’’وہ زخمی ہوگئی۔میں بیٹھا ہوا تھا اور مانیٹر کو دیکھ رہا تھا جب اچانک ایسا لگا کہ وہ مانیٹر کی طرف آئے گی ۔ لوگو ں نے بھاگنا شروع کردیا اوراس کاچہرہ زخمی ہوسکتا تھا تاہم خوش قسمتی سے شاہد کپور نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے ڈھانپ لیا۔وہ بہت شرمندہ تھی۔ہمارا خیال تھا کہ شوٹنگ اب پیک اپ کردی جائے گی کیونکہ ہمیں پہلے ہی بہت دیر ہوچکی تھی اور رات کے دو تین بج رہے تھے لیکن اس کاکہنا تھا کہ’’ نہیں ۔ شاٹ کو مکمل کیا جائے ورنہ میں رات بھر سو نہیں سکوگی۔آپ کو شاٹ مکمل کرنا ہوگا۔میں خجالت اور شرمندگی محسوس کررہی ہوں ۔‘‘چنانچہ ہم نے شاٹ مکمل کیا۔پریانکا کی اپنے کام سے دیانت داری کا اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

’’سات خون معاف‘‘

یہ پریانکا کی اپنے کام سے دیانت داری اور خلوص ہی تھا کہ وشال بھردواج نے اسے اپنی سب سے مشکل فلم ’’سات خون معاف ‘‘ (2011) کا مرکزی کردار ادا کرنے کی پیش کش کی۔ یہ سوسانا اینا میری جوہانس کاکردار تھا جو اپنے چھ شوہروں کو قتل کرتی ہے ۔ یہ ایک مضبوط اور طاقتور عورت کا کردار تھا جسے پریانکا نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ کیا اور یہ پریانکا کا اب تک کا سب سے مضبوط عورت کا کردار تھا۔اس میں اس نے مختلف مرد اداکاروں کے مقابل کیا جن میں نصیر الدین شاہ ، عرفان خان ، جان ابراہام اور انوکپور شامل ہیں ۔ فلم میں پریانکا کو ایک ٹین ایجر سے ساٹھ سال کی بوڑھی خاتون بنتے دکھایاگیا ہے۔وشال بتاتے ہیں ،’’پریانکا اس کردار کے حوالے سے بڑی نروس تھی۔اس حوالے سے ہمیں تشویش تھی کہ وہ یہ کردار کرسکے گی کہ نہیں۔‘‘ چنانچہ اس حوالے سے کافی ابتدائی کام کیا گیا اور آخرکار وشال نے پریانکا کو کہا کہ وہ فلم میں اپنی فطری اور بے ساختہ پرفارمنس دے۔

وشال بتاتے ہیں ،’’پریانکا حقیقت میں ڈائریکشن یونٹ کا حصہ بن گئی۔وہ جو کچھ بھی ہورہا تھا ، اور ہم دیگر اداکاروں کے ساتھ جو کچھ بھی کررہے تھے ، اس کے بارے میں جانتی تھی۔وہ اکثر ہمارے دفتر آجاتی تھی اور ہمارے ساتھ وقت گذارتی تھی میں نے کئی دیگر اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔فلمی اداکار عام طورپر اپنی ہی دنیا میں رہتے ہیں۔جب شفٹ ختم ہوجاتی ہے اور وہ دن بھر کا کام کرلیتے ہیں تو ان کی زندگی کچھ اور ہوتی ہے۔پریانکا بہت مختلف ہے۔جب وہ فلم میں ہوتی ہے تو وہ آپ کی بہترین دوست، بہتر ین معاون بن جاتی ہے ۔وہ سپاٹ بوائے کی طرح ہوتی ہے۔وہ آپ کو چوبیس گھنٹے دستیاب ہوتی ہے۔آخر مجھے اسے کہنا پڑتا ہے کہ ڈائریکٹر میں ہوں اور یہ میری فلم ہے اور میں اپنا کام جانتا ہوں ۔جس پر وہ فورا ً کہتی اوہ سوری سوری۔۔۔‘‘

’’سات خون معاف ‘‘کا ایک حصہ جس میں سوسانا شاعر وسیع اللہ خان (عرفان خان )سے شادی کرتی ہے ، سری نگر میں شوٹ کیاگیا اوریہ وہ موقع تھا جب وہاں سیاسی حالات کشیدہ تھے۔علی الصبح ایک مسجد کے اندر پندرہ منٹ کا شاٹ تھا ۔ یہ مسجد سری نگر کے نواحی علاقے میں واقع تھی۔یہ ایک خطرناک علاقہ تھا اور سیکیورٹی کی وجوہات اور مسجد کے احترام کی وجہ سے پولیس گنیں لے کر اندر بھی نہیں جاسکتی تھی۔عملے نے پریانکا اور عرفان کے ساتھ سین فلم بند کیا اور پولیس سپرنٹنڈنٹ ان کے پیشہ ورانہ انداز سے بہت متاثر ہوا۔چنانچہ بھردواج نے قسمت آزمائی کی اور جلد ی جلدی لال چوک کا شاٹ لینے کے لیے کہا۔سپرنٹنڈنٹ مان گیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہاں پر پریانکا چوپڑا کے لیے اپنے کاسٹیوم بدلنے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔

وشال بھردواج بتاتے ہیں،’’میں پریانکا کوکہا کہ ایس ایس پی مان گیا ہے لیکن جلد ہی وہاں پر لوگ اکٹھے ہوجائیں گے اور ہمارے لیے شاٹ لینا ممکن نہ ہوسکے گا۔چنانچہ پریانکا نے تجویز دی کہ کچھ لوگ شیٹ لے کر گاڑی کے ارد گرد کھڑے ہوجائیں اور وہ گاڑی کے اندر کپڑے بد ل لے گی۔چنانچہ وہ گاڑی کے اندر گئی اور محض تین منٹ میں کپڑے بدل کر باہر آگئی۔مرکزی دھارے کی کوئی بھی اداکارہ اتنے کم وقت میں ایسا نہ کرپاتی۔‘‘اس طرح ایک اور دن عملہ سری نگر میں ایک مکان کے اندر شوٹنگ کررہا تھا۔جلد یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ گھر کے اندر پریانکا چوپڑا موجود ہے اور لگ بھگ چار سولوگ وہاں اکٹھے ہوگئے۔سنٹرل ریزرو پولیس کاایک عہدیدار وہاں آیا اور اس نے عملے کو کہا کہ وہ فوری طورپر شوٹنگ کو پیک اپ کریں کیونکہ وہاں پر جوصورت حال تھی وہ قابو سے باہر ہوسکتی تھی۔لیکن شوٹنگ تو منصوبے کے مطابق رات آٹھ بجے تک چلنی تھی۔ 

وشال بتاتے ہیں،’’پریانکا نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک تنگ راستے اور سیڑھیوں سے ہوتی ہوئی بالکونی میں آگئی (پولیس افسر کی ہدایت کے برعکس)اور باہرجمع مجمع سے ہاتھ ہلا کر مخاطب ہوئی اوران سے درخواست کی کہ انہیں ان کا کام مکمل کرنے دیاجائے۔مجمع دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔وہ چھلانگیں ماررہے تھے اور شورمچا رہے تھے۔ہم نے اس روز شوٹنگ مکمل کرلی۔اگلے روز بھی مجمعے نے ہمیں مذکورہ مقام پر شوٹنگ کرنے دی۔یہ ہے پریانکا۔وہ بہت بہادر ہے۔‘‘

اشتعال انگیز منظر

لیکن پریانکا کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس روز تھا جب اسے عرفان خان کے ساتھ اشتعال انگیز منظر فلمانا تھا ۔عرفان فلم میں ایک پرکشش شاعر کاکردار ادا کررہا تھا جس کے ساتھ ایک تاریک راز وابستہ تھا اور وہ یہ تھا کہ وہ صحبت کرتے وقت عورت پر تشدد کرتاتھا۔وشال بتاتے ہیں ،’’عرفان تھیٹر سے آیا تھا۔وہ ایک بلا میں تبدیل ہوسکتا تھا ۔لیکن پریانکا کا تھیٹر کا کوئی پس منظر نہ تھا۔وہ بہت خوفزدہ تھی کہ جسمانی تشدد کی صورت میں اس کاکیا ردعمل ہونا چاہیے ۔میں نے اسے کہا کہ سب سے پہلے تو وہ اپنی جھجھک اور خوف کو خود سے دور کرے۔میں نے اسے کہا کہ وہ ایک استاد کی طرح سوچے ۔میںنے اسے کہا کہ سیکھو تو شاگرد کی طرح اور کرو تو استاد کی طرح۔کرنے کے وقت اپنے آپ کو استاد مانو۔میں نے اسے کہا کہ عرفان کی موجودگی میں اسے خود کو میرل سٹریپ کی طرح استاد سمجھنا چاہیے۔میری باتوں سے اسے حوصلہ ملا اوراس نے سین میں عرفان کے برابر پرفارمنس دی۔‘‘وشال بھردواج کہتے ہیں کہ پریانکا کاایک ارتقائی عمل کے ساتھ بھرپور اداکار بننا قابل ذکر ہے۔’’محنت کرنا اور اپنے کام سے کبھی خوش نہ ہونا۔وہ ہمیشہ بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔جب میں اسے کہتا ہوں کہ اسے اپنی اداکاری کو تھوڑا سا تبدیل کرنا چاہیے تو وہ ناخوش ہوجاتی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اس چیز کا خیال اسے خود آنا چاہیے تھا۔یہ چیزیں آپ کے کام کو بہتر کرتی ہیں۔پھر جب آپ اگلے روز سیٹ پر جاتے ہیں تو آپ کو کام کرنا ہوتاہے اور آپ اپنے کام سے بہت زیادہ مطمئن نہیں ہوتے۔‘‘

