سننے میں نام، کتنا رْومانی اور شاعرانہ ہے۔ لیکن اس کی قہرمانیوں نے، کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ اس سے کوئی بھلی یاد وابستہ کی جائے! کسی شے کی صحیح قدر، اس کے کھو یا گھٹ جانے کے بعد آتی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے رّب کی، کون کون سی نعمتوں کو جھْٹلائو گے؟ واقعی! صرف جسم و جان ہی میں، اتنی تہہ داری اور ان گنت ایسی نعمتیں رکھ دی گئی ہیں کہ شمار ممکن نہیں۔ جان اور بدن کا معاملہ، اتنا نازک اور لطیف ہے کہ اس کا سمجھنا محال ہے۔ کیوں نہ ہو؟ ع جان ز تن مستور و تو در جان نہان انسان کو عطا کی گئی ساری حسیں، انمول ہیں! بقول آتش بدن سا شہر نہیں، دل سا بادشاہ نہیں حواس خمسہ سے بڑھ کر، کوئی سپاہ نہیں چند روز پہلے، بعض علامات مجھ میں ظاہر ہوئیں، جو کورونا کی چغلی کھا رہی تھیں۔ اگر کورونا ہی تھا تو عجب شان، عجیب رنگ میں وارد ہوا۔ ایک روز کھانا کھاتے ہوئے، مزے میں کچھ فرق محسوس ہوا۔ ایسا لگا کہ ذائقے میں، کوئی چیز کم ہے۔ اگلے روز ذائقہ تقریباً مکمل طور پر غائب ہو گیا اور ساتھ ہی سونگھنے کی حس بھی معطل ہو گئی۔ پتا چلا کہ یہ علامات، کورونا کے ان مریضوں میں بالکل آخر میں آتی ہیں، جو دیگر مراحل، مثلا بخار، کھانسی وغیرہ سے گزر چکے ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ اپنے ساتھ جہاں اَور سارے کام مختلف ہوتے ہیں، کورونا بھی انوکھے انداز میں لاحق ہوا ہے۔ تیسرے دن، ذائقہ اور شامہ، دونوں کی کچھ کچھ واپسی ہونے لگی۔ چوتھا روز، معمول کا تھا۔ اس کے سوا، کوئی علامت مجھ میں ظاہر نہیں ہوئی۔ میری تندرستی الحمدللہ بہت اچھی ہے۔ سالانہ موسمی زکام تو ہوتا ہی ہے، پر اس کے سوا، پچھلے پچیس تیس برسوں میں، بخار صرف ایک ہی بار آیا ہے۔ اس تفصیل اور پھر کورونا کے ذکر سے، مقصد یہ نہیں کہ بتایا جا سکے ع گئی ہے، میر! گولی کان پر سے بلکہ کچھ احتیاطیں اور چند تدبیریں گوش گزار کرنا ہیں۔ دن میں دس پندرہ منٹ کے لیے، تازہ ہوا ضرور کھائیے اور چند منٹ دھوپ میں گزاریے۔ اس میں ذرا سی مشکل یہ ہے کہ آپ کو صحن میں بیٹھا دیکھ کر، ممکن ہے کہ کوئی ہمسایہ یا راہگیر دعا سلام کے لیے آنا چاہے۔ ہے تو ہماری تہذیب کے خلاف، لیکن اس سے یہ سمجھ کر معذرت کر لیجیے کہ آپ اس کے ساتھ نیکی کر رہے ہیں! کھانے میں ہلدی، ادرک، لہسن اور پیاز شامل کیجیے۔ ہمارے کھانوں میں، ہر سبزی کا ناس مار دیا جاتا ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ پیاز کچی کھائی جائے۔ لہسن اور ادرک جیسی کسیلی چیزوں کو بھی کھانے کی، کئی ترکیبیں ہیں۔ وٹامن سی کی مقدار پوری ہونی بھی ضروری ہے۔ موسم کے کسی نہ کسی پھل میں، یہ وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ نہار منہ دہی کھانا، شعار کیجیے کہ اس کے بھی فوائد بے شمار ہیں۔ ہلدی کے اجزاء میں ایک چیز ہوتی ہے ‘‘کرکمِن’’، جو تین چار فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ امریکا میں اس جْز کو نکال کر، اور کالی مرچ سے ترکیب دے کر، علیحدہ فروخت کیا جاتا ہے۔ اس کی تاثیر اور فائدہ کیا بیان کیا جائے! آپ ورزش کرتے ہیں، ایسے میں موچ آ جانا یا کسی پٹھے کا کھنچ جانا، معمولی بات ہے۔ اس مْرکب کی دو تین خوراکیں پھانک جائیے اور پھر اس کے کرشمے ملاحظہ کیجیے! دو حِسیّات کی معزولی، گو عارضی اور بے ضرر تھی، مگر اس دوران میں، تصور نے بہت کچھ دیکھ لیا! پہلے تو یہ نکتہ، پوری طرح ذہن نشین ہو گیا کہ جن لوگوں کے ساتھ، کوئی معذوری لگی ہوتی ہے، ان میں کئی خصوصیات بہت بڑھ جاتی ہیں۔ مثلاً، پیدائشی نابینا حضرات کو، اگر آپ نے دیکھا ہے، تو میں ان میں سے اکثر کا حافظہ، نہایت قوی پایا ہو گا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ نظر جہاں بہت کچھ دکھاتی ہے، اْلجھاتی بھی ہے، بھٹکاتی بھی ہے! یہی حال، باقی چار حِسّوں کا بھی ہے۔ حواس ِخمسہ کے ساتھ، آدمی کا امتحان بھی جْڑا ہوا ہے! اگلے وقتوں کے بزرگ، اس الجھائو سے کیسے بچتے تھے، اس کی حکایت سنیے۔ بزرگی دیدم، اندر کوہساری قناعت کردہ از دنیا، بہ غاری چرا، گْفتم، بہ شہر اندر نیایی؟ کہ باری، بندی از دِل بر گشایی بگفت ’’آنجا، پری رویان ِنغزند‘‘ ’’چو گِل بسیار شْد، پیلان بلغزند‘‘ یعنی، ایک بزرگ، دنیا سے منہ موڑے، پہاڑوں میں جا بسے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ، شہر میں کیوں نہیں آتے؟ یہاں دل خوش کن، کتنی ہی چیزیں ہیں۔ فرمایا کہ دل شہر کے ساتھ، شہر والوں میں بھی اٹک کر رہے گا۔ کیچڑ جہاں زیادہ ہو، وہاں ہاتھی تک پھسل جاتے ہیں! میڈیکل سائنس ایسی آئی ہے اور یوں چھائی ہے کہ طب اور حکمت کو ہم، ہیٹھا سمجھنے لگے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں بہت کچھ ہاتھ، عطائیوں کا ہے۔ سودا، جو ہجویات کے بادشاہ تھے، اس کا بھی ذکر کر چکے ہیں۔ صدر کے بازار میں ہے اک دبنگ عار ِاطباء و طبابت کا ننگ لیکن ع خدا پنج انگشت یکسان نکرد جن سبزیوں اور جڑی بْوٹیوں کا ذکر اوپر آیا ہے، پْرانے حکیمی نسخوںکی بدولت، آج دوبارہ مقبول ہو رہی ہیں۔ آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے، انحصار حکیموں پر ہی کیا جاتا تھا۔ حذاقت میں، مثلاً دلی کے حکیم نابینا، اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ پیچیدہ بیماریوں کو، یہ نبض پڑھ کر بھانپ لیتے تھے۔ کسی زمانے میں، علامہ اقبال کو ایک عارضہ لاحق ہوا تھا۔ علامہ اس سے سخت تکلیف میں تھے۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ کشمیر جا کر، بڑے سرجن سے آپریشن کرائیں۔ خبر حکیم صاحب تک پہنچی تو پیغام بھیجا کہ جانے سے پہلے، دو تین روز کو، ایک ذرا دلی سے ہو کر جائیے۔ حکیم صاحب کی دوا سے، علامہ کی تکلیف جاتی رہی اور بامْراد، لاہور پلٹ گئے۔ انسان کو دنیا میں بھیجا گیا ہے تو اسے لاحق ہو سکنے والی ساری بیماریوں کا علاج، پہلے پیدا کر دیا گیا۔ کمال یہ ہے کہ جتنی حیرت کائنات کی وسعت کو دیکھ کر ہوتی ہے، اس سے زیادہ، ان چیزوں کے خواص جان کر ہوتی ہے، جنہیں ہم حقیر جانتے ہیں۔ سچ کہا گیا ہے کہ اک ذرے کا اگر حْسن، نمایاں ہو جائے آدمی کثرت ِانوار سے، حیراں ہو جائے کمال ایسا کہ سب ہیں حیرت، جمال ایسا کہ سب نظر ہیں!