برطانیہ میں چند روز پہلے ایک غیر سرکاری تنظیم نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے لاک ڈاؤن کے دوران بعض لوگوں سے دریافت کرنے کی کوشش کی کہ ان کی زندگی میں کورونا سے کیا تبدیلی آئی۔ ان دو ماہ کی سخت بندشوں کے باوجود انہوں نے کیا کچھ کھویا اور کیا کچھ سیکھنے کو ملا۔جیمز کی عمر تقریباً 75 سال ہے۔ اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتے ہیں۔ انہیں پندرہ مارچ کو اولڈ ہوم منتقل ہونا تھا جس کی خواہش خود جیمز نے اپنے بیٹے اور بہو سے کی تھی۔ اس کی وجہ ان کے بیٹے اور بہو کے بیچ کا شدید تناؤ تھا جس کے باعث جیمز انتہائی افسردہ ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹر نے بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ اولڈ ہوم میں رہ کر زندگی کے باقی دن آرام سے گزاریں اور بہو بیٹے کے درمیان موجود کشیدگی سے خود کو دور رکھیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ اولڈ ہوم نہیں جاسکے۔ مارتھا مانچسٹر میں اپنے دو بیڈ روم فلیٹ میں تب سے اکیلی رہ رہی ہیں جب 11 برس قبل ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ تین شادی شدہ بچے دوسرے شہروں میں رہتے ہیں۔ ایسٹر اور کرسمس کے دوران سارا خاندان ماں کے فلیٹ میں جمع ہوتا ہے۔ اس سال مارتھا نے ایسٹر پر اپنی دو بہنوں کو بھی بلانے کی خواہش ظاہر کی تھی جو جرمنی میں رہتی ہیں۔ تین برس کے بعد ایک دوسرے سے میل ملاپ کا بڑا منصوبہ بنا تھا مگر کورونا نے اس منصوبے پر پانی پھیر دیا۔ٹریسی نے نرسنگ کی تربیت گذشتہ برس مکمل کر لی تھی۔ لندن کے ایک بڑے ہسپتال میں فوراً ملازمت ملی اور وہ دوسری فلورینس نائٹ انگیل بننے کا خواب پورا کرنے کی کوشش میں تھی کہ ہسپتال میں مارچ کے اوائل سے کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کا داخلہ بڑی تعداد میں شروع ہوگیا۔ وہ مریضوں کی ابتر حالت دیکھ کر ذہنی دبائو کا شکار ہوگئی اور جسمانی تھکاوٹ کا اندازہ ہی نہیں رہا تاہم اپنی ملازمت روزانہ آٹھ گھنٹے کی بجائے 14 گھنٹے کرنے لگ گئیں۔ ٹریسی کہتی ہیں کہ انہیں خدمت خلق کا یہ بہترین موقع نصیب ہوا۔برمنگھم میں رہایش پذیر پیٹرسن بریگزٹ کے کٹر حامی رہے ہیں۔جیمز نے کہا کہ جس اولڈ ہوم میں وہ بقیہ زندگی گزارنے والے تھے، وہاں موجود 25 بزرگوں میں صرف 10 کورونا سے محفوظ رہے ،باقی سب انتقال کر چکے ہیں۔ ’چونکہ میں دمے کے مرض میں مبتلا ہوں تو کورونا کا وائرس میرے لیے موت کا سبب بن سکتا تھا۔ گھر میں قید رہنے کے سبب میں بچ گیا۔ لاک ڈاؤن کے دوران میں نے کئی بار بہو اور بیٹے کو سمجھایا اور باہمی تناو کو دور کرنے کی سخت تلقین کی۔ معجزاتی طور پر دونوں میں صلح ہوگئی اور اب دوبارہ ازدواجی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اب میں نے سرے سے ہی اولڈ ہوم جانے کا خیال چھوڑ دیا اور بچوں نے مرتے دم تک میری دیکھ بھال کرنے کی قسم کھائی ہے۔ مارتھا نے ایسٹر تنہا گزارہ اور جو ایسٹر پر اخراجات کا بجٹ تھا وہ ایک خیراتی ادارے کو بطور عطیہ دے دیا جو بے گھر افراد کی بہبود کے لیے کام کر رہا ہے۔ مارتھا کی ایک بہن جرمنی میں کورونا وائرس سے انتقال کرچکی ہیں۔ بچے اپنی ماں سے روزانہ ویڈیو کے ذریعے حال چال پوچھتے ہیں جو کورونا سے پہلے کبھی کبھار ہی ہوا کرتا تھا۔