ماہرین کی تازہ تحقیق بتاتی ہے انسان ایک منٹ میں ڈیڑھ ایکڑ جنگلات ختم کر رہا ہے۔ سالانہ 10ارب سے زائد درخت ایندھن‘ فرنیچر اور دوسری ضروریات کی نذر ہو رہے ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ اگر 10ہزار تربیت یافتہ افراد ہر روز درخت لگائیں تو وہ کٹنے والے جنگلات کی کمی پوری نہیں کر سکتے۔ آسٹریلوی کمپنی نے درختوں کے اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے ایک ڈرون تیار کیا ہے جو ایک روز میں ایک لاکھ بیج لگا سکتا ہے۔ ایک سال میں ایک ڈرون لگ بھگ ساڑھے تین کروڑ درختوں کے بیج لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عمران خان اگلے چار سال میں 10ارب درخت لگانا چاہیں تو انہیں شاید ایسے چالیس پچاس ڈرون درکار ہوں گے۔ ٹیکنالوجی انسان کی استعداد بڑھا دیتی ہے۔ درخت‘ صاف ماحول اور شفاف پانی زمین اور زمین پر رہنے والے ہر جاندار کی ضرورت ہیں۔پاکستان میں بہت سے علاقوں کی ارضیاتی اور ماحولیاتی خوبیوں کو دریافت نہیں کیا جا سکا ۔کوہاٹ بھی ایسا ہی شہر ہے جہاں ’’باغباں‘‘ نے پاک فوج کے ساتھ مل کر محدود وقت اور کم وسائل میں ایک حیرت انگیز منصوبہ مکمل کیا ہے۔ مارچ 2019ء میں میجر نعمان جنجوعہ نے مدعو کیا۔ شہر سے چار پانچ کلو میٹر کی دوری پر ڈوڈہ روڈ پر تبلیغی مرکز ہے۔ اس سے آگے کیڈٹ کالج اور اس کی دیوار جہاں ختم ہوتی ہے وہاں آرمی گولف اینڈ کنٹری کلب کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ جیپ لوہے کا پھاٹک عبور کر کے وسیع علاقے میں داخل ہوئی‘ کوئی ڈیڑھ سو ایکڑ کا رقبہ ہو گا۔ کشتی رانی کے لئے جھیل‘ مچھلی کا تالاب‘ جوگنگ ٹریک ‘ بچوں کا پارک‘ چھوٹا سا چڑیا گھر‘50ایکڑ پر کنو‘ کھٹے‘ لیموں‘ بیر‘ میٹھا اور فالسہ کے جھاڑ بنے باغات۔ ایک کشادہ مگر ویران عمارت اور اس کے سامنے سوکھی گھاس۔باغات اور گولف کے میدان بیس سال سے دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے گھنے جنگل میں بدل چکے تھے۔ محنت اور محبت سے بنایا گیا گولف کورس اس جنگل میں گم ہو چکا تھا۔ کئی برس تک یہاں دہشت گردوں کا آنا جانا رہا۔ کلب کی ویران عمارت پر گولیوں کے نشانات تھے۔ میجر نعمان کو جو لوگ نہیں جانتے وہ نان سٹاپ کام کا مطلب بھی نہیں جان سکتے۔ یقین نہیں آتا کہ جس بھوتوں کے مسکن میں ہم آئے تھے‘ جہاں جلے اور سوکھے گھاس‘ ایک دوسرے میں گھسی جھاڑیاں اور راستوں پر درختوں کا جنگل تھا آج وہی علاقہ مخملیںاور سبز گھاس کا قالین اوڑھ چکا ہے۔ وہاں بوتل برش‘ املتاس‘ کچنار‘اپل اپل‘ چیل‘ سفیدے ‘ گل مہر اور جیکورنڈا کے درخت پھولوں کی گٹھڑیاں اٹھائے کھڑے نظر آتے ہیں۔ جو پھولوں سے محروم ہیں ان کے سبز ملبوس خوش نظر ہیں ۔’’باغباں‘‘ نے یہاں آڑو‘ بیری‘ سیب مسمی طبوبیا‘سرو‘ بوگن ویل اور کنو کے ہزاروں نئے پودے لگائے ہیں۔ پیلے رنگ کے پھولوں والی چنبیلی‘ سفید ‘ جامنی‘ سرخ اور گلابی رنگ کے لیجرسٹومیا’ املتاس ‘ٹکومہ اور پارکن سونیا کی بہاریں دیکھنے کے لائق ہیں۔ مروا اور موتیا کی خوشبو مدہوش کرتی ہے۔ کوہاٹ کی جغرافیائی شکل صورت اسلام آباد جیسی ہے۔ چھوٹا سا شہر جس کے اردگرد پہاڑ کھڑے ہیں۔ یہ ایک وادی کی شکل میں ہے۔ جن لوگوں نے زمینوں کو پتھروں سے پاک کر لیا ہے وہ اس کی زرخیزی پر حیران ہیں۔ گولف کورس سے دو تین کلو میٹر مشرق کی طرف جائیں تو ایک ڈیم ہے‘ چند منٹ کی پہاڑی ڈرائیو کے بعد درہ آدم خیل کے علاقے میں جا نکلتے ہیں۔ یہ علاقہ چھوٹے چھوٹے گھریلو اسلحہ ساز کارخانوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ پہاڑوں میں مشہور زمانہ کوہاٹ ٹنل ہے۔ درہ آدم خیل کی جانب سے پشاوری مسافر کو ہاٹ آتے ہوئے پونے دو کلو میٹر طویل اس سرنگ سے گزرتے ہیں۔ کوہاٹ کی حد ہنگو سے بھی ملتی ہے۔ مغرب کی طرف 44کلو میٹر پر بنوں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ایسے علاقوں میں شہریوں سے محدود خوشیاں تک چھین لیں۔ گولف کورس اور اس سے متصل پارک اجڑ گئے۔ میجرجنرل اسد نوازدہشت گردی سے نمٹنے کے بعد کوہاٹ کو ایک خوش گوار تعمیر نو سے آشنا کر رہے ہیں۔ ویرانے کو گلستان میں بدلنا آسان نہیں تھا۔سٹیشن کمانڈر بریگیڈیئر امجد خود بہترین گالفر ہیں۔ میجر نعمان نے کئی ماہ تک رات نو بجے سے صبح 3بجے تک پراجیکٹ مینجمنٹ سکھائی۔ تین چار گھنٹے سو کر سب کام پر ہوتے۔ کئی ٹریکٹر اور بھاری مشینیں جنگل میں گھس گئیں۔ ورکر صبح جہاں داخل ہوتے شام تک اس علاقے کی حالت بدل جاتی۔ پہلے ہزاروں جھاڑیوں کو صاف کیا۔ پرانے نقشوں اور پیمائشوں کی مدد سے فیئر ویز کی نشاندہی کی گئی۔ گھاس اور جھاڑیاں نکالنے کے بعد روٹا ویٹر چلایا۔ پھر ہل چلایا۔ اس کے بعد لیولر کی باری آئی۔ اب اطراف میں لگے درختوں کی تراش خراش کا مرحلہ آیا۔ جو غیر ضروری تھے وہ نکال دیے ۔ کہیں درخت سوکھ گئے تھے جس سے فیئروے کا بارڈر خراب ہو رہا تھا وہاں ویسے ہی نئے لگا دیے۔ کلب ہائوس کی عمارت کے سامنے لان تیار ہے۔ آبشار سے پانی گرتا ہے اور تھکن کو بہا لے جاتا ہے۔ عقیل شریف سندھو کا کہنا ہے کہ آئندہ موسم بہار میں یہاں سے 5 من شہد حاصل کیا جا سکتا ہے ۔چار چھوٹی چھوٹی جھیلیں تیار ہو رہی ہیں۔ ان کی وجہ سے مقامی اور مہاجر پرندے یہاں بسیرا کریں گے۔ ہزاروں درختوں کی موجودگی‘ آلودگی سے پاک فضا‘ شفاف پانی‘ سکون آور ماحول کو اگر پاک فوج کی سکیورٹی حاصل ہو تو اس سے زیادہ فرحت بخش جگہ کون سی ہو گی۔ محدود وسائل اور سات آٹھ ماہ کی سخت محنت نے سارا نقشہ بدل دیا۔ ہم Beforeاور Afterوالی تصویروں کو دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر سال شجر کاری ہوتی ہے‘ سرکاری لوگ گھاس لگاتے ہیں ‘ پھول اگاتے ہیں مگر چند دن کے بعد سب کچھ اکھاڑ لیا جاتا ہے‘ سوکھ جاتا ہے یا پھر عدم دلچسپی اور غفلت کے سبب ختم ہو جاتا ہے۔ کہنے کو یہ ایک بیاباں کو گلزار کرنے کی کہانی ہے مگر مجھے یہ پورے پاکستان کا قصہ معلوم ہوتا ہے۔ جتنے پیسوں میں لاہور میں چند ایکڑ کا پارک بنایا جاتا ہے کوہاٹ میں 150ایکڑ پر شاندار منصوبہ تیار ہو گیا ہے‘ ایسا منصوبہ جو مالی ضروریات کے لئے خود کفیل ہو گا۔