گُجرات کے شہر کنجاہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے بے شمار چھوٹے چھوٹے بچوں کے علاوہ چند بڑے آدمی بھی پیدا کئے ہیں۔ مثلاً غنیمت کنجاہی جو با کمال فارسی شاعر تھے۔ شریف کنجاہی اور اپنے روحی کنجا ہی جن کا قطعہ آپ روزانہ ایک اخبار میں پڑھتے ہیں۔ ویسے تو روحی کنجاہی پہلے سے مشہور ہیں لیکن اس اخبار کی وجہ سے ان کا نام ایسے لوگوںتک بھی پہنچ گیا ہے جنہیں شعر و ادب سے کوئی واسطہ نہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ روحی کنجاہی کی بدولت ان لوگوں میںبھی تھوڑا بہت شعری ذوق پیدا ہوگیا ہے۔ کل ایک سٹور کے مالک نے مجھ سے کہا: " میں روحی کنجاہی کے شعربڑے مزے سے پڑھتا ہوں۔ ماشاء اللہ بہت اچھا لکھتی ہیں۔ " یہ سُن کر میں نے کہا: " آپ درست فرما تے ہیں۔ میں آپ کی تعریف محترمہ تک پہنچا دوں گا۔ ـ" کہنے لگے : ـ" آپ روحی کنجاہی کو جانتے ہیں؟" میں نے جواب دیا : " میرے تو ان سے برسوں پُرانے تعلقات ہیں۔ جب ہم جوان تھے، رات گئے تک ہوٹلوں میں بیٹھے جائے اور سگریٹ پیتے رہتے تھے۔ " یہ سُن کر انہوں نے تھوڑی دیر تک ہمیں حیرت سے دیکھا اور پھر کہا: ـ "کیا روحی صاحبہ سگریٹ بھی پیتی ہیں؟" "سگریٹ؟ چین سموکر ہیں چین سموکر ـ" "چین سموکر؟" وُہ حیرانی سے مجھے دیکھتے ہوئے بولے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد فرمایا ، ـ"ٹھیک ہے سر۔ یہ جو شاعر لوگ ہوتے ہیں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ خواتین شعراء بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتیں۔ کیا ان کے گھر والے انھیں نہیں پوچھتے تھے کہ اتنی رات گئے کیوں گھر آتی ہو؟" "جی نہیں۔ گھر والوں میں اتنی جراٗت کہاں کہ اُن سے ایسی بات کہہ سکیں۔ ویسے ہر کوئی ان کی شرافت کی گواہی دیتا تھا۔" "کیسی شرافت؟ کیسی گواہی ؟ واہ ! کمال ہے! " "جوانی میں انھیں کسی سے عشق ہو گیا تھا۔ ہم نے اکثر ان کی زبانی اِس عشق کے مزیدار قصّے سُنے ہیں۔ ان کی عشقیہ شاعری لا جواب ہے۔" خیر صاحب ! یہ تو مذاق کی بات تھی۔ آج کل روحی صاحب خاصے علیل ہیں۔ سماعت تقریبا جوا ب دے چکی ہے۔بیٹوں کے حالات بھی دگرگوں ہیں۔ دو سال پیشتر انھیں حکومت کی طرف سے دس لاکھ روپے ملے تھے جو چار چھ ماہ میں ان کے بیٹوں کے حسنِ تدبر کی نذر ہوگئے۔ وُہ محکمہ خوراک سے ریٹائر ہوئے تھے۔ یہ پنشن ایبل جاب نہیں تھی۔ اِن بُرے حالوں میں بھی مشقِ سخن جاری ہے۔ اِن کا ایک شعر سُنیے: اپنی شہ رگ تک آن پہنچا ہوں ایک رگ روز کاٹتا ہوں میں مذکورہ بالا ہستیوں کے علاوہ کنجاہ نے عظیم عورتیں بھی پیداکی ہیں ۔ مثلاً چند روز پہلے ایک اخبار میں کنجاہ کی ایک خاتون کے بارے میں خبر چھپی ہے جو اس خاتون کی عظمت کا ثبوت ہے۔ہُوا یوں کہ ایک روز ان محترمہ کے دو دانتوں میں شدیددرد اُٹھا۔ کسی نے رائے دی کہ آپ دونوں دانت نکلوا دیںکیونکہ مشہور ہے " علاج ِ دنداں، اخراجِ دنداں" ۔ اب اکثر بڑے آدمیوں کی طرح یہ خاتون بھی مفلوک الحال تھی لیکن بڑے آدمیوں ہی کی طرح نہایت غیرت مند بھی تھی۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اسے قطعاً پسند نہ تھا۔ آخر سوچ سوچ کر ایک نہایت انوکھی ترکیب اس کی سمجھ میں آگئی جو یہ تھی کہ ڈینٹسٹ کو فیس کے بجائے دو مُرغیاں دے دی جائیں۔ مہنگائی کا زمانہ ہے ، ڈاکٹر مُرغیاں دیکھ کر دو کے بجائے چار دانت نکالنے پر بھی تیار ہو جائے گا۔ بڑے لوگوں کی سوچ میں اوریجنالٹی ہوتی ہے جو آپ اس خاتون کی سوچ میں بھی بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ انوکھااور دلیرانہ فیصلہ کرنے کے بعد اس نے بڑی صفائی اور حکمتِ عملی سے اپنے ہمسائے اللہ رکھا کی دو مرغیاں پکڑیں اور ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئی۔ ڈاکٹر نے دو پلی ہوئی دیسی مُرغیاں دیکھیںتو اس کی رال ٹپکنے لگی۔ اس نے خاتون سے آنے کا سبب پوچھا تو بولی: " صبح سے دانتوں میں شدید درد ہو رہا ہے۔ ـ " ڈاکٹر نے کہا: "بہن ! تُم صبح ہی آجاتیں۔ رات ہونے کا انتظار کیوں کیا؟" جواب ملا: "دراصل بات یہ ہے کہ اندھیرے میں مُرغیاں پکڑنا آسان ہوتا ہے۔ مرغی ایک لحاظ سے بڑی واہیات چیز ہے۔ مالک سے بھی مانوس نہیں ہوتی۔ پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے ہی بھاگنا پڑتا ہے۔ میں بیمار عورت کہاں مرغیوں کے پیچھے بھاگتی۔ اندھیرا ہونے پرمُرغیاں دڑبے میں آئیں تو پکڑ کر لے آئی ہوں۔ آپ یہ دونوں مُرغیاں بطور فیس رکھ لیں اور میرے دودانت نکال دیں۔" " صرف دانتوں سے بات نہیں بنے گی" ڈاکٹر نے کہا۔ وہ خاتون کوئی عام عورت تو تھی نہیں ۔ فوراً سمجھ گئی کہ ڈاکٹر اس بہانے مزید دو مُرغیاں ہتھیانا چاہتا ہے۔ کہنے لگی: " میری باقی ماندہ مُرغیاں ابھی نابالغ ہیں۔ چند دنوں میںجب میرے باقی ماندہ دانت بھی درد کرنا شروع کر دیںگے، میرے چُوچے (چوزے) بھی بڑے ہوجائیں گے۔ " جواب میں ڈاکٹر بولا: " خیر کوئی بات نہیں۔ لیکن جونہی تمہارے چُوچے جوانی میں قدم رکھیں(بلکہ پنجے رکھیں) تو تُم فوراً دانت نکلوانے آجانا" ۔ پھر ڈاکٹر نے خاتون کے دو دانت نکال دیے اور مُرغیاں رکھ کر اُسے رُخصت کر دیا۔ ڈاکٹر نے مرغیوںکے شوق میں کلینک وقت سے پہلے بند کیا اور گھر پہنچ کر بیوی سے کہنے لگا: " لو نیک بخت! ایک مرغی تو ابھی چڑھادو اور دوسری پرسوں کے لئے رکھ لو ـ" ۔ بیوی کہنے لگی: " تُم تو کبھی مینڈ کی بھی گھر نہیں لائے۔ یہ آج کیا سوجھی کہ دو قیمتی مُرغیاں لے آئے ہو۔ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ سچ سچ بتائو کس کی مُرغیاں اُٹھا لائے ہو؟" جواب میں ڈاکٹر نے ساری داستان بیوی کے گوش گزار دی۔ بیوی نے ساری رُوداد سن کر کہا : " میں اُس عورت کو جانتی ہوں۔ اُس کے ہاں تو مُرغیاں تھیں ہی نہیں۔ یہ ضرور چوری کی ہیں۔ میں انہیں ہاتھ بھی نہیں لگائوں گی"۔ ـ " مجبوراً ڈاکٹر نے سوچاکہ یہ مُرغیاں فروخت کر دی جائیں۔ اِس کے بعد جو کُچھ ہوا اُسے حسنِ اتفاق کہتے ہیں۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں تھاکہ مُرغیوںوالی خالہ کا خاوند اللہ رکھا جو ڈاکٹر کا دوست تھا، اس سے ملنے آگیا۔ ڈاکٹر نے اللہ رکھا کو بیٹھک میں بٹھا کر سارا ماجرا سُنایا اور کہا کہ میرے پاس دو مرغیاں ہیں۔ اگر تُم خریدنا چاہتے ہو تو میں سستے داموں تُمہیں دے سکتا ہوں۔ "اللہ رکھا راضی ہو گیا لیکن جونہی اس کی نظر مرغیوں پر پڑی ، وُہ چیخ اُٹھا: " یہ تو میری مُرغیاں ہیں" ۔ ڈاکٹر نے کہا: "دیکھو میاں ، مرغیاں سب ہم شکل ہوتی ہیں۔ تُمہیں غلط فہمی ہو رہی ہے۔ جا کر دیکھو تمہاری مُرغیاں گھر پر ہی ہوں گی"ْ۔ یہ سُن کر اللہ رکھا گھر آیا۔ مُرغیوں کو دڑبے میں نہ پا کر واپس ڈاکٹر کے پاس پہنچا اور خُدائے بزرگ و برتر کی قسم کھا کر کہنے لگا کہ یہ میری ہی مُرغیاں ہیں۔ ڈاکٹر ایک شریف آدمی تھا۔ اُس نے مُرغیاں اللہ رکھا کے حوالے کیں اور معذرت کر کے اُسے رخصت کر دیا۔ یہ داستان سننے کے بعد کیا اب بھی آپ کہیں گے کہ کنجاہ میں کبھی کوئی عظیم عورت پیدا نہیں ہوئی؟