بھا رت کے کشمیر کو بزعم خو د آئینی حیثیت دینے کو 44دن گزر چکے ہیں لیکن مقبوضہ وادی میں مسلسل کرفیو اور لاک ڈاؤن جاری ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بارے میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کی تنسیخ کے ما بعد اسلام آبا د کی سفارتی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ اس کا ایک محور وزیراعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب ہے جہاں وہ ولی عہد اور عملی طور پر حکمران محمد بن سلمان سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات کریں گے اور بعدازاں اس مہینے کے اواخر میں27 ستمبر کو وہ اقوام متحد ہ کی جنر ل اسمبلی سے بھی خطاب کریں گے، اس کے علاوہ سائیڈ لائن پر ان کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ لنچ بھی پروگرام میں شامل ہے۔ بظا ہر تو ایسا لگتا ہے کہ مغرب اور چند ملکوں کے سوا ہمارے اسلامی دوست کشمیر کے بحران کے حوالے سے ہما را ساتھ دے رہے ہیں لیکن جب باریکیوں میں جائیں تو معاملات قدرے مختلف نظر آتے ہیں۔ اس بات کا بہت شہرہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحتی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں بشرطیکہ دونوں فریق راضی ہوں، مزید برآں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کا حالیہ دورہ اسلام آباد بھی بقول ہمارے دفتر خارجہ اسی ضمن میں تھا لیکن ’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘۔ امسال ماہ جولائی میں وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم عمران خان اتنے شادمان تھے کہ انہوں نے چہچہاتے ہوئے کہا میں ایسے محسوس کر رہا ہوں جیسا کہ میں نے ورلڈ کپ جیت لیا ہے لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔وزیر اعظم کی ولو لہ انگیز تقریروں اور وزیر خا رجہ شا ہ محمو د قر یشی کی بڑھکوں کے باوجود اس کلید ی مسئلے پر عملی طور پرپاکستان کو زیادہ عالمی حمایت حا صل نہیں ہے۔ اس تلخ حقیقت کی ایک تازہ مثال فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی یہ خبر کہ 22ستمبر کو امریکی ریا ست ٹیکسا س کے شہرہوسٹن میں بھارتی نژاد امریکیوں نے ایک بہت بڑی ریلی کا اہتما م کیا ہے جس میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے سا تھ امریکی صدر ٹرمپ بھی شرکت کر یں گے۔یہ مودی اور ٹرمپ کی ایک سال کے دوران تیسری میٹنگ ہو گی۔ ہوسٹن کے بڑے فٹ بال سٹیڈیم میں پچاس ہزار حاضرین کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ ریلی پر تبصرہ کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اجتماع امریکہ اور بھارت کے درمیان مضبوط تعلقات کا مظہر ہو گا اور اس کے ذریعے دنیا کی دوقدیم جمہوریتوں کے درمیان سٹرٹیجک پارٹنر شپ کا اظہار ہو گا۔ مزید برآں وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ اس سے بھارت اور امریکہ کے درمیان انرجی اور تجارتی تعلقا ت کو فروغ دینے کا موقع ملے گا۔اے ایف پی کے مطابق اس ریلی کے ذریعے صدر ٹرمپ کے ان ’’غیرمحتاط ‘‘ریما رکس کہ مودی نے مجھے کشمیر پر ثالثی کے لیے کہا ہے کا ازالہ ہو جائے گا۔ امریکہ میں بھا رتی سفیر ہرش وردھان شرنگلہ کا کہنا ہے کہ مجوزہ اجتماع ٹرمپ اور مودی کے درمیان بڑھتی ہو ئی ذاتی کیمسٹر ی اور دوستی کا بین ثبوت ہے۔ادھر بھارتی سپریم کورٹ نے دلی سرکار کو حکم دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں معمولات زندگی جلد سے جلد بحال کرنے کے لیے ہر اقدامات کئے جائیں۔اس حکم کے بعد مودی ہوسٹن میں ہونیوالی ریلی میں کس منہ سے اپنے سفاک اقدامات کا دفاع کریں گے۔ واضح رہے کہ ٹرمپ کی بھارتی نژاد امریکیوں کو جپھی ڈالنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اگلے بر س ہونے والے صدارتی انتخابات میں ووٹ حاصل کر نا چاہتے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں 84فیصد بھارتی امریکیوں نے ٹرمپ کی مخالف ہیلری کلنٹن کو ووٹ دیا تھا۔واضح رہے یہ وہی صدر ٹرمپ ہیں جنہوں نے 2016کی انتخا بی مہم کے دوران نیو جرسی میں ایک تقریر میں کہا تھا I love Hindu۔ ایسے لگتاہے کہ مغرب ،سعودی عر ب اور متحدہ عرب امارات کا مطمع نظر محض یہ ہے کہ برصغیر کی ان دو متحا رب ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ نہ ہو۔ پاکستان بھی جنگ نہیں چاہتا اورنہ ہی اس کا متحمل ہو سکتا ہے۔ دنیا کی خواہش یہی لگتی ہے کہ کشمیر پر ایک بار پھر مک مکا ہو جا ئے۔بھا رت کی اقتصا دی اور سٹر ٹیجک طاقت، وسیع رقبہ اور کثیر آبادی مغرب اور اس کے طفیلی ممالک کے لیے بہت کشش رکھتی ہے۔ پاکستان کو توانھوں نے ایف اے ٹی ایف کے تحت گرے لسٹ میں ڈالا ہوا ہے۔ اگلے ماہ یہ فیصلہ ہونا ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالا جائے،گرے لسٹ میں رہنے دیا جائے یا گرے لسٹ سے بھی رہا کر دیا جائے۔ لیکن عملی طور پر لگتا ہے کہ یہ تلوار پاکستان کے سرپر لٹکتی رہے گی اور اکتوبر میں اسے پھر گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے گا۔بعض باخبر اعلیٰ سفا رتی ذرا ئع کے مطابق پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے 26شرائط تھیں جن میں سے ان ذرا ئع کے مطابق صر ف دو پر مکمل عمل درآمد ہوا ہے۔ 12پرجز وی طور پر اور 10پرقطعا ً نہیں ہوا۔ آئی ایم ایف کی ایک ٹیم پاکستان پرمزید دباؤ ڈالنے کے لیے اسلام آباد میں بیٹھی ہے۔ا س صورتحال میں پاکستان اس وقت مغرب اور مربی عرب ممالک کے دباؤ میں بری طرح جکڑا ہو ا ہے۔ جبکہ ہم کشکول لیے دنیا بھر میں پھر رہے ہیں، اس کے باوجود کہ بھارت کی اکانومی بھی جمود کا شکارہے اس کے زرمبا دلہ کے ذخائر پاکستان کے 15.75ارب ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 429 ارب ڈالرہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان کی بڑ ی بہادری اور جرأت ہے کہ وہ آزادی کشمیر کا علم بلند کئے ہوئے ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق بعض اسلامی ممالک کے اصرار کے باوجود پاکستان بھارت سے بیک چینل مذاکرات شروع کرنے سے انکاری ہے لیکن جو ممالک اس پر اصرار کر رہے ہیں ان کا ایجنڈاواضح ہے کہ معاملات کو ٹھنڈا کریں، وہ پلیٹ میں کشمیر رکھ کرہمیں دلوانے سے تو رہے۔ عرب ممالک سمیت دنیا مظلوم فلسطینیوںپر مظالم اور اسرائیل کے غا صبانہ قبضے کے حوالے سے کچھ نہیں کر پائی اور نہ ہی کرنے کوتیار ہے۔ بد قسمتی سے فی الحال تو عالمی را ئے عامہ کے حوالے سے کشمیریوں کایہی مقدر نظر آ تا ہے۔کچھ اخباری خبروں کے مطابق مودی نے عمران خان کی طرف سے ہٹلر قرار دینے پر احتجاج کیا ہے، اگر چہ ہندوتوا کے فا شسٹ ہتھکنڈے ہٹلر سے کم نہیں ہیںتاہم مغرب میں کسی کو ہٹلر کہنا بہت بڑ ی گالی سمجھی جاتی ہے اور اس کا مغرب میں بھی نوٹس لیا گیا ہے۔