بلدیاتی انتخابات اور مقامی ادارے ہی اصل جمہوریت‘ یہی ادارے قوم کی تنظیم کرتے‘تعلیم‘ صحت‘ مقامی ترقی اور امن و امان کے ذمہ دار بھی ہیں۔بلدیاتی یا مقامی اداروں کا قیام آئین کا بنیادی تقاضا ہے ان اداروں سے انکار ہی دراصل جمہوریت سے انحراف ہے۔آپ پاکستان کی جمہوری تاریخ پر غور کریں تو یہ دلچسپ صورتحال نظر آتی ہے کہ سیاسی جماعتیں برسر اقتدار آنے کے بعد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے گریز کرتی ہیں اور فوجی جرنیل کے ہاتھ ملک کی باگ ڈور آ جائے تو وہ عوام سے رابطہ رکھنے اور نچلی سطح تک اپنے اثرونفوذ کے لئے بلدیاتی انتخاب کروانے اور مقامی اداروں کو مضبوط بنانے کی سعی کرتے ہیں۔وہ ان اداروں کو فیاضی سے فنڈ فراہم کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک بھر کے ہر کونے کھدرے میں ترقیاتی کام ہوتے اور صحت و صفائی کے حالات بہتر ہو جاتے ہیں۔ بلدیاتی اور مقامی اداروں کے بارے میں بدترین رویہ پیپلز پارٹی کا رہا ہے۔اسے اپنے عوامی ہونے پر اصرار ہے لیکن اگر بدقسمتی سے اس کے ہاتھ اقتدار لگ جائے تو وہ بلدیاتی انتخاب کبھی نہیں کرواتی اور مقامی اداروں کو تباہ کر کے صوبے کی آمریت قائم کر دیتی ہے۔دوسری طرف مسلم لیگ نے طوعاً کرہاً یہ انتخاب کروائے بھی تو وہ کبھی جماعتی بنیادوں پر نہیں تھے۔انہیں بھی کبھی خود پر اعتماد تھا نہ ہی مقامی قیادت پر‘اس کے برعکس وہ ضلعی انتظامیہ ڈپٹی کمشنر‘ایس ایس پی اور تھانیدار کی طاقت پر بھروسہ کر کے غیر جماعتی انتخابات کرواتی رہی اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے مرضی کی قیادت مسلط کر کے رشوت و بدعنوانی اور سرکاری وسائل کی خرد برد سے مستفید ہوتی رہی۔ تحریک انصاف کو 2013ء کے انتخاب میں خیبر پختونخواہ میں معمولی اکثریت حاصل ہوئی تو اس نے جماعت اسلامی اور شیر پائو کے ساتھ اتحاد کر کے صوبائی حکومت بنائی تو ماضی کی سیاسی جماعتوں کے برعکس اس نے بلدیاتی انتخابات منعقد کروائے اور ان اداروں کو فیاضی سے فنڈز فراہم کئے اور زیادہ سے زیادہ اختیارات انہیں سونپ کر صوبائی حکومت کی محتاجی سے آزاد کئے رکھا۔ 2018ء کے انتخاب کے بعد مرکز اور دو صوبوں میں اقتدار میں آئے تین سال بیت گئے ہیں لیکن آئینی تقاضوں کو پورا کرنے اور انتخابی وعدے کو نبھانے کی اب تک نوبت نہیں آئی۔پارٹی کے ممبران اسمبلی اور اتحادیوں کا دبائو انہیں عمران خان مقصد اور مشن کے مطابق اداروں کی تشکیل اور قانون سازی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے پاکستان میں جہاں سیاسی جماعتیں نظریات‘روایات اور قومی ترقی کے پروگرام کی بجائے شخصیت پارٹی لیڈر کی مقبولیت اور اسٹیبلشمنٹ میں ہمدردوں کی بیساکھیوں پر چلتی ہیں‘وہاں قومی انتخابات پارٹی لیڈر مقبولیت عوام میں اس کی شخصیت کی کشش‘ضلعی انتظامیہ کو اپنے حق میں ہموار رکھنے کی قابلیت اور انتخابی ہیرا پھیری چالبازی میں مہارت پر ہے۔قومی انتخابات یعنی قومی اور صوبائی الیکشن دراصل مرکزی قیادت اور اس کی اہلیت و قابلیت کا امتحان ہے تو بلدیاتی انتخابات مقامی قیادت اور ممبران اسمبلی کی لیاقت اور کارکردگی ظاہر کرتے ہیں،جو ممبر اسمبلی اپنے حلقے میں بہتر تنظیم‘ٹیم کے ساتھ حاضر اور متحرک رہے اور امیدواروں کا انتخاب کرتے وقت ذالی پسند وناپسند سے بلند و بالا رہے،تعصب کا شکار نہ ہو وہ کامیاب ہے جو ان خوبیوں کو برقرار نہ رکھ سکا،اس کی ناکامی خود پارٹی کارکنوں کے اندر موجود ہے۔ کسی لیڈر کا پہلا الیکشن اس کی ذاتی قابلیت اور عوام کے لئے اس کے پیغام اور شخصیت کی کشش پر منحصر ہے۔اس کی مثال قائد اعظم‘ذوالفقار بھٹو اور اب عمران خاں کے ذریعے دی جا سکتی ہے لیکن بعد کا ہر الیکشن پارٹی کی کارکردگی خصوصاً مقامی قیادت اور ممبران اسمبلی کے اپنے حلقہ انتخاب میں عوام کے ساتھ رویے پر ہے۔جس قومی لیڈر نے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے نچلی سطح پر اپنا نظم اور اثر و نفوذ قائم کر لیا وہ کامیاب اور ممبران اسمبلی کی بلیک میل سے بچ رہے دوسرا عوامی مقبولیت اور اچھی تنظیم سے محروم ہو جائے گا۔ اب ہم حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابی نتائج کا جائزہ لے کر اس کے مستقبل پر اثرات اور جماعتوں کی مقبولیت اور کارکردگی کا تجزیہ کریں گے! خالد مسعود خاں نے ملتان کینٹ کے نتائج کو سامنے رکھ کر بھر پور تبصرہ کیا ہے، جو بڑی حد تک دیگر چھائونیوں پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔لیکن فیاض راجہ نے زیادہ محنت اور عرق ریزی کے ساتھ سارے ملک کی چھائونیوں کے انتخابی نتائج کو زیادہ بہتر انداز میں مرتب کر کے پیش کیا ہے۔اس کالم میں فیاض راجہ کی معلومات پر بھروسہ کیا گیا ہے۔ ملک بھر کی چھائونیوں کے کل 212 انتخابی حلقوں میں مقابلہ ہوا۔جس کے نتائج ذیل میں درج ہیں پاکستان تحریک انصاف سارے پاکستان میں 63 سیٹیں جیت کر پہلے نمبر پر ہے اور مسلم لیگ ن 59 نمبر کے ساتھ دوسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔آزاد امیدواروں نے 52 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔پیپلز پارٹی کو ملک بھر میں 17حلقوں میں کامیابی مل پائی۔ایم کیو ایم 10میں فاتح رہی۔ مذکورہ انتخابی نتائج کا سب سے اہم غور طلب اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ 52 آزاد ممبران میں 36تحریک انصاف کے کارکن ہیں، جنہوں نے مقامی قیادت یا ممبر اسمبلی کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے ان کے رویے سے بغاوت کر کے انہیں آئینہ دکھایا اور عمران خان کو اوقات اور اصلیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی مگر ملتان میں تو یہ بھی نہ ہو سکا۔سب سے خوش قسمت فیصل آباد کے ممبران اسمبلی ہیں کہ ان کا پردہ رہ گیا ،اس لئے یہاں کوئی چھائونی ہے نہ الیکشن۔ پنجاب کی کل 119میں سے 113سیٹوں پر انتخاب ہوا یہاں مسلم لیگ ن 51تحریک انصاف 28آزاد 32کی تعداد میں جیت گئے۔جماعت اسلامی 2پیپلز پارٹی کو کوئی سیٹ حاصل نہ ہو سکی۔ 32آزاد ممبران میں 27تحریک انصاف کے کارکن ہیںاور 7مسلم لیگ کے حمایت یافتہ۔اگلے مرحلے کیلئے پنجاب میں تحریک انصاف 28کارکنوں کی 27کیساتھ ان کی تعداد 55ہو جائے گی اور مسلم لیگ 7+51حمایت یافتہ کے ساتھ 58ہو گی۔سندھ کی 53 سیٹوں کے نتائج پیپلز پارٹی 14تحریک انصاف 14ایم کیو ایم 10 جماعت اسلامی 5مسلم لیگ 3آزاد اور دیگر 7۔ خیبر پختونخواہ کل 37 انتخابی حلقوں میں تحریک انصاف 18آزاد 9 یہاں بھی 9آزاد ممبران میں 7 تحریک انصاف کے کارکن ہیں‘ مسلم لیگ ن 5،پیپلز پارٹی3 ، اے این پی2یہاں مذہبی جماعتیں بشمول فضل الرحمن مکمل صفایا ہو گیا۔ بلوچستان کی 9میں سے آزاد ممبران کی تعداد 4اور تحریک انصاف 3 عوامی پارٹی 2بلوچستان کے چار آزاد میں سے 2تحریک انصاف کے کارکن ہیں۔ مس چارٹ کے مطابق تحریک انصاف کو پورے پاکستان کے 212ممبران میں 99کی حمایت حاصل ہے گی اور مسلم لیگ نواز کو 66=7+59ممبران کی پیپلز پارٹی کسی قطار نہ شمار میں باقی کا خیر مذکور ہی کیا؟بے نظیر نے چاروں صوبوں کی زنجیر بنائی تھی اس کی ایک کڑی رہ گئی وہ بھی بوسیدہ اور زنگ آلود۔تحریک انصاف دبائو میں رہے یا سکھ کا سانس لے، بہرحال وہ ایک قومی سیاسی پارٹی کا درجہ حاصل کر چکی ہے بلکہ واحد سیاسی جماعت ہے ہر صوبے میں قابل ذکر موجودگی کے ساتھ میدان میں ہے۔مسلم لیگ نواز کبھی قومی جماعت کا درجہ حاصل نہ کر سکی اب محض پنجاب کے چند اضلاع تک سمٹ آئی ہے آج اس کی وہی حالت کے جو بینظیر کے بعد پیپلز پارٹی کی تھی۔ تحریک انصاف فی الوقت عمران خان کا نام ہے اور عمران خاں پاکستان کے ہر حلقہ انتخاب میں موجود ہے، زیادہ تر پہلے نمبر اور باقی میں اس کا دوسرا نمبر ضرور ہے۔عمران خان کی پاکستان سے باہر کارکردگی اور اندرون ملک واحد قومی سطح کی لیڈر شپ نے اسے اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی ناگزیر بنا دیا ہے۔آئندہ قومی انتخاب وہ آسانی سے جیت جائے گا مگر اپنے منصوبے کے مطابق تحریک کو پارٹی بنانے اور پاکستان کے اداروں میں ناگزیر اور دوررس تبدیلیوں کے لئے اسے دو تہائی اکثریت چاہیے ہو گی‘بلدیاتی الیکشن میں کودنے کی بجائے اسے موزوں وقت چن کر قومی انتخابات کا اعلان کرنا چاہیے، اگر بلدیاتی انتخاب کروانا ناگزیر ہو تو وہ غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے چاہیے بصورت دیگر ممبران اسمبلی اور پارٹی کارکنوں کے مابین خلیج اور بھی بڑھ جائے گی۔ پارٹی کے اندر حالیہ کش مکش جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے نئے اور پرانے کارکنوں کے درمیان نہیں بلکہ تحریک کے کارکنوں اور ممبران اسمبلی کی ذاتی پسند اور ناپسند کے درمیان ہے۔ذاتی پسند اور ناپسند کا جو حشر ملتان میں ہوا وہ ہر عقل مند کی آنکھیں کھولنے کو کافی ہے۔