سب سے ضروری خبر وہ ہے جسے ایک انگریزی اخبار نے شہ سرخی بنایا ہے اور اردو پریس نے عمومی طور پر اسے اہمیت نہیں دی ہے۔ وہ خبر یہ ہے کہ چند ہفتوں میں آئی ایم ایف کا وفد پاکستان میں حالات کا جائزہ لینے آ رہا ہے۔ باقی ہم سب کے لئے اہم بات یہ ہے کہ(1) گلگت و بلتستان کی اصل کہانی کیا ہے۔ کیا بلاول بھٹو سے سچ مچ کچھ وعدے کئے گئے تھے یا پیپلز پارٹی کو یقین دلایا گیا تھا کہ اس سے ان انتخابات میں دست تعاون بڑھایا جائے گا۔ وہاں کی مسلم لیگ یونہی نہیں تلملائی ہوئی۔ وہ صاف کہہ رہی ہے کہ مرکزی قیادت کی پالیسیاں درست نہ تھیں۔ (2) حکومت انتخابات میں الیکٹرانک نظام متعارف کرانا چاہتی ہے۔ کچھ اور بھی کرنا چاہتی ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتی ہے اور تیسرے یہ کہ سینٹ کے انتخابات میں خفیہ رائے شماری کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ مگر اس کا طریقہ اسے معلوم نہیں۔ وہ کہتی ہے‘ ہاتھ کھڑے کر کے رائے لی جائے گی۔ (3) ادھر پی ڈی ایم اپنا اتحاد سجا رہی ہے۔ اب وہ میثاق پاکستان پر پہنچنا چاہتی ہے۔وہ کہتی ہے حکومت سے مذاکرات ہوں گے نہ مقتدرہ سے اور یہ کہ حکومت کورونا کی وجہ سے جو جلسوں پر پابندی لگانا چاہتی ہے‘ وہ ہم نہیں مانیں گے۔ جلسے کریں گے‘ پھر اسلام آبادکی طرف مارچ۔ بس حکومت ہمارے سامنے سے ہٹ جائے بلکہ راج سنگھاسن چھوڑ دے۔ اور بھی بڑے بڑے مسائل ہیں جو ہمیں درپیش ہیں‘ مگر میں اس چھوٹی سی خبر پر اٹک گیا ہوں جسے ایک انگریزی اخبار نے اپنی شہ سرخی بنایا ہے۔ مجھے اس سے یہ اندازہ ہوا کہ آئی ایم ایف نے جو ہمیں پروگرام دیا تھا‘ اس میں یقینا کچھ رکاوٹیں آئی ہوں گی جنہیں ہماری پیاری حکومت نے دور کر دیا ہے اور اب وہ آئی ایم ایف کی حکومت میں نئی عرضداشتوں کے ساتھ پہنچے ہیں۔ انہوں نے بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ ’’چند ہفتوں‘‘ میں ادھر کا پھیرا لگائیں گے یا ہماری گوشمالی کریں گے یا اپنا روکا ہوا پروگرام پھر سے آگے بڑھا دیں گے۔وزیر خزانہ نے یہ فرمایا ہے کہ جب کوئی ملک بحران کا شکار ہوتا ہے تو اسے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم اس کا ’’اعتراف‘‘ کر چکے ہیں کہ ہم نے اس دروازے پر دستخط دینے میں تاخیر کی۔ یہاں مجھے تفصیلات بیان نہیں کرنا یہ حکومت تو کہتی ہے کہ ہمیں گزشتہ حکومت کے قرضے ادا کرنے کے لئے ایسا کرنا پڑا۔ میری نظر میں اسحق ڈار کا یہ بیان ہے کہ جب ان کی وزارت خزانہ ختم ہونے کے بعد مفتاح اسماعیل ہی کے زمانے میں روپے کی قدر میں کچھ کمی کر دی گئی اور چند دوسرے اقدامات ٹھائے گئے تو انہوں نے لندن سے بیان دیا‘ پاکستان آئی ایم ایف میں جا رہا ہے۔اگر میری پالیسیوں پر عمل جاری رہتا تو ہمیں ایسا نہ کرنا پڑتا۔ اس لئے میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ ملک میں معاشی بحران کا آغاز 2018ء سے نہیں 2016ء سے اس وقت ہوا جب نواز شریف کا مقدمہ عدالت کے سپرد ہوا۔ انہیں نااہل قرار دے کر بظاہر مسلم لیگ ہی کی ایک حکومت لائی گئی۔ اس حکومت نے اگرچہ بڑے مشکل حالات میں ملک کی معیشت کو بگڑنے نہ دیا مگر عالمی معاشی مقتدرہ نے اپنا کام شروع کر دیا۔ جب عبوری حکومت قام ہوئی اور محتر مہ شمشاداختر کو پاکستان کی معیشت سونپی گئی تو میں نے بار بار برملا لکھا کہ آئی ایم ایف میں جانے کی تیاریاں ہیں۔ شرح نمو کو کم کرنے کی ’’نوید‘‘ دینا اور روپے کی قدر میں کمی کرنا اسی حکومت کا کام تھا جو بتا رہے تھے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ ملک دیوالیہ ہو رہا تھا۔ اللہ کے فضل سے تیز رفتاری سے ترقی کر رہا تھا۔ رہے قرضے تو ریاستی قرضے اس طرح نہیں ہوتے جس طرح میرے آپ کے قرضے ہیں۔ ریاستیں بعض اوقات انہی قرضوں کے زور پر ترقی کرتی ہیں۔ امریکہ کے ٹی بل کیا ہیں جو چین اور جاپان نے خرید رکھے ہیں۔ یہ اس کی سالانہ قومی پیداوار(GDP)سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ یہ اس کی بہتر رفتار ترقی کے لئے ناگزیر ہیں‘ مگر شور مچا دیا گیا‘ ہمارا خسارہ 19بلین ڈالر ہو گیا ہے کہاں سے دیں گے۔ہمیں اس وقت شاید 5بلین ڈالر کی ضرورت تھی۔ دینے والے دو تھے سی پیک اور آئی ایم ایف۔ ساری لڑائی یہی تھی۔ ہم شروع میں دونوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔ کبھی سعودی شہزادے کی گاڑی چلاتے‘ کبھی چینی وزیر خارجہ کا استقبال اپنے کسی جونیئر افسر سے کراتے۔ ان دنوں اس ملک میں وہ سفارت کار دندناتے پھر رہے تھے جو بتاتے تھے سی پیک ایک ایسٹ انڈیا کمپنی ہے۔ دوسری طرف ہمارے وزیر‘ مشیر صاف کہتے تھے سی پیک شفاف نہیں ہے۔ ہم معاشی جال میں پھنس گئے ہیں۔ رزاق دائود نے تو صاف کہہ دیا کہ اسے ایک سال کے لئے موخر کر دیا جائے۔ اب تو دو سال سے زیادہ ہو گئے‘ اب ہی اس پر غور کر لیجیے۔ ہم نے اس وقت آئی ایم ایف کا انتخاب کر کے خود کو دوبارہ مغرب کے استحصالی معاشی جال میں پھنسا دیا اور اب پھڑپھڑا رہے ہیں۔ ہماری ترقی کی شرح نمو ساڑھے پانچ فیصد سے زیادہ تھی۔ اسے کورونا سے پہلے سات فیصد ہوتا تھا۔ ہم نے اسے منفی کر دیا۔ اس ملک کی تاریخ میں کبھی ایسا نہ ہوا ہو گا۔ ہمیں جو لارے لپّے لگائے گئے‘ ہم ان کے پورا ہونے کا ابھی تک انتظار کر رہے ہیں کہاں گئی وہ آئل ریفائنری جو دس ارب ڈالر سے گوادر کے قریب تعمیر ہونا تھی۔ ہم سے جھوٹ بولا گیا کہ اسے چین کی بھی اشیر باد حاصل ہے۔ اگر سی پیک چلتا رہتا تو کم از کم تین منصوبے بہت آگے بڑھ چکے ہوتے۔سڑکوں کا جو جال ہم نے بچھانا شروع کیا تھا وہ تکمیل کے قریب ہوتا۔ ایم ایل ون ایل کا منصوبہ آغاز ہو چکا ہوتا اور شاید ہم بھاشا ڈیم کے بارے میں بھی چین کی مدد حاصل کر لیتے جس میں بات چیت کا آغاز شہباز شریف کر رہے تھے۔ ہم نے سب کچھ ستیاناس کر دیا۔ کیا ملا ہمیں؟آپ ہی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں۔ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔ وہ ہمیں آزادانہ معاشی پالیسیاں بھی چلانے نہیں دیتے۔ ہمارے وزیر خزانہ فخر سے بتاتے ہیں۔ وہ کیا ساری کابینہ فخر سے اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ ہم نے امپورٹ ایکسپورٹ کا فرق20ارب سے کم کر کے 3ارب کر دیا ہے۔ یہ کوئی فخر کی بات ہے۔ کوئی تجزیہ کرے کہ یہ امپورٹ کس کس شعبے میں کم ہوئی ہیں۔ بجلی کے کارخانے لگ رہے تھے۔ مشنری آ رہی تھی۔ ملک میں پیداوار ہوتی ہے تو انرجی اور خام مال کی ضرورت ہوتی ہے۔ جاپان ہی کا امپورٹ بل دیکھ لیں۔ چین کا دیکھ لیں‘ خود امریکہ کا دیکھ لیں‘ ایکسپورٹ نہیں بڑھ رہی تھیں۔ اب بھی 15کو اتنا گرا کر بھی قابل قدر حد تک بڑھ نہیں پا رہی ہیں۔ ہم اعداد و شمار کے کھلونے دے دے کر قوم کو بہلا رہے ہیں‘ مگر آخر کب تک۔ اس وقت جو معاشی اشاریے ہیں اور یہ جو آئی ایم ایف کے آنے کی خبریں ہیں‘ ان سے صاف پتا چلتا ہے کہ دو تین سال تک ملک کی معیشت اسی زبوں حالی کا شکار رہے گی۔ آئی ایم ایف کا پروگرام پہلی بار نہیں آیا۔ پیپلز پارٹی نے درمیان ہی میں ختم کر دیا تھا۔ مسلم لیگ نے اسے آخر تک پہنچایا‘ مگر اعلان کیا کہ اب ہمیں اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آنے والے اس دعوے کے ساتھ آئے کہ جو ان کے پاس جائے‘ اس پر لعنت ہو۔پھر گئے بھی تو ایسے کہ صاف دکھائی دیتا تھا کہ سب کچھ گنوا کر جا رہے ہیں۔کرپشن کرپشن کرپشن۔ یہ واویلا کر کے قرضہ تو نہیں ملتا۔ ایسی غلطی اسحق ڈار نے اس وقت کی تھی جب مشرف رخصت ہوئے تھے۔ پھر اس کا توڑ کرتے انہیں بھی وقت لگا۔اس وقت تو کہہ گئے کہ سابقہ حکومت نے غلط اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔ مگر فوراً ہی اندازہ ہوگیا وہ کیا کہہ گئے ہیں۔ یہاں کسی کو اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ایسے میں نہ ملک کی سیاست چلے گی نہ معیشت بلکہ ملک کی سلامتی بھی خطرے میں رہے گی۔ سمجھ نہیں آتا کس پر اعتبار کریں۔ بات بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ کوئی ہے جو لگام دے۔