کورونا وبا میں شدت کے پیش نظر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے تمام تجارتی سرگرمیاں رات آٹھ بجے ختم کرنے اور ہفتے میں دو روز کاروبار مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ این سی او سی نے کورونا وائرس کے پھیلائو کی حالیہ لہر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام صوبوں کے اتفاق رائے سے سخت اقدامات اور ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ سنٹر سے جاری ہدایات کے مطابق مختلف شہروں میں ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے جن سے وائرس کے پھیلائو میں اضافہ ہورہا ہے۔ جن علاقوں میں کورونا کی شرح آٹھ فیصد سے زائد ہے وہاں نئی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں جبکہ آٹھ فیصد سے کم مثبت شرح والے علاقوں پر پہلے سے نافذ ضابطوں کو موثر بنایا جارہا ہے۔ پنجاب اور گلگلت بلتستان کے متعدد شہروں میں ایمرجنسی کے سوا نقل و حرکت پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ ہوٹل اور ریسٹورنٹس میں ہر قسم کی ان ڈور ڈائننگ بند ہو گی۔ آپریشن سنٹر نے طے کیا ہے کہ ہفتے میں دو روز تعطیل کا فیصلہ وفاق اور صوبے خود کریں گے۔ تازہ ہدایات کے تحت پبلک پارکس مکمل طور پر بند کردیئے گئے ہیں۔ بند مقامات پر ہر طرح کی ثقافتی، سماجی اور مذہبی تقریبات پر پابندی ہو گی‘ واکنگ اور جاگنگ ٹریکس ایس او پیز کے ساتھ کھلے رکھے جا سکیں گے۔ شادی تقریبات کی کھلی جگہ اجازت ہو گی جبکہ ریلوے سروسز کو ستر فیصد صلاحیت بروئے کار رکھنے کا کہا گیا ہے۔ یہ پالیسی 11 اپریل تک نافذ رہے گی۔ فروری 2020ء سے لے کر تادم تحریر دنیا تبدیلی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ انسانی آبادی میں اضافہ‘ بڑے شہروں کی آباد کاری‘ ہجوم سے بھرے بازار‘ بڑی بڑی تقریبات اور گھر سے باہر کھانے قصہ ماضی ہو گئے۔ یہی نہیں عبادت گاہوں میں ایس و پیز کے ساتھ داخلہ‘ تعلیمی اداروں میں آن لائن تعلیم‘ کھلے میدان کی کھیلوں کی جگہ ان ڈور تقریبات کا رواج فروغ پا رہا ہے۔ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ انسان وسائل اور آبادی کے درمیان توازن کو بگاڑ بیٹھا ہے۔ قدرت نے کچھ حفاظتی انتظامات کر رکھے ہیں جنہیں انسانوں کی ہوس طاقت و دولت نے مجروح کیا ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جو خود کو باقی ریاستوں سے ترقی یافتہ و مہذب قرار دیتے ہیں کورونا نے وہاں زیادہ تباہی پھیلائی ہے۔ اس سے دنیا کو یہ سوچنے کا موقع ملا ہے کہ ترقی کا مفہوم درست پس منظر کے ساتھ اجاگر نہیں ہوا۔ کورونا کی وبا نے پاکستان کو کئی پہلو سے متاثر کیا۔ عوام کی بڑی تعداد ناخواندہ ہی نہیں پسماندہ بھی ہے۔ احتیاط کرنے پر آمادہ نہ وبا کی سنگینی کو سمجھنے پر تیار‘ حکومت کی مشکل یہ کہ صحت و علاج کا ڈھانچہ کمزور ہے‘ ہسپتالوں کے پاس الگ وارڈ یا بیڈ لگانے کی گنجائش نہیں۔ وینٹی لیٹر کی مطلوبہ تعداد دستیاب نہیں‘ طبی عملہ پچھلے ایک سال سے دن رات اس وبا سے لڑ رہا ہے لیکن آج بھی اس کی کمی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک نے اپنے لوگوں کو حفاظتی ویکسین لگانے کا عمل برق رفتاری سے جاری رکھا ہوا۔ پاکستان کو دوست ملک چین سے 5 لاکھ ویکسین ڈوز ملیں جن کا آدھا حصہ ابھی تک بزرگ افراد کو انجکشن کی صورت لگایا نہیں جا سکا۔ کورونا ویکسین لگوانے کے سنٹرز غلط جگہ بتائے جا رہے ہیں۔ کچھ دیگر ٹیکنیکل مسائل بھی ہیں جو اس مرحلے پر درپیش ہیں۔ کورونا کی پہلی لہر کے وقت سب سے موثر انسداد سماجی فاصلہ رکھنا اور ماسک کا استعمال تھا۔ بعد کے تجربے نے ثابت کیا کہ یہی احتیاطیں کورونا سے بچائو کا ذریعہ ہو سکتی ہیں۔ حکومت نے ملک بھر میں لاک ڈائون کا اعلان کیا‘ ہر قسم کی ٹریفک بند کردی گئی۔ کاروبار، دفاتر اور تعلیمی ادارے بند کئے گئے۔ اس بندش سے کورونا کی وبا روکنے میں کافی مدد ملی لیکن بہت سے لوگوں کا روزگار چھن گیا۔ وفاقی حکومت نے 200 ارب روپے سے احساس کفالت پروگرام شروع کیا۔ تاجروں کو بجلی کے بلوں میں رعایت دی گئی۔ مخیر حضرات نے اس موقع پر کم وسیلہ افراد کی مدد کی۔ یوں مل جل کر وبا کی شدت کے دن گزار لیے گئے۔ حکومت کی اپیل پر عالمی اداروں نے اس مشکل وقت میں قرض کی اقساط موخر کردیں۔ آئی ایم ایف نے بہت سے شعبوں کے لیے سبسڈی کے خاتمہ کی جو شرط رکھی تھی وہ بھی کچھ عرصہ کے لیے ملتوی ہو گئی۔ کورونا کی حالیہ لہر سے قبل دیکھا گیا کہ عوامی سطح پر احتیاطی تدابیر سے غفلت کا مظاہرہ کیا جارہا تھا۔ ہاتھ دھونے‘ ماسک کا استعمال کرنے‘ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے ‘ اجتماعات کے لیے ایس او پیز کی خلاف ورزی اور علاج کے ضمن میں غیر سنجیدگی پھر ہمیں ایک بحران کی زد میں لے آئی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض صوبائی حکومتیں احتیاطی تدابیر اور لاک ڈائون کے معاملات پر ایک دوسرے سے اختلاف کرتی رہی ہیں‘ یوں کسی نہ کسی علاقے میں حفاظتی انتظامات میں سقم رہا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر قومی اتفاق رائے کی علامت بن کر ابھرا ہے۔ کورونا کے انسداد کی خاطر اتفاق رائے سے فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ اس بار کورونا کی شدت پہلے سے زیادہ ہے۔ یقینا آپرشن سنٹر نے جو فیصلے کئے ہیں ان کی ایک معاشی قیمت قوم کو ادا کرنا پڑے گی لیکن کروڑوں لوگوں کو وبا سے بچانے کے لیے ان فیصلوں پر عملدرآمد ضروری ہو چکا ہے۔ طبی عملہ‘ حکومتی ذمہ داران اور رضا کار اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن اصل کردار عوام کو خود ادا کرنا ہے۔ جب تک تمام افراد کو ویکسین نہ مل جائے سخت حفاظتی تدابیر پر عمل کر کے خود کو موذی وبا سے محفوظ رکھیں۔