وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں لاک ڈائون کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عوام نے لاک ڈائون میں نرمی پر احتیاط نہیں کی تو ملک کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہاٹ سپاٹس کو ٹریس کر کے بند اور سلیکٹیڈ لاک ڈائون کرینگے۔ پاکستان میں کورونا کی شدید لہر جاری ہے، جس کے باعث متاثرہ افراد کی تعداد 132405ہو گئی ہے جبکہ 2551افراد اس موذی وائرس کے باعث موت کی آغوش میں جا چکے ہیں اور متاثرہ افراد کی تعداد میںمسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بلوچستان کی صورت حال بھی تشویشناک حد تک جا چکی ہے۔ ڈی جی ہیلتھ بلوچستان نے انکشاف کیا ہے کہ صوبے میں جولائی تک کورونا کیسز کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ اگر احتیاط نہ کی گئی تو یہ تعداد دو لاکھ سے بھی بڑھ سکتی ہے۔ درحقیقت حکومت پاکستان نے غریبوں‘ مزدوروں اور کاروباری افراد کی مشکلات کو مدنظر رکھ کر عیدالفطر سے قبل لاک ڈائون میں نرمی کی تھی، جس کے بعد بازار‘ مارکیٹیں اور شاپنگ مالز کھول دیے گئے تھے۔ حکومت نے غریبوں اور مزدوروں کی حالت زار دیکھ کر یہ فیصلہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے عوام اور دکانداروں نے اس نرمی سے غلط فائدہ اٹھایا۔ حکومتی ایس او پیز کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ ماسک پہنے گئے نہ ہی لین دین کے وقت فاصلہ رکھا گیا، جس کے باعث اب کورونا بڑے شہروں میں بے قابو ہو چکا ہے۔ لاہور میں لاکھوں افراد اس وائرس سے متاثر ہیں۔ ہر محلے سے کوئی نہ کوئی آدمی وائرس سے شکست کھا کر دم توڑ چکا ہے لیکن اس کے باوجود عوام غفلت لاپرواہی اور سستی سے کام لے رہے ہیں۔ پہلے عام شہری اس وائرس کی زد میں تھے لیکن اب بڑے سیاسی مذہبی اور بیوروکریٹس بھی متاثر ہو چکے ہیں۔ وائرس جب پھیلنا شروع ہوا تھا، تو حکومت نے پولیس اہلکاروں اور ٹریفک وارڈن کی حفاظت کے لیے کوئی انتظامات نہیں کئے ،جس کے باعث اب ہمارے محافظ بھی وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کو مزید سختی کرنی چاہیے خدانخواستہ اگر ہم نے اب بھی عقلمندی سے کام نہ لیا تو پھر ان غلطیوں کا ازالہ مشکل ہو جائے گا۔ چین سے جب وبا پھیلنا شروع ہوئی تو اس نے سخت لاک ڈائون کر کے ہی اس کی تباہیوں پر قابو پایا تھا۔ اب دوبارہ بیجنگ میں کورونا نے سر اٹھانا شروع کیا تو ایک بار پھر چینی قیادت نے وہاں پر سخت لاک ڈائون شروع کر دیا ہے۔ چین میں لوگ قانون پر عملدرآمد کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تو قانون کی خلاف ورزی کرنے پر فخر کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف عبوری ضمانت کے لئے جب عدالت آئے تو انہوں نے سینکڑوں کارکنوں کو اکٹھا کر کے تماشا لگایا، جس کے باعث نہ صرف وہ خود وائرس سے متاثر ہوئے بلکہ کئی کارکنوں اور رہنمائوں کی زندگیاں بھی دائو پر لگا دی ہیں۔ جو باعث افسوس ہے، اگر سیاستدان ہی عوامی اجتماع لگا کر لوگوں کو مشتعل کریں گے، ایس او پیز کی خلاف ورزیاں کی جائیں گی تو پھر عام آدمی کیسے حکومتی احکامات پر عمل کرے گا۔ اس وقت پوری دنیا لاک ڈائون ختم کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے، جرمنی نے آج سے تمام سرحدوں پر پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پولینڈ نے سرحدیں کھول دی ہیں، چیک ری پبلک اور فرانس نے بھی آج سے سفری پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ برطانیہ بھی کاروبار بحال کر چکا ہے لیکن ہم مشکلات میں گھرے جا رہے ہیں۔ اس لئے بحیثیت قوم ہم سب کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ، اپنے خاندان‘ عزیز واقارب اور دوست احباب کی زندگیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس وقت وائرس کو شکست دینے والے افراد کی تعداد 50ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔صحت یاب ہونے والے افراد اگر ایک ایک بوتل پلازمہ کی عطیہ کریں تو بھی اس وائرس کو جلدازجلد کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے صحت یاب ہونے والے افراد پلازمہ عطیہ کرنے والی مہم میں بھر پور حصہ لیں تاکہ ہم ایک قوم بن کر دنیا کے سامنے آ سکیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے سخت لاک ڈائون کی ایک بار پھر مخالفت کر دی ہے۔ اب حکومت کو ایسے مقامات کی نشاندہی کر کے انہیں سیل کر دینا چاہیے جہاں سے وائرس کے پھیلنے کا زیادہ خدشہ ہے۔1300مقامات کو سیل کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ،حکومت کو اس سلسلے میں دائرہ کار وسیع کرنا چاہیے کیونکہ اگر ہم اب بھی ایسے مقامات کو سیل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو پھر نئے انفیکشن کے پھیلائو کو روکا جا سکے گا۔ حکومت سلیکٹیڈ لاک ڈائون پر عملدرآمد یقینی بنائے تو بھی کافی حد تک وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ماسک کے بغیر عوامی مقامات پر کسی کو بھی جانے کی اجازت نہ دی جائے سرکاری ملازمین، پولیس اہلکاروں اور ٹریفک وارڈنز کو بھی ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے کے احکامات دیں۔ ماضی میں ہم سے یہی غلطی ہوئی ہے اگر صرف ایک بار ہی 15دن کا سخت لاک ڈاون کیا جاتا تو آج ہم بھی اس پر قابو پا کر سرخرو ہوجاتے،آدھا تیتر آدھا بٹیر کی بجائے یا تو سختی سے احکامات پر عملدرآمد کرایا جائے یا پھر حکومت عوام کو اس کے حال پر چھوڑ دے لیکن آئے روزغربت کا رونا درست نہیں۔ بھوک پر کسی طرح قابو پایا جا سکتا ہے لیکن جو اس وائرس سے چل بسے انہیں واپس لانا مشکل ہے، اس لئے حکومت جو بھی فیصلہ کرے اس پر سختی سے عملدرآمد بھی یقینی بنائے۔