الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2020ء پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئین پاکستان سے متصادم قرار دیا ہے اور انتخابی فہرستوں کی تیاریوں پر نظرثانی کے اختیارات‘ حلقہ بندیا ں آبادی کی بجائے ووٹر کی بنیاد پر کرنے اور سینٹ الیکشن میں خفیہ کی بجائے اوپن ووٹنگ کے حوالے سے متعدد اعتراضات کئے ہیں۔ بلا شبہ الیکشن کمیشن ملک کا ایک معتبر اور قابل احترام آئینی ادارہ ہے لیکن بہت سے انتخابی امور ایسے بھی ہیں جن کو نمٹانا اس کی ذمہ داری ہے جن پر ماضی قریب میں بظاہر توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث بعض انتخابی معاملات پر سوالات کھڑے ہوئے۔ الیکشن کمیشن کا یہ کہنا تو بجا ہے کہ مجوزہ ترمیم میں سینٹ الیکشن میں ووٹنگ خفیہ کی بجائے اوپن بیلٹ سے کرانے کا کہا گیا ہے جو کہ سپریم کورٹ کی رائے سے بھی مطابقت نہیں رکھتی لیکن سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے اپنے طور پر ان انتخابات کو خفیہ یا اوپن کرانے اور دیگر انتخابی معاملات پر اپنے مؤقف کی وضاحت میں کیا تجاویز دی ہیں، اس قسم کی انتخابی پیچیدگیوں پر اپنا مؤقف سامنے لانا اور ان کاحل پیش کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ قانون سازی پارلیمان کی ذمہ داری ہے لیکن انتخابی معاملات میں اسے الیکشن کمیشن سے ر ہنمائی درکار ہوتی ہے۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ کسی بھی قانون سازی یا آئینی ترمیم سے پہلے تمام متعلقہ اداروں کے مؤقف کو پیش نظر رکھے تاکہ بعد ازاں معاملات آئینی الجھنوں کا شکار نہ ہوں۔