ملک میں کورونا وائرس کا بحران مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ 25 مارچ سے نافذ لاک ڈاون کے بعد بھی ملک بھر میں کووڈ۔ 19 سے متاثر لوگوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔پچھلے تین دن میں ہی کورونا کے 10 ہزار کیسز منظر عام پر آئے حالانکہ اب تک جملہ 22000 لوگ اس سے روبصحت ہوچکے ہیں۔ ان سب انتظامات کے درمیان ساری دنیا میں ایک سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا کورونا بحران سے بچنے کے لئے لاک ڈاون ہی واحد راستہ ہے؟ لیکن سویڈن جیسے ملک نے ان سب سے الگ کام کی راہ دکھائی ہے۔سویڈن نے ایسا کیا کام کیا کہ عالمی ادارہ صحت کو یہ کہنا پڑا کہ اس کی حکمت عملی مستقبل کا نمونہ ہوسکتی ہے۔ صرف ایک کروڑ کی آبادی کا حامل یہ ملک ہے لیکن دارالحکومت اسٹاک ہوم کے کنی علاقے بہت بھیڑپرہجوم ہیں پھر بھی سویڈن نے لاک ڈاون کے راستہ کا انتخاب نہیں کیا۔ ملک کے ماہر وباء اینڈرس ٹیانل نے کہا تھا کہ ایک بار لاک ڈاون میں چلے گئے تو اس سے باہر نکلنا مشکل ہوگا۔ لاک ڈاون ایک مضحکہ خیز فیصلہ ہوگا تب بھی آپ سویڈن کا اس کے پڑوسی ملکوں فن لینڈ، ناروے، ڈنمارک سے تقابل کریں توان کا ریکارڈ بھی اچھا ہے۔ ان ملکوں نے لاک ڈاون نافذ کیا اور اب وہ اس سے باہر بھی نکل رہے ہیں۔ تو ہمارے سامنے دو ماڈل ہیں اس علاقہ میں جنہیںNORDIC ممالک کہا جاتا ہے۔ ایک ملک ہے سویڈن جس نے لاک ڈاون نافذ نہیں کیا اور دوسری طرف کئی پڑوسی ملکوں ے لاک ڈاون نافذ کیا۔ سویڈن میں کورونا کیسز کی تعداد کم نہیں ہے۔ پھر بھی اس نے ایسا کیا کام کیا کہ اس کے اقدامات کو ماڈل کہا جائے ؟ پہلے ایسا محسوس ہوا تھا کہ سویڈن کا طریقہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔ وہ بزرگوں کو بچانے میں ناکام رہا لیکن سویڈن کے وبائوں کے ماہر کا کہنا ہے کہ ان کا طریقہ کار دورس نتائج کا حامل ہے۔ یہ طریقہ یہ مان کر چلتا ہے کہ اگر کووڈ۔ 19 آنے والے مستقبل میں ختم نہیں ہوا تو لاک ڈاون ٹھیک نہیں ہوگا ناکام ہی ہوگا۔ سویڈن میں بھی اس ماڈل پر تنقید ہوئی۔ 22 ہائی پروفائل سائنسدانوں نے 14 اپریل 2020 کو اخبارات میں لکھا کہ صحت عامہ کی اٹھارٹی ناکام ہوگئی ہے یہاں تک کہ نوبل فاونڈیشن کے صدر نشین کے بشمول 2000 محققین نے 20 مارچ کو حکومت سے کہا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کے حساب سے قدم اٹھائیں ٹیسٹ زیادہ ہوں اور لوگوں کی نقل و حرکت محدود کی جائے۔ اب کہا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں سویڈن میں اور سختی ہوسکتی ہے۔ اس مسئلہ پر سویڈن کے سب سے بڑے اسپتالKARINSK UNIVERSTY اسپتال میں ایک طویل عرصہ سے خدمات انجام دے رہے ڈاکٹر انیل گپتا کا کہنا ہے کہ ٹیسٹنگ اْس وقت کے لئے صحیح ہے جب ہمارے پاس کافی کم مریض ہوں اور وبائ￿ کی شروعات ہوئی ہو ساتھ ہی جب بیماری اپنے آخری مرحلہ میں ہوگی تب ہی ٹسٹنگ معاون ہوسکتی ہے۔ لیکن درمیانی مرحلہ میں آپ جانچ کرواکر بھی بہت کچھ نہیں کرسکتے۔ سویڈن نے اپنے حالات کے حساب سے اندازہ لگالیا تھا کہ ہر دن ہمارے یہاں اتنے نئے کیسز آئیں گے اور ہم اس سے اس بنیاد پر نمٹ سکتے ہیں۔چیک جمہوریہ نے لاک ڈاون کیا اور اب وہاں 8000 سے زیادہ کیسز ہیں اور تاحال 270 لوگ فوت ہوچکے ہیں۔ جنگ لاک ڈاون کے بغیر کووڈ۔ 19 کے خلاف جنگ لڑی جا سکتی ہے۔ جنوبی کوریا کا ‘‘3T’’ ماڈل بھی کامیاب ہوا۔ایک طرف جہاں امریکہ، چین، اٹلی اور ہندوستان جیسے ممالک کورونا وائرس سے نبردآزما ہیں وہیں تائیوان کے بعد جنوبی کوریا ایک ایسا ملک بن گیا ہے جو بنائ￿ ٹیکہ، اینٹی باڈی اور بڑے پیمانہ پر لاک ڈاون کے بغیر ہی اس وبا سے باہر نکلنے لگا ہے ۔جنوبی کوریا میں کئی طرح کے رہنمایانہ خطوط کے ساتھ دفاتر، عجائب گھرکی کشادگی عمل میں آنے لگی ہے۔ سڑکوں پر عام دنوں کاازدحام تو نظر نہیں آرہا ہے لیکن اب پہلے جیسا سنناٹا بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ ماہ مئی میں ہی اسکولز کھولنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کے تقریباً 10,000 کیسز منظر عام پر آئے ہیں جس میں 9000 سے زیادہ لوگ ٹھیک ہوچکے ہیں۔ مئی کے اوائل میں صرف 30 کیسز تھے۔ دراصل کورونا سے لڑنے کے لئے جنوبی کوریا نے 3T ماڈل کا استعمال کیا ہے اس کا مطلب TRACE TEST AND Treat ہے۔ ہندوستان میں کورونا وائرس اور اس سے ہونے والی بیماری کووڈ۔ 19 کے کیسز مسلسل بڑھتے جارہے ہیں اور متاثرین کی تعداد 70 ہزار کو عبور کرچکی ہے۔ اگر کوئی ملک جوکھم سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اسے پھر لاک ڈاون کی حالت میں واپس ہونا پڑسکتا ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ حکومتیں اپنے نظام صحت کو بہتر بنائیں اسے اس طرح تیار رکھیں کہ ایسی کسی بھی صورتحال کو سنبھال سکے۔ جنوبی کوریا نے لاک ڈاون نہیں کیا تھا مالز اور شاپنگ کامپلکس تک بند نہیں ہوئے تھے مگر ٹسٹنگ اور آئیسولیشن پر بہت زور دیا تھا۔ اب وہاں کیسوں کی تعداد کم ہونے لگی ہے۔ میوزیمس، کتب خانے اور دفاتر کھلنے لگے ہیں۔جنوبی کوریا کی سڑکوں پر بھی ٹریفک پوری طرح بحال تو نہیں ہوئی لیکن واپسی بتا رہی ہے کہ جنوبی کوریا نے پہلے مرحلہ میں اچھی پیشرفت کی ہے۔ 13 مئی سے ہائی اسکولس اور 20 مئی سے کنڈر گارٹن اسکولس کھل گئے ہیں 16 مارچ کے بعد سے جنوبی کوریا میں سرگرم کیسز کی تعداد کم ہونے لگی تھی۔ اپریل میں کچھ دن نئے کیسوں کی تعداد دو یا تین ہی رہی۔ 7 مئی کو نئے کیسیس کی تعداد صرف 7 تھی۔ ہندوستان نے لاک ڈاون نافذ کیا اور تقریباً 50 دن گذر جانے کے بعد ایک بھی دن ایسی کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ جنوبی کوریا میں اسکولز، کالجز کھلنے لگے ہیں۔ اس ملک میں ابھی تک 10,810 کیسیس ہی ہوئے ہیں جن میں سے 9419 لوگ روبصحت ہوکر اپنے گھروں کو جاچکے ہیں۔(بشکریہ: سیاست، بھارت)