وفاقی وزیراسدعمرنے اپنی ٹویٹ میں اطلاع دی ہے کہ کورونا ویکسین کی پہلی کھیپ آج (سوموار) پاکستان پہنچ رہی ہے ۔خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں ویکسین تاخیر سے پہنچی ہے جس کا سبب وسائل کی کمی اور ویکسین تیار کرنے والے ممالک کی پالیسی بتائی جاتی ہے ۔ اسد عمر کا کہنا ہے کہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں آسٹرازینکاکی ایک کروڑ 70لاکھ خو راکیں ملنے کے حوالے سے خط موصول ہوگیا،سپلائی کاآغازفروری میں ہوگا،6ملین خوراکیں مارچ میں موصول ہوجائینگی۔کوروناویکسین کی دستیابی یقینی بنانے کیلئے کوویکس کیساتھ 8ماہ پہلے معاہدہ ہواتھا۔پہلی کھیپ میں 5 لاکھ خوراکیں آئینگی ۔ ویکسین کے خصوصی کنٹینر، کولڈ باکسز اور ڈرائی آئس این ڈی ایم اے فراہم کرے گا، ویکسین کی سٹوریج کیلئے اسلام آباد میں انتظامات مکمل کر لئے گئے۔ این سی او سی میں خصوصی ویکسین سینٹر کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے جس کے تحت صوبوں اور اضلاع کی سطح پر ویکسین مراکز اپنا کام کرینگے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے یورپی ممالک پر کورونا وائرس کی ویکسین کی یورپی حدود سے باہر برآمد پر پابندیاں عائد کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات سے وبا پر قابو پانے میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔یورپی یونین نے یہ پابندی اس وقت عائد کی جب ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے یورپی ممالک کو ویکسین کی فراہمی میں کمی کے امکان پر تنازع پیدا ہوا۔تاہم عالمی ادارہ صحت کی نائب سربراہ میرانجیلا سیماؤ نے کہا کہ یہ بہت پریشان کن رحجان ہے۔اس سے قبل ڈبلیو ایچ او کے سربراہ تیدروس ادھانوم غبرائسس نے کہا تھا کہ ویکسین پر قومی تسلط سے اس وبا سے چھٹکارا حاصل کرنے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔چیلنج یہ ہو گا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ نہ صرف امیر ممالک میں ،جن لوگوں کو ویکسین کی ضرورت ہے، اس کی معقول مقدار موجود ہو بلکہ غریب ممالک میں بھی جنھیں اس کی ضرورت ہے، ویکسین دستیاب ہو۔ پاکستان میں کورونا ویکسین پہنچنے کے بعد اس کے استعمال کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں یہ سوال اہم ہو گا۔پمز ہسپتال کی فوکل پرسن ڈاکٹر ارم نوید کے مطابق پمز سمیت تمام سرکاری ہسپتالوں میں نرسوں، ہیلتھ ورکروں اور دیگر عملے کو کورونا وائرس ویکسین لگانے کی تربیت دے دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صحت سے منسلک زیادہ تر عملہ ویکسین کے لیے رجسٹر ہو چکا ہے۔ ہر ہسپتال کا عملہ جس میں ڈاکٹر، نرسیں، صفائی کا عملہ، ڈرائیور اور گارڈز شامل ہیں، انہیں متعلقہ ہسپتال میں ویکسین لگائی جائے گی۔ اسلام آباد کے نواحی علاقے ترلائی میں بھی ویکسین سینٹر بنایا گیا ہے وہاں موجود ہیلتھ سینٹر میں ویکسین کے لیے جگہ مختص کی گئی ہے۔ پورے اسلام آباد میں سرکاری ہسپتالوں سمیت آٹھ نو مقامات کرونا ویکسن کے لیے مختص کیے گئے ہیں ،کولڈ سٹوریج کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ ویکسین لگانے کا پہلا مرحلہ اگلے چند روز میں شروع ہو جائے گا۔ ویکسین کے دوسریمرحلہ میں 60 سال سے زائد افرادکوویکسین لگائی جائے گی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق60 برس سے زائد افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے آن لائن رجسٹریشن اور پھر گھروں میں جا کر ویکسین لگانا ممکن نہیں ہو گا اس کے علاوہ اس عمل میں بہت وقت لگ جائے گا۔ مارچ میں جب دوسرا مرحلہ شروع ہو گا تو 60 برس سے زائد عمر کے افراد اپنا قومی شناختی کارڈ لے کر ویکسین سینٹر آئیں گے اور وہیں پہ آ کر رجسٹر ہوں اور اسی وقت انہیں ویکسین بھی لگا دی جائے گی۔ بتایا جا رہا ہے کہ ویکسین سینٹر میں کمپیوٹر سسٹم نادرا سے منسلک ہو گا جہاں تمام ریکارڈ شناختی کارڈ نمبر کے ساتھ محفوظ ہو جائے گا۔ویکسین کا تیسرا مر حلہ کب شروع ہو اس کا انحصار ویکسین کی دستیابی پر ہے ۔ تیسرے مرحلے میں سب کو ویکسین لگائی جائے گی۔ سرکاری سطح پر رجسٹریشن کے ساتھ ویکسین مفت ہو گی لیکن جو شہری اپنے تئیں پرائیویٹ ہسپتال سے ویکسین لگوانا چاہیگا وہ اپنی فیس دینے کا خود مجاز ہو گا۔مفت ویکسین لگوانے کے لیے رجسٹریشن ضروری ہے۔ حکومت پاکستان نے اس ضمن میں اشتہار بھی شائع کیا ہے جس کے مطابق سرکاری سطح پر مفت ویکسین لگوانے کے لیے پہلے رجسٹریشن کروانا ہو گی۔ این سی او سی کی ویب سائٹ اس سے متعلق طریقہ کار بتایا گیا ہے کہ رجسٹریشن کیسے کروانی ہے۔کورونا وائرس وارڈز میں کام کرنے کرنے والے ڈاکٹر، نرسیں، صفائی کے عملے کے علاوہ ہر طرح کا عملہ جوکورونا وارڈ میں کام کرتا ہے وہ فرنٹ کئیر سٹاف کہلاتا ہے ۔ہیلتھ سٹاف یا لیبارٹری سٹاف جو کوارنٹین سینٹر میں کام کرتا یا گھروں سے کورونا ٹیسٹ نمونے حاصل کرتا ہے ،وہ بھی ان شامل ہے۔ ویکسین لگانے پر جو عملہ لگایا جائے گا اْسے بھی پہلے ویکسین لگا کر مخفوظ کیا جائے گا۔ فلاحی ادارے ایدھی ، چھیپا، ریسکیو 1122 کا عملہ جو ایمرجنسی میں مریضوں کو لانے لے جانے کا کام کرتا ہے۔ان کو پہلے مرحلے میں ویکسین دی جائے گی۔ وطن عزیز میں بالائی اور طاقتور طبقات ہمیشہ قومی مساوات کے تصور کو زک پہنچاتے رہے ہیں۔ابتدائی انتظامات بظاہر تسلی بخش معلوم ہوتے ہیں تاہم یہ خدشہ موجود ہے کہ جس طرح کورونا ٹیسٹنگ کی سہولت کو نجی ہسپتالوں اور لیبارٹریز نے یر غمال بنائے رکھا کہیں ویکسین کی تقسیم کا معاملہ بھی اسی طرح کی بد انتظامی کا شکار نہ ہو جائے۔یہ عمل حکومت کی کڑی نگرانی کا تقاضا کرتا ہے تاکہ ویکسین لگانے کے لئے جو ترجیحات پوری دنیا میں طے کی گئیں انہی کے مطابق پاکستان میں اسے لگایا جائے۔