پچھلے کئی ہفتوں سے کشمیر میں افواہوں کے بازار نے مکینوں کا چین چھین لیا ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی طاقت کشمیر ی عوام کو مستقل عذاب میں مبتلا رکھ کے ان کو ذہنی مریض بنانا چاہتی ہے۔ ان افواہوں کا ماخذ خود حکومت کے ہی چندایسے اقدامات کے علاوہ دہلی اور جموں میں رہنے والے شدت پسند کشمیری پنڈتوں کا ایک اجتماع ہے، جہاںحال ہی میں کشمیری مسلمانوں پر مزید ظلم و ستم ڈھانے اور ان کو فلسطینوں کی طرح اپنے ہی گھروں میں بیگانہ کرنے کی تجاویزسجھائی گئیں۔ تقریباً 300 مزید نیم فوجی دستوںکی کمپنیوں کی تعیناتی اور ان میں سے بیشتر کی شمالی کشمیر میں تعیناتی اور فوج کی غیر معمولی نقل و حرکت نے پورے خطے میں اضطرابی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔ہر کوئی دوسرے سے یہی سوال کر رہا ہے کہ کیا کچھ بڑا ہونے والا ہے؟ شاید کشمیر واحد خطہ ہوگا ، جہاں بسا اوقات یہ افواہیں سچ کا روپ بھی دھار لیتی ہیں۔ لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے ان افواہوں پر لگام کسنے کیلئے یقین دہانی توکروائی ہے کہ یہ فوجی مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات کروانے گئے تھے اور اب واپس آگئے ہیں۔مگر5اگست 2019کو جب بھارتی آئین میں درج خصوصی حیثیت کو کالعدم اور ریاست کو تقسیم کرتے مرکزی انتظام والا علاقہ بنایا گیا، سے قبل بھی کچھ اسی طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ اس وقت بھی گورنر ستیہ پال ملک نے سکیورٹی سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کو معلوم کی کارروائی بتایا تھا۔ حتیٰ کہ نیشنل کانفرنس کے راہنما فاروق عبداللہ اور ان کے فرزند عمر عبداللہ نے دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی، جس نے ان کو یقین دہائی کروائی کی دفعہ 370اور دیگر آئینی اقدامات پر کوئی قدم اٹھانے سے قبل کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے صلاح و مشورہ کیا جائیگا۔ مگر سرینگر آنے کے تیسرے ہی دن ان کو حراست میں لیا گیا۔ اب موجودہ لیفٹنٹ گورنر کی یقین دہانی پر کتنا یقین کیا جائے؟ پچھلے ایک ہفتے سے جاری ہونے والے پے در پے احکامات جیسے سرینگر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے نقل و حمل کیلئے پاسوں کی تیاری، پولیس کی طرف سے ریلوے حکام کو وادی کے اندر چلنے والی ٹرین سروس کو معطل رکھنا، پولیس اسٹیشنوں سے 5اگست 2019سے قبل اور اس کے بعد سیاسی شخصیات کی گرفتاریوں اور انکے خلاف کارروائیوں کا ریکارڈ مانگنا، جماعت اسلامی و جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے کارکنان وہ ہمدردان کی تفصیلات کے علاوہ خطے میں سرگرم صحافیوں کا ریکارڈ مانگنے سے اندیشوں اور وسوسوں کو تقویت ملی ہے ۔لوگوں میں اضطرابی کیفیت ہے، مگروہ یہ بھی کہتے ہیں دفعہ 370 اور35Aکی صورت میں کشمیریوں کے پاس بس ایک زیر جامہ بچا تھا، جس کو 5اگست 2019کو تار تار کردیا گیا۔ اب ان کے پاس کھونے کیلئے بچا ہی کیا ہے ۔ ایک افواہ ہے کہ جموں و کشمیر کا نام تبدیل کرکے اسکو جموں پردیش رکھا جائیگا، یعنی لفظ کشمیر حذف کیا جائیگا۔ مگر اس کی تو خود کشمیری پنڈت اور سخت گیر ہندو ہی مخالفت کرینگے۔ اس سے تو اس خطے کی ہندو اساطیری شخصیت کشپ رشی کے ساتھ نسبت ہی ختم ہو جائیگی، جس کا حوالہ دیکر کشمیر کو ہندوتوا کے وسیع ایجنڈاکا حصہ بنایا جاتا ہے۔ ایک اور افواہ ہے کہ جنوبی کشمیر کے کئی اضلاع کو جموں کے ساتھ ملاکر ، ایک الگ صوبہ تشکیل دیا جائیگا۔ مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ جموں ڈویژن میں تقریباً 35فیصد مسلمان آباد ہیں اور جنوبی کشمیر کے اضلاع کے ساتھ ان کے الحاق کے نتیجے میں 15سے 20لاکھ تک مسلمان اور جڑ جائیں گے اور اسطرح یہ مسلم اکثریتی علاقہ بن جائیگا۔ فی الحال وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ملک میں ایک اور مسلم اکثریتی صوبہ کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ جموں ڈویژن میں مسلم اکثریتی پیر پنچال اور چناب ویلی علاقے پہلے ہی سے ہندو فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں شہتیر کی طرح کھٹکتے ہیں۔حتیٰ کہ نئی دہلی کے سیکولر راہنماوٗں نے بھی پچھلے 70 سالوں سے ان علاقوں کو وادی کشمیر سے الگ تھلگ رکھنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان علاقوں کو پہلی بار 2004کے بعد مفتی محمد سعید اور غلام نبی آزاد کے دور میں پونچھ اور شوپیان کو ملانے والے مغل روڈ اور دیگر رابطوں کی تعمیر نے ملانے کا کام کیا تھا۔دوسری افواہ یہ ہے کہ شمالی کشمیر کو لداخ میں ضم کر کے ریاست لداخ قائم کی جائے اور کشمیر کو ختم کر دیا جائے گا۔اس قدم سے مجوزہ لداخ صوبہ میں 25لاکھ کے قریب آبادی کا اضافہ ہوگا اور یہ پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ یعنی وادی کشمیر کو تقسیم کرنے اور اسکو جموں اور لداخ میں ضم کرنے سے یہ دونوں خطے مسلم اکثریتی بن جائینگے۔ (جاری ہے)