مارتھا کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن نے انہیں ایک دوسرے سے ملنے نہیں دیا مگر اس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کے قریب ہوگئی ہیں۔ ’ان کا چہرہ روز ویڈیو کے ذریعے دیکھتی ہوں جو معمولی حالات میں نہیں ہوتا۔ میں تنہا نہیں ہوں بلکہ میرے بچے فون کے ذریعے مجھ سے ساتوں پہر جڑے رہتے ہیں۔ٹریسی کی زندگی اس وقت بالکل بدل گئی جب ہسپتال میں فرائض انجام دیتے دیتے وہ بخار میں مبتلا ہوگئیں اور پتہ چلا کہ وہ کورونا وائرس سے خود متاثر ہوئی ہیں۔ دو ہفتے انتہائی نگہداشت والے وارڈ میں رہنے کے بعد اب گھر میں قرنطینہ میں ہیں۔ٹریسی کو مزید ایک ماہ قرنطینہ میں رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر وہ ابھی فلورینس بننے کا خواب پورا نہیں کر سکیں لیکن انہوں نے اپنی آنکھوں سے ایسی درجنوں فلورینسز کو دیکھا جو کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کی خدمت کر رہی تھیں۔ ان فرشتوں کی بے لوث خدمت دیکھ کر اس کا عزم پختہ ہوگیا کہ صحت یاب ہونے کے بعد وہ اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں گی چاہے اس میں جان کا صدقہ کیوں نہ دینا پڑے۔ وہ فلورینس کا خطاب ضرور حاصل کریں گی۔پیٹر کو جب پتہ چلا کہ وہ وائرس کا شکار ہوگئے ہیں تو وہ انتہائی افسردہ ہوگئے۔ گھر میں اشیا خوردنی موجود نہیں تھیں اوپر سے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی عائد ہوئی تھی۔ پیٹر نے علاقے میں سرگرم عمل رضاکار تنظیم سے رابطہ کیا اور ان سے اشیا اور ادویات فراہم کرنے کی درخواست کی۔دوسرے روز پہلے ایک باریش شخص کھانے کی اشیا لے کر آیا، پھر شام کو سیاہ فام نوجوان ادویات چھوڑ کے گیا۔ یہ سلسلہ چھ ہفتوں تک جاری رہا اور لاک ڈاؤن میں تارکینِ وطن رضاکاروں نے ان کے لیے ہر چیز فراہم کی۔ پیٹر نے ایک ریڈیو سٹیشن پر اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جن کو تارکین وطن کہہ کر وہ ملک سے نکالنے کی مہم شروع کرنے والے تھے انہوں نے انسانیت کا درس دے کر انہیں نئی زندگی عطا کی ہے۔ان کی سوچ کافی بدل گئی ہے اور وہ اس پالیسی پر کام شروع کر نے کا منصوبہ بنا رہے ہیں جو برطانیہ میں تارکین وطن کے مساوی حقوق کے لیے کام کرے گا۔ آج کل وہ اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے لگے ہیں۔کرسٹین کہتی ہیں کہ وہ کروز پر نہیں جاسکیں اور زندگی کا آخری ماہ نہ صرف قید میں گزارہ بلکہ اپنے محبوب سے بھی دور رہیں جس کے ساتھ وہ شادی کے بندھن میں بندھنے والی تھیں۔ شدید ذہنی دبائو کی وجہ سے وہ ہسپتال واپس پہنچ گئیں جہاں بدن میں کینسر کے پھیلنے کی تشخیص دوبارہ شروع کی گئی۔چند روز سے ہسپتال میں وہ ذہنی طور پر خود کو مرنے کے لیے تیار کر رہی تھیں کہ ڈاکٹروں کی ٹیم ان کے پاس آ کر کہتی ہے کہ ان کے بدن میں کینسر ختم ہوگیا ہے۔ وہ تصدیق کے لیے ڈاکٹروں سے بار بار پوچھتی ہیں لیکن ڈاکٹر اس کو ہسپتال سے فارغ کر کے نارمل زندگی گزارنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کرسٹین کی شادی جولائی میں اب طے پائی ہے اور میری طرف سے سب کو دعوت ہے کہ ان کی شادی میں ضرور آئیں۔آخر میں ایک بات گوش گزار کرنا چاہتی ہوں کہ زندگی کے ہزاروں منصوبے ضرور بنائیں مگر منصوبوں کی کامیابی کے لیے اللہ تعالی سے مدد بھی مانگتے رہیں کیونکہ اس کی مرضی کے بغیر کوئی بھی منصوبہ روبہ عمل نہیں ہوتا ہے۔