کھانے پینے کی شوقین

اور پھر ہم پریانکا کے کھانے پینے کے شوق کی بات کرتے ہیں۔وشال بتاتے ہیں ،’’کھانے پینے کی بہت شوقین ہے وہ۔بھگوان نے اسے کیا میٹا بولزم دیا ہے۔عام طورپر اداکارائیں اپنا ابلا ہوا کھانا گھر سے لاتی ہیں۔لیکن پریانکا سموسے اور کچوریاں سیٹ پر لاتی تھی۔پھربھی اس کے جسم پر کسی قسم کی چربی نہیں تھی۔‘‘’’کمینے ‘‘کے کلائمیکس شوٹ پر عملہ بالکل ایک بیکری کے قریب کھڑا تھا۔وشال کے مطابق جب وہ اس صبح شوٹنگ کے لیے گئے تو بیکری سے تازہ تازہ بریڈ اور دیگر چیزوں کی خوشبو آرہی تھی اور پریانکا سیدھی بیکری میں چلی گئی۔وشال کے بقول وہ کھانے کی بہت شوقین ہے۔

وشال پریانکا کے ساتھ اپنی دوستی کا ذکرکرتے ہوئے بتاتے ہیں ، ’’میری پریانکا کے ساتھ بڑی ہم آہنگی پیدا ہوگئی تھی۔میری کسی بھی اور اداکار کے ساتھ ایسی ہم آہنگی کبھی نہیں ہوئی جیسی پریانکا کے ساتھ ہوئی تھی۔میں نے پنکج کپور کے ساتھ تین فلمیں کیں اوروہ دوسرے فردتھے جن کے ساتھ میری ہم آہنگی ہوئی۔لیکن پریانکا جیسی بات اس میں بھی نہیں ہے۔مجھے اتنا لطف کسی بھی اداکار کے ساتھ کام کا نہیں آیا جتنا پریانکا کے ساتھ آیا۔وہ اب بھی انڈسٹری میں میری واحد دوست ہے۔وہ بہت اچھی ہے اور بڑی ذہین اداکارہ ہے۔‘‘

شاہد کپور سے تعلق

یہ ’’کمینے ‘‘کی شوٹنگ ہی تھی جس کے دوران بتایا جاتا ہے کہ پریانکا شاہد کپور کے قریب ہوگئی۔شاہد کا کرینہ کپور کے ساتھ مشہور تعلق اس وقت ہی ختم ہوچکا تھا جب وہ ابھی امتیاز علی کی ’’جب وی میٹ ‘‘ میں بدستور کام کررہے تھے۔یہ شاہد کپور کی اب تک کی سب سے کامیاب فلم بھی تھی۔

شاید ان کے تعلقات کی بنیاد ’’کمینے ‘‘میں بوسے کا منظر تھا۔اس کا اشارہ کرن جو ہر نے اپنے شو ’’کافی ود کرن ‘‘ میں دیا جب 19دسمبر دوہزار دس میں شاہد کپور اور کرینہ کپور کی کرن جوہر کے شو میں آمد ہوئی ۔پریانکا کے مطابق وہ شاہد کپور کے ساتھ بوسے کا منظر نہیں کرنا چاہتی تھی ۔یہ منظر سکرپٹ کاحصہ نہیں تھا ۔شاہد نے شومیں بتایا ،’’بوسے کا سین ہمارے لیے سرپرائز تھا۔لیکن وشال سر کا یقین تھا کہ یہ منظر بہت اہم تھاکیونکہ یہ سین اس کے بعد آنے والے سین سے جڑا ہواتھا۔‘‘پریانکا کا کہنا تھا کہ سویٹی اور گڈو کے کرداروں کی بنیاد یہ تھی کہ ان کے ہاں آگے بچہ پیدا ہونا تھا۔پریانکا کے بقول اس حوالے سے شاہد کا عمل بہت شریفانہ تھا جب اس نے کہا کہ یہ میرا (پریانکا ) اختیار ہے کہ میں ان کے ساتھ یہ سین کروں یا نہ کروں ۔لیکن کرن جوہر تو یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ آیا یہ ان کے تعلقات کی ابتدا تھی اور وہ مُصر تھے۔

کرن:توپھر اس کے بعد کیمسٹری گرم ہوئی؟

پریانکا:میرے خیال میں جب ہم ملے تو ہماری کیمسٹری اسی وقت بن گئی تھی۔

شاہد :ہم ایک دوسرے سے خوب باتیں کرتے تھے۔

پریانکا:ہماری کیمسٹری تھی اور اب بھی ہے۔

کرن:اوریہ جاری رہے گی؟

پریانکا :یقینا

شو کی اسی قسط میں کرن مزید تفصیلات جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ آیا دونوں اداکار ڈیٹ پر جارہے ہیں یا نہیں۔شومیںایک مرحلے پر شاہد کپور نے کہا کہ ان کی شو میں آمد کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ اس حوالے سے بات کو واضح کرسکیں کہ آیا وہ ڈیٹ پر جارہے ہیں یا نہیں۔یہ کہتے ہوئے شاہد کپور کرینہ کی طرف مڑے اور ان سے پوچھنے لگے ،’’کیا ہم ڈیٹ پر جارہے ہیں؟‘‘اس پر پریانکا نے کہا ، ’’نہیں ، ہم نہیں جارہے۔‘‘اس طرح شو کے میزبان اور مہمانوں کے درمیان نوک جھونک جاری رہی۔ایک مرحلے پرکرن جوہر نے پوچھا ،’’اس میں کیا خرابی ہے؟‘‘چنانچہ شاہد پریانکا کی طرف مڑے اور کہا ،’’میں آپ کو (پریانکا ) شامل کیے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔یہ ہمارے بارے میں بات ہورہی ہے۔‘‘آخر پریانکا نے جواب دیا،’’میں اس سوال کا جواب دوں گی۔میں ایسے سوال پسند نہیں کرتی جو میری زاتی زندگی کے بارے میں ہوں۔میں نے ایسا کبھی کیا ہے نہ کروں گی تاوقتیکہ میں خود یہ محسوس نہ کروں کہ مجھے اب اس بارے میں بات کرنی چاہیے۔‘‘

کرن جوہر کا اعلان

لیکن مزید سوالات کرنے سے پہلے کرن جوہر نے حتمی اعلان کیا اور کہا ،’’مجھے اس پریقین نہیں۔میں بس یہ اعلان کرنے لگا ہوں کہ آپ دونوں ڈیٹ پر جارہے تھے ۔چاہے اب آپ ڈیٹ پر جارہے ہوں یا نہ جارہے ہوں۔میں نہیں جانتالیکن آپ دونوں کی کیمسٹری سے سب کچھ پتہ چل رہا ہے اور صاف معلوم ہورہا ہے کہ کچھ ہورہا ہے۔‘‘کرن جوہر نے ان الفاظ کے ساتھ شو کوختم کیا ،’’شوکرنے کا بہت مزاآیا۔میں شاید تصدیق حاصل نہیں کرسکا لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہمیں سب کچھ پتہ چل چکا ہے۔جب کہیں محبت ہوتو ہمیں اچھا لگتا ہے۔‘‘شو کرن جوہر کے ریپڈ فائر رائونڈ کے ساتھ ختم ہوا۔رائونڈ میں شاہد کپور سے ایک سوال پوچھا گیا، ’’ایک روز آپ صبح اٹھیں اور پتہ چلے کہ  آپ پریانکا چوپڑا بن چکے ہیں تو آپ کیاکریں گے؟‘‘اس پر شاہد کپور نے ایک مضحکہ خیز جواب دے کر اپنے اور پریانکا کے تعلقات کو لگ بھگ بے نقاب کردیا۔’’مجھے حیرانی ہوگی کہ میں شاہد کپور کے بیڈ روم میں کیا کررہی ہوں یا کررہا ہوں اور میں اس ونگ میں چلا جائوں گا جہاں میں رہتا ہوں۔‘‘(اس وقت پریانکا اور شاہد کپورممبئی میں یاری روڈ پر واقع ایک ہی بلڈنگ ’’راج کلاسک ‘‘میں رہتے تھے۔اگرچہ ان کے اپارٹمنٹ عمارت کے مختلف ونگز میں واقع تھے۔)اس جواب پر پریانکا کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا اور پھر وہ زوردار قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔(جاری ہے)