کچھ عرصہ قبل معروف افسانہ نگار جمیل احمد عدیل کے مجموعے ’’بے خواب جزیروں کا سفر‘‘ میں ’’مزید تفتیش‘‘ عنوان کا ایک عجیب و غریب افسانہ نظر سے گزرا تھا۔ موضوع بڑا انوکھا اور گھمبیر تھا۔ کسی علاقے کی پولیس کو اطلاع ملتی ہے کہ شہر کے پوش علاقے کے ایک ڈرائنگ روم سے کوئی لاوارث لاش ملی ہے، جس کی وجہ سے پورے شہر میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ پولیس کی ابتدائی چھان بین لوگوں کو مزید دہشت زدہ کر دیتی ہے، جب انھیں پتہ چلتا ہے کہ اس مردہ جسم کے تمام اعضا الگ الگ ہیں ، جنھیں کسی اُجرت پسند موچی نے نہایت عجلت میں کچے دھاگے سے سیا ہے۔ جب اس لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیجا جاتا ہے تو وہاں سے مزید دل دہلا دینے والی رپورٹ موصول ہوتی ہے جس کے مطابق یہ لاش کسی ایک آدمی کی ہے ہی نہیں بلکہ مختلف لاشوں کے اعضا کو جوڑ کر ایک جسم کی شکل دی گئی ہے تاکہ دیکھنے والوں کو وہ ایک لاش نظر آئے۔ رپورٹ کے ساتھ یہ نوٹ بھی لکھا تھا کہ جب تک تمام لاشوں کے بقیہ حصے دستیاب نہیں ہوتے، قتل، وجۂ قتل، آلۂ قتل اور اصل قاتل کا سراغ لگانا مشکل بلکہ ناممکن ہے!!!! یقین جانیں اس افسانے سے ہمارا دھیان سیدھا موجودہ حکومتی اتحاد کی طرف گیا، جس میں بھان متی یا کسی پردھان متی نے بعض مخصوص مقاصد کے لیے کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا جوڑ کر ایک انوکھا اور بے مقصد کنبہ ترتیب دینے کی نہایت بھونڈی کوشش کی۔ لاش کی تشبیہ اس لیے بھی حسبِ حال ہے کہ ابھی تک اس اتحاد سے زندگی کے آثار نمودار نہیں ہوئے۔ لوگ حیران ہیں کہ اگر ملک میں اقتدار کی تبدیلی ایسی ہی ناگزیر تھی تو چند مخلص و معقول اور زندہ ضمیر لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے عنانِ اقتدار تھمائی جا سکتی تھی۔ ایسے لوگوں کو مسلط کرنا کہ جن کی عیاریوں، مکاریوں اور اداکاریوں سے ایک زمانہ واقف ہے، کسی شخص کے ساتھ نہیں، ملک قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ انتقام یا بے احتیاطی کے مٹی گارے سے وجود میںلائی گئییہ تعمیر قدم قدم ریت کی دیوار ثابت ہوئی ہے ، جس سے پورے ملک میں شدید خوف و ہراس کی کیفیت ہے۔ نازک ملکی معیشت کے اوپر وزیروں کی فوجِ ڈفر موج مسلط ہے۔ المیہ یہ کہ نو مہینے میں سیاسی ایوانوں سے ’دے جا سخیا‘ کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ اس طرح کے جوڑ توڑ کا سب سے بڑا نقصان ہی یہ ہوتا ہے کہ نہ تو وہ کسی اجتماعی کاز کے لیے یکسوئی سے سرگرم ہو سکتی ہے اور نہ کسی کو اپنی ناکارکردگی کا حساب دینے کا خوف ہوتا ہے۔ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کا یہ بیان غیرت مندوں کے ڈوب مرنے کے لیے کافی ہے کہ ’’ہم نے پاکستان کی ساری ہیکڑی نکال دی، اسے کٹورا لے کر دنیا بھر میں گھومنے پر مجبور کر دیا۔‘‘ اس وقت سات درجن وزرا کی روز افزوں تعیشات، ڈیڑھ سو سے زائد نئی مرسڈیز کے آرڈر نامے، کھائے کھیلے لیڈران کے اکاؤنٹوں، بلاول کے بیرونی دوروں اور مخالف پارٹی کے ممبران کی خریداری کے علاوہ پورے ملک میں کہیں خوش حالی کا نام و نشان نہیں ہے۔ سوشل میڈیا موجودہ حکومت کی ’کارکردگی‘ پہ تبصروں سے بھرا پڑا ہے۔ ایک صاحب نے پوسٹ لگائی ہے کہ کہ نو ماہ قبل مہنگائی کا واویلا کرنے والے ’معروف‘ صحافی اور مصروف سیاست دان کہاں چلے گئے ہیں … ایک نے لکھا کہ مطالعہ پاکستان کے مطابق پاکستان گندم پیدا کرنے والا ساتواں بڑا ملک ہے لیکن آٹا لینے کے لیے استاد اور شاگرد ونوںلائن میں کھڑے ہیں۔ میر پور خاص میں عام آدمی کا یہ حال ہے کہ آٹے کے ایک تھیلے کے حصول کے لیے موت مقدر ہوئی پڑی ہے، جو ظاہر ہے ایک آدمی کی نہیں، حکمرانوں کے ضمیر، کردار اور احساس کی موت ہے۔ کون نہیں جانتا کہ بظاہر جمہوریت کی دعوے دار اور بہ حقیقت الیکشن سے بھاگتی ان تیرہ پارٹیوں کی حالت اس کانگڑی پہلوان کی سی ہے جس نے کسی ہیر پھیر، داؤ پیچ یا کسی غیر قانونی مدد سے اپنے سے بہت بڑے پہلوان کو نیچے گرا تو لیا لیکن ساتھ ہی رونا، چِلّانا اور شور مچانا شروع کر دیا۔ آس پاس کے تماشائیوں میں سے کسی نے پوچھا کہ بھائی میاں جس پہلوان کو تم نے نیچے گرایا ہوا ہے، وہ تو خاموش اور مطمئن ہے اور تم اس کی چھاتی پہ سوار ہو کے بھی پریشان ہو؟ فاؤل طریقے سے اوپر آئے پہلوان نے بڑی گھمبیرتا سے جواب دیا کہ مجھے رونا اس بات کا ہے کہ جب یہ اوپر آ گیا تو میرا کیا حشر کرے گا؟ لوگ سچ ہی کہتے ہیں کہ مولوی، مفتی، میاں، چودھری، حاجی، حافظ، بھٹو، بھئو، سب کی اصلیت ایک ہی شخص نے واضح کر دی۔ مخصوص میڈیا اور حکمرانوں کی آنیاں جانیاں دیکھیں تو لگتا ہے پورے ملک میں توشہ خانے کی گھڑی کے علاوہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ حکیم جی نے سچ کہا ہے کہ: ’اس نے تو ایک گھڑی بیچی ہے لیکن تم نے تو اس ملک کو گھڑی گھڑی بیچا ہے۔‘ ایسے میں پوچھنا یہ تھاکہ اس بھرے پُرے ملک میں کوئی ہے جو تئیس کروڑ عوام کے مسیحا کا کردار ادا کرے؟ کوئی ہے جو اقبال اورقائد کے بسائے، سجائے اس چمن کا والی وارث کہلانے کا حق دار ہو؟ کوئی ہے؟ جو اس لُوٹی کھسوٹی، اُجاڑی بگاڑی، کھجل خوار، بے یارو مددگار، خوار و زبوں، ککڑوں کوں ’عظیم اسلامی مملکت‘ کے مندے حال کا درد اور دُھندلے مستقبل کی فکر رکھتا ہو؟ ایسی مملکت جس میں دین صرف فرقہ بازی کا چورن بیچنے کا نام رہ گیا ہے، تعلیم بے مقصد و بلا پلاننگ ہے، محکمہ صحت جعلی ادویات، بھاری فیسوں، کمشن زدہ ٹسٹوں سے نڈھال ہے، سرکاری دفاتر، رشوت و سفارش اور بے عملی کے اڈے بنے ہوئے ہیں، تہتر کے آئین کا کچومر سلاد بنا کے رکھ دیا گیا ہے۔ عوام بنیادی ضروریاتِ زندگی کے پیچھے نڈھال اور بے حال ہیں۔ ہر بڑے شعبے یا محکمے میں کلغیوں والے ذمہ داران مستقبل کا سارا سیٹ اپ بیرونِ ملک تیار کر کے ریٹائرمنٹ کے منتظر بیٹھے ہیں۔ کون نہیں جانتاکہ جس جس صاحبِ اختیار کی دلچسپیاں، جائیدادیں، اکاؤنٹ، اولاد، کاروبار اور مستقبل ملک سے باہر ہو، وہ کبھی اس دھرتی کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا۔ وہ یہاں محض وقت گزاری، تفریح، تماشے یا مزید کمائی کی تاک میں بیٹھا ہے۔ پھر ہمارے سیاست دان! الامان! مستنصر حسین تارڑ نے لکھا ہے: پہلے کبھی نمرود تھا، کبھی فرعون تھا، پھر یزید تھا، ہمارے دور میں سبھی ایک ہی وقت میں موجود ہیں۔ ہر طرف سے جھوٹ، فراڈ، مکاری، غلط بیانی کی بارش ہے۔ وعدہ خلافی، اخلاقی گراوٹ، منفی جوڑ توڑ اور جب، جہاں، جیسے کی بنیاد والی لُوٹ مار پہ ہر دم اُتارُو، بقول لالہ بسمل: لال ، سفید اور نیلے جھوٹ کالے ، سبز اور پیلے جھوٹ شرم سے عاری سُوکھے منھ بول رہے ہیں گیلے جھوٹ ہر چینل پہ فر فر فر مکر، فریب اور حیلے، جھوٹ اور اگر کوئی ہے تو اسے جان چکنا چاہیے کہ اس وقت وطنِ عزیز تر کی صورتِ حال میر کے اس شعر کی سی ہے: ؎کن نیندوں اب تُو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک! مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا