مریم نواز نے جج کی ویڈیو چلا کر بہت کچھ ہلا کر رکھ دیا اور جو غدر مچایا لگتا ہے وہ ابھی اور مچے گا اور خوب مچے گا۔ حکومت نے ویڈیو کی فرانزک آڈٹ کرانے کا اعلان کیا ہے‘ اب شاید گمشدہ سیاق و سباق مل جائیں لیکن نہ ملے تو؟ سیاسی جماعتیں عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن سب سے زیادہ پرلطف مطالبہ حکمران جماعت کے رہنما احمد اویس نے کیا ہے۔ ٹی وی پروگرام پر فرمایا کہ ایجنسیاں حرکت میں آئیںاور مریم سے دوسری ویڈیوز کو تحویل میں لے لیں ورنہ یہ ویڈیوز بھی چل گئیں تو ریاست کو بہت نقصان ہو گا۔ مریم نے ہینڈ آئوٹ پر کہا کہ فیصلے کی طرح یہ بھی لکھا لکھایا تھما دیا گیا جس پر جج صاحب نے دستخط کر دیے۔ تحقیقات ہو گی تو رپورٹ بھی آئے گی لیکن ویڈیو ملک بھر کے لوگ دیکھ چکے ہیں اور اپنی ’’خود ساختہ‘‘ رپورٹ بھی بنا چکے۔ انوکھی بات سچ پوچھئے تو کچھ بھی نہیں اس لئے کہ شیخ جی تو بہت عرصہ سے جو فیصلے لیک کرتے آئے ہیں ان کا بھی تو کوئی راز ہو گا۔ پنجاب میں جو حالات بن رہے ہیں‘ ان پر ایک اینکر نے تبصرہ فرمایا۔ نقل کر نا مناسب نہیں۔بس غالب یاد آ گئے جنہوں نے کہا تھا کہ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا، یہ انہوں نے اپنے بارے میں کہا تھا لیکن ولی خاں کی یاد‘ اسی میں سے نکل آئی جنہوں نے 1990ء میں فرمایا تھا کہ سٹیٹس کو کے خلاف آخری اور فیصلہ کن جنگ پنجاب میں لڑی جائے گی۔ تھے ہم ’’ولی‘‘ سمجھتے جو نہ مودی کا یار ہوتا۔ ولی خان نے 1970ء میں کہا تھا یہ مت کرو‘ ملک ٹوٹ جائے گا لیکن ہم نے اس کی نہ مانی کہ ہر چند’’ولی‘‘ تھا لیکن مودی کا یار بھی تو تھا۔ ٭٭٭٭٭ شیخ جی نے پھر نکات معرفت سے بھرا بیان دیا ہے۔ سرفہرست نکتہ معرفت یہ دھمکی ہے کہ چور سیاستدانوں نے ہتھیار نہ ڈالے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ یعنی یہ کہ ’’چور‘‘ سیاستدانوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے حضور یہ کس کی ناکامی ہے؟ دیگر ذرائع سے بھی اطلاع یہ ہے کہ چور دھمکیوں سے مان رہے ہیں نہ ترلوں سے۔ چوروں کا کہنا ہے کہ چوری ثابت کرو۔ مزید دریائے معرفت یوں بہایا کہ عثمان بزدار کی کارکردگی ہم سے بہتر ہے۔ اس نکتے کے اندر یہ معرفت پوشیدہ ہے کہ’’ہم‘‘ کی کارکردگی کا اندازہ کر لیں۔ جب ’’بہتر‘‘ کا عالم یہ ہے تو ’’ہم‘‘ کا تو پوچھنا ہی کیا۔ کسی اور کا نام لے کر یہ خواہش بھی بیان فرما دی کہ نواز شریف مرسی بن سکتے ہیں۔ بتایا کہ مسلم لیگ کے 37ارکان توڑ لئے گئے ہیں۔7کم ہیں۔ وہ پورے ہوتے ہی فارورڈ بلاک بن جائے گا۔ یعنی یہ اعتراف کہ ’’ضمیر‘‘ کی منڈی خود بخود نہیں لگائی‘ یہ بھی ’’ہم‘‘ ہی کا کارنامہ ہے۔ ٭٭٭٭٭ جماعت اسلامی کے امیر نے کہا ہے کہ حکمران مزدور کی تنخواہ میں اس کے گھر کا بجٹ بنا کر دکھائیں۔ قبلہ نے یہ بہت ہی پرانی خبر دی ہے‘ ان تک شاید اب پہنچی۔ اب کی خبر یہ ہے کہ کوئی گریڈ17کے افسر کے گھر کا بجٹ اس کی تنخواہ میں بنا کر دکھائے۔ مزدور کی تو تنخواہ ہی بارہ سے پندرہ ہزار کے درمیان ہے اور گھر میں چھ منہ کھانے والے ہوں تو اتنے میں آٹا دال بھی نہیں آتی۔ بجلی ‘پانی ‘گیس ‘دوا دارواور کپڑے لتے کے لئے وہ خیرات ‘زکوٰۃ ‘صدقات کا انتظار کرے نہیں تو مرے۔ ہمیں کیا‘ ہم تو چیخیں نکلوانے اور ان کا مزا لینے آئے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے ان حالات کا ذکر کیا ہے جن میں انہیں حکومت ملی۔ ارے بھائی کچھ مت پوچھو‘ کتنے مشکل حالات تھے۔5.7فیصد گروتھ ریٹ تھا۔ خدا جانتا ہے یا ہمارا دل ‘کتنی محنت کرنا پڑی۔ کتنا زور لگانے کے بعد اسے کھینچ کر 2.3پر لائے۔ ھر کیولین ٹاسک تھا۔ سچ پوچھئے تو‘ لیکن ہم نے کر دکھایا۔ افراط زر کی شرح بھی مشکل ہی سے یہ چور لٹیرے لگ بھگ تین فیصد پر چھوڑ گئے تھے۔ہمارا تو پتہ پانی ہو گیا۔ کہ اسی کم شرح سے ملک ترقی کیسے کرے گا۔ بھلا ہو حفیظ شیخ کا اور تھوڑا سا اسد عمر کا بھی جن کی مدد سے ہم نے اسے مختصر سے وقت میں 13.5فیصد پر لے گئے اورسال ختم ہونے سے پہلے اسے 20فیصد پر لے جائیں گے۔ اسی طرح تو کہتے ہیں ہمت مرداں مدد آئی ایم ایف۔ غیر ملکی قرضوں کے بارے میں بھی چور ڈاکوئوں کا ریکارڈ شرمناک تھا۔ دس سال میں 60ارب ڈالر کے قرضے لئے۔ یہ تو ان کی اوقات تھی۔ یہ منہ اور مسور کی دال۔ یہاں بھی ہم نے ہمت مرداں سے کام لیا۔ چین‘ امارات‘ قطر ‘ سعودی عرب اے ڈی پی وغیرہ سے ساڑھے پندرہ ارب ڈالر کے قرضے صرف دس ماہ کی مدت میں لے کے دکھا دیے ‘ اوپر سے آئی ایم ایف نے بھی چھ ارب ڈالر دیے ہے۔ یہ کل ملا کے ہوئے ساڑھے 21ارب ڈالر۔ اب جیسا کہ آپ نے حفیظ شیخ سے سن لیا ہو گا کہ اگلے تین برسوں میں ہم مزید 38ارب ڈالر کا قرضہ لیں گے۔یوں ملا کر یہ ساڑھے 59ارب ڈالر ہو جائیں گے۔ اندرونی قرضے ملا کر یہ گنتی 60ارب ڈالر کو ٹاپ جائے گی۔ صرف تین سال میں 60ارب ڈالر اب آپ خود انصاف کریں کہاں دس سال میں مر کے بلکہ مر مر اکے 24ارب اور کہاں صرف تین سال میں اتنے۔ تو میرے عزیز ہم وطنو‘ اسے کہتے ہیں کارکردگی‘ اسے کہتے ہیں ترقی اور اسے کہتے ہیں خودکفالت کی منزل کا حصول۔ اور ابھی تو ہم نے ترقی کا سفر شروع ہی کیا ہے۔ آگے آگے دیکھیے میرے عزیز ہم وطنو ہوتا ہے کیا